ریسرچ اور ہماری یونیورسٹیاں
سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر جناب فواد چوہدری نے کہا ہے کہ دنیا بھر کی یونیورسٹیاں کرونا وائرس کے متعلق حکومتوں کی مدد کر رہی ہیں مگر پاکستانی یونیورسٹیاں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔یونیورسٹیوں کا کام ریسرچ کرنا ہوتا ہے جس کے لئے حکومت یونیورسٹیوں کو اربوں روپے کا فنڈ دیتی ہے۔یونیورسٹیاں کچھ تو کردار ادا کریں۔یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو سوچنا چائیے کہ دنیا بھر میں یونیورسٹیاں ریسرچ اور پالیسی پیپر سے حکومتوں کو گائیڈ لائنز دے رہی ہیں۔ یونیورسٹیاں کرونا وائرس پر ریسرچ کر رہی ہیں۔ یونیورسٹیوں کا کام صرف پی ایچ ڈی کرانا نہیں، ایسے حساس معاملے پر بھی سوچنا ہے۔
موجودہ کابینہ میں وہ چند لوگ جو سوچتے اور ا پنی اس سوچ کا کھل کر اظہار کرتے ہیں ان میں جناب فواد چوہدری کا نام بہت نمایاں ہے۔ انہوں نے بہت ٹھیک بات کی کہ موجودہ حالات میں ریسرچ کے حوالے سے یونیورسٹیوں کا کردار ہونا چاہیے۔ مگر کیا کیا جائے، انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ اس حکومت نے کیا نیا کام کیا ہے، کچھ بھی نہیں۔ کیا وائس چانسلر اور دوسرے انتظامی اھلکار میرٹ پر منتخب ہونے لگے ہیں، کیا پرانے سیٹ اپ میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ کیا کچھ انقلابی تعلیمی اقدامات ہوئے ہیں، نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوا اور نہ ہو رہا ہے۔کیوں نہیں ہو رہا یہ بہت غور طلب مسئلہ ہے۔ مگر اس پر غور کرنا حکومتوں نے ان لوگوں کے سپرد کیا ہوا ہے جو موجودہ حالات تک ہمیں پہنچانے کے اصل مجرم ہیں۔ پی ایچ ڈی تحقیق کی ڈگری ہے۔ فلاسفی کے معنی فہم و فراست سے محبت ہے۔ کوئی شخص جب اپنے مضمون سے اس قدر محبت کرنے لگتا ہے کہ وہ اس میں جذب ہو کر اس کے بارے سوچتا اور نتائج اخذ کرتا ہے تو ہم اسے ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری دے دیتے ہیں۔
سال2000 تک میں نے پنجاب کی سطح پر اساتذہ کی بھر پور نمائندگی کی ہے۔ اس وقت پی ایچ ڈی کرنے والے بیس فیصد افراد کچھ ہیرا پھیری کرتے تھے مگر بہت سے لوگ کچھ نہ کچھ ریسرچ بھی کرتے تھے۔ ہیرا پھیری والے افراد کہیں سے کوئی مقالہ ڈھونڈھ کر اس کا عنوان اور کچھ حصے بدل کر شائع کرا لیتے۔ لیکن بہت سے لوگوں کاکام ٹھیک بھی تھا، گو اس میں کافی کام بہت معیاری نہ تھا مگر ان حالات میں غنیمت تھا۔ ہم نے بہت سعی کی کہ حکومتی پالیسیاں اس انداز میں تشکیل ہوں کہ لوگ گریڈوں کی ریس میں شامل ہونے کی بجائے صحیح معنوں میں ریسرچ کی طرف مائل ہوں۔ ہمارا مطالبہ تھا کہ پی ایچ ڈی ریسرچ کی ڈگری ہے۔ ریسرچر کا انتظامی معاملات سے کیا تعلق۔ انہیں انتظامی معاملات سے بالکل الگ رکھا جائے۔ انتظامی معاملات دوسرے لوگ دیکھیں۔ مگر یہ پی ایچ ڈی حضرات بڑی تیزی سے طاقت حاصل کرتے ہوئے مافیہ میں تبدیل ہوتے گئے۔
کوئی بھی شخص اگر گہری نظر سے ہمارے تعلیمی نظام کو دیکھے تو اسے پتہ چل جائے گا کہ تعلیم کے لحاظ سے ایم اے یا ایم ایس سی سے زیادہ پڑھا لکھا شخص کوئی نہیں ہوتا۔ ایم فل یا پی ایچ ڈی کرنے والا شخص ایک بہت چھوٹے سے خاص موضوع کے بارے تو کچھ زیادہ جانتا ہے مگر باقی مضمون میں وہ دوسروں سے ہم پلہ ہی ہوتا ہے۔ ایک شخص غالب کی شاعری کے کچھ مخصوص حصے پر مقالہ لکھنے سے دوسروں پر کیا سبقت حاصل کرتا ہے۔ مگر یہ عجیب ہے کہ ایم اے میں اپنی کلاس میں بمشکل پاس ہونے والا اقبال کی ایک نظم پر مقالہ لکھنے کے بعد اپنی کلاس میں اول، دوم اور نمایاں سارے دوسرے بہتر بچوں سے برتر قرار پاتا ہے۔ ایک شخص پانچ مرلے زمین پر چھوٹے چھوٹے قطعات کی شکل میں کئی قسموں کے آلو بوتا ہے اور پھر ایک مقالہ لکھتا ہے کہ فلاں بیج سے تیار کردہ آلو بہترین ہے۔ وہ زراعت میں ڈاکٹریٹ حاصل کر لیتا ہے۔ آلو پر اس کی علمیت مسلمہ،مگر ایک تجربہ کار کسان، جس کی ساری عمر کاشتکاری میں گزری ہے اور جس کو ہر فصل کے بارے میں وسیع علم ہے، اس پر اسے کیسے فوقیت دی جا سکتی ہے۔مگر یہ پاکستان ہے، یہاں کے سیاستدان آسانی سے اس مافیا کے لوگوں کے ہاتھ ٹریپ ہو جاتے ہیں اور اس مافیا کے لوگ اپنی علمیت کا راگ گا کر ذاتی منفعت حاصل کر لیتے ہیں۔ مجھے کسی پی ایچ ڈی کی کوئی ریسرچ ایسی نظر نہیں آئی جس میں کوئی ایسی نئی چیز ہو کہ قوم اس سے فائدہ اٹھا سکے۔۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام سے اس ملک کی تعلیمی قدروں میں آخری میخ ٹھونکی گئی۔اس وقت سے آج تک تعلیمی نظام تیزی سے انحطاط کی طرف گامزن ہے۔ یونیورسٹیوں سے اچھے اساتذہ کو فارغ کر دیا گیا۔ رجسڑار، کنٹرولر اور ایسے تمام عہدے جو نان ٹیچنگ سٹاف کا استحقاق تھا اس پر ان کو ان کے جائز حق سے محروم کرکے یہ پی ایچ ڈی مافیا قابض ہو گیاہے کیوں کیا تجربہ ہے انہیں اس کام کا۔ یہ لوگ پڑھانے سے معذور ہیں، اس لئے ایسی پوسٹوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اب یونیورسٹیوں میں سیاست ہوتی ہے، یا خانہ پوری۔ استاد جو کبھی پیسے کی حرص میں مبتلا نہیں تھا، اب اس مافیے کے سبب خود کو بیوروکریٹ جان کر اسی انداز کی مراعات کی جدوجہد میں ہے۔ اسے بچوں سے کوئی غرض نہیں، ان کا مستقل تباہ ہوتا ہے تو ہو، اس کے مفادات پورے ہونے ضروری ہیں۔ اسے یہ اندازہ ہی نہیں کہ تعلیمی ادارے بچوں ہی کے بل پر ہیں۔ بچے نہیں تو استاد بھی فارغ۔ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ پچھلے پندرہ سالوں میں جو پی ایچ ڈی لوگ آئے ہیں وہ نوے فیصد کٹ اور پیسٹ کی پیداوار ہیں۔ کوئی مقالہ لیا،اس کا عنوان بدلا، کمپیوٹر کو کمانڈ دی اس میں سے وہ سب غائب کر دیا جو سرقے کے ضمن میں آ سکتا ہے۔ نیا مقالہ تیار۔ اتنی محنت بھی نہیں کر سکتے تو تھوڑے سے پیسے خرچ کریں، بہت سے ادارے آپ کے دئیے ہوئے موضوع کے مطابق مقالہ تیار کرکے آپ کو دے دیں گے۔ ایسے ادارے بھی ہیں جو کسی یونیورسٹی کی ایسی ڈگری جو ہائر ایجوکیشن کمیشن آسانی سے تصدیق کر دے، ڈیڑھ دو لاکھ میں مہیا کر دیں گے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن ایک ایسا سفید ہاتھی ہے جو اس ملک کے تعلیمی نظام پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ایک چیرمین، نو ڈائریکٹر جنرل، بیسیوں کنسلٹنٹ، آٹھ سو سے زیادہ عملہ۔بے حساب گاڑیاں، پٹرول، افسروں کے شاہانہ اخراجات۔ یونیورسٹیوں کو دینے والی گرانٹ کا بڑا حصہ تو یہ خود کھا جاتا ہے۔ اصل حقداروں کے حصے میں بہت کم آتا ہے۔ پوری دنیا میں یونیورسٹیاں آزاد ہوتی ہیں۔ یہاں نہ یونیورسٹیاں آزاد ہیں نہ ہی ان کے وائس چانسلر۔ وائس چانسلر کا انتخاب انتہائی چاپلوس لوگوں میں سے کیا جاتا ہے۔ سینارٹی کی کوئی قید نہیں ہوتی۔شرط صرف اور صرف سیاسی تابعداری ہے۔کوئی اہل آدمی جو اس حکومت نے لگایا ہو نظر نہیں آتا۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کی کارکردگی کسی صورت بہتر نہیں ہو سکتی۔ تعلیم کی بہتری کے لئے اسے ختم کرنا اور یونیورسٹیوں کو آزادی دینا ضروری ہے۔ ہائر ایجو کیشن کا سارا کام تو وزارت کے لوگ بہتر اور بہ آسانی کر سکتے ہیں۔ اچھا کام بندوں کی تعداد بڑھا کر نہیں بلکہ اہل لوگوں کو ان کا حق دے کر لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ایسی حکومت آ گئی جس کے وزرا کو اپنے عزیزو اقارب کھپانے کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ضرورت نہ ہوئی اور اس کے وزرا سوچنے پر مائل ہوئے تو ہائر ایجوکیشن کمیشن کا مستقل تاریک ہے۔ اسے فوراً ختم کر دینا ہو گا۔ پی ایچ ڈی حضرات کو انتظامی عہدوں سے ہٹانا ہو گا۔ورنہ اسے ڈوبنا تو ہے، انشا اللہ جلد ہی یہ پورے نظام تعلیم کو ہی نہیں اور بھی بہت سوں کو ڈبو دے گا۔