اٹھارہویں ترمیم،مجیب الرحمان شامی اور منیر احمد خان میں مکالمہ
معروف صحافی سینیئر تجزیہ نگا اور روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمان شامی اور سیاسی تجزیہ نگار، معروف رہنما منیر احمد خان کے درمیان گزشتہ رو ز 18ویں ترمیم کے حوالے سے ایک مکالمہ ہوا جس میں مجیب الرحمن شامی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا یہ ایک پراسیس ہے، بنیادی بات ہے جو ادارہ دستور بناسکتا ہے وہ اس میں ترمیم بھی کرسکتا ہے۔ اس کی مشکلات کیا ہیں؟ اس میں کنکرٹ لسٹ ختم کی گئی ہے۔ آپ مجھے ایک بات بتائیے جو دستور تھا ہمارا اس میں تین قسم کی فہرستیں تھیں یا تین قسم کے اختیارات تھے، ایک وہ جو وفاق کا اختیار ہے، ایک وہ جو صوبوں کا ختیار ہے، ایک وہ جو دونوں کا اختیار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی معاملات ایسے ہیں کہ وہ اوورلیپ کرتے ہیں۔ صوبے بھی متعلق ہوتے ہیں، وفاق بھی متعلق ہوتا ہے۔
انڈیا میں بھی کم و بیش 50 ایسے سبجیکٹ ہیں جو کنکرٹ لسٹ میں شامل ہیں۔ دنیا میں جہاں جہاں پارلیمانی طرز حکومت ہے، میں نے دیکھا ہے کہ اکثر ممالک میں وہ کنکرٹ لسٹ بھی موجود ہے۔ تو پاکستان کے دستور میں وہ کنکرٹ لسٹ ختم کردی گئی۔ اس کے نتیجے میں جو وفاقی محکمے تھے بہت سے وہ صوبوں کو چلے گئے۔ اس کے بعد وفاق میں، وفاق میں وہ محکمے ختم ہوجانے چاہئیں تھے او روفاق میں بڑے پیمانے پر رد و بدل ہونا چاہیے تھا۔ جو ردوبدل نہیں کیا جاسکا، وفاق پر جو بوجھ تھا وہ بھی برقرار رکھا۔ اور صوبوں کو وہ محکمے منتقل ہوئے، وہاں تربیت یافتہ لوگ بہت کم تھے، صوبے ان کو زیادہ اچھی طرح سنبھال نہیں پائے۔ مثال کے طور پر خاندانی منصوبہ بندی پاپولیشن کنٹرول، وہ بھی صوبوں کو دے دیا گیا۔ گزشتہ 9سے 10 سال میں اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت آبادی ہے۔ ایسے کئی موضوعات ہیں۔اس کے بعد جو ریو نیو ہے، وسائل کی تقسیم۔ وسائل کی تقسیم کے حوالے سے اٹھارہویں ترمیم کا کچھ لینا دینا نہیں۔ وہ کرتا ہے نیشنل فائنانس کمیشن، اس میں ایک بات لکھی گئی۔ وہ یہ بات لکھی گئی جو صوبے کسی کا حصہ ایک دفعہ مقرر ہوجائے، پرسنٹیج جو ہے، اس پرسنٹیج کم نہیں ہوسکے گی۔ کسی صوبے کی فیصد تناسب ہے آپ اس کو متاثر نہیں کرسکتے، ایک معاملے میں یہ خاموشی ہے۔ اگر صوبے خود چاہیں اتفاق رائے سے تو وہ کیا اپنے کسی حصے سے دستبردارہوسکتے ہیں۔
اس بارے میں دستور خاموش ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہاں ایک انٹرپٹیشن کی گنجائش موجود ہے۔ اگر صوبے اتفاق رائے سے یہ چاہیں کہ ہنگامی ضرورت ایسی ہے اس میں کچھ اپنے حصے سے دستبردار ہوسکتے ہیں، ایک دفعہ حصہ لے کر کنٹریبیوٹ کرسکتے ہیں دوبارہ۔یہ جو ہمارا ساتواں این ایف سی ایوارڈ ہے، جو 2010ئمیں آیا جس میں شوکت ترین صاحب وزیر خزانہ تھے، یوسف رضا گیلانی صاحب وزیراعظم تھے، آصف علی زرداری صاحب صدر تھے اور شہباز شریف صاحب وزیر اعلیٰ تھے۔ تو وہ جو ایوارڈ ہے اس میں پہلی دفعہ تو وسائل کی تقسیم ہے وہ کم و بیش 57 فیصد صوبوں کے پاس چلی گئی اور مرکز کا حصہ کم ہوگیا۔ بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت اٹھارہویں ترمیم نہیں تھی، اگر وہ آئی ہوتی اور آپ کہتے چونکہ صوبوں کا بوجھ زیادہ ہوگیا ہے، اسے محکمے زیادہ مل گئے ہیں اس لیے یہ تقسیم کی گئی ہے۔ لیکن یہ تقسیم اس سے پہلے ہوچکی تھی اور اگر یہ تقسیم جو تھی بات میں ہوتی تو او ربات تھی۔اس لیے اب بحث یہ ہورہی ہے کہ ہمارے قرضے بہت زیادہ ہورہے ہیں۔
ڈیفنس پر خرچہزیادہ ہوا۔ دہشتگردی کے خلاف ہمیں لڑائی لڑنی پڑی، یہاں انٹرنل سکیورٹی کے مسائل بھی ہیں۔ تو مرکز جو ہے وہ یہ بوجھ نہیں اٹھاپارہا، اس لیے وہ صوبوں کی معاونت چاہتا ہے۔ اس وقت جو موضوع ہے وہ یہ ہے۔مرکز جو ہے وہ پیار محبت سے مل بیٹھ کر، جیسے گھر میں ہم بہن بھائی اکٹھے ہوتے ہیں مسئلے مسائل حل کرتے ہیں۔ لیکن موجودہ وفاقی حکومت جو ہے وہ اس صلاحیت سے محروم ہے، اس لیے اس نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا اور ایسی ڈسکشن ہم نے شروع کردی جس کی ضرورت نہیں تھی سوسائٹی میں۔چھوٹے صوبوں کا مسئلہ اس وقت نہیں ہے۔ تین صوبے کم و بیش ایک پیج پر ہیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، بلوچستان میں مخلوطحکومت ہے۔ سندھ جو ہے وہ اس سے باہر ہے۔، فائنانس کمیشن کے اجلاس میں ایک مختلف شخص جو ہو گا وہ وزیر اعلیٰ سندھ ہوگا۔ تو ان کو یہ چاہیے کہ آپس میں بات چیت کر کے اس مسئلے کا حل نکالیں۔ ملک سب کا ہے، دفاع اس کا سب نے کرنا ہے، سندھ کی حفاظت نہیں ہورہی، پنجاب کی نہیں ہورہی، یا مرکز کی نہیں ہورہی۔ جو قرضوں کا بوجھ ہے وہ بھی اٹھانا ہے، جو سرکاری ادارے ہیں ان کی نجکاری کرنی ہے۔ کئی مسائل ایسے پینڈنگ ہیں ان پر غور کرنا چاہیے اور ان کا راستہ نکالنا چاہیے۔
اسحاق ڈار صاحب نے ایک تجویز پیش کی ہے، کہ ڈیفنس ایکسپینڈ نیچے، جو ہے پہلے اس کو ایک طرف کردیا جائے، وہ منفی کر کے وسائل اس کے بعد تقسیم کردیے جائیں۔ پرسنٹیج وہی رہے گی، اس پر ایگری کرلیں کہ ڈیفنس ایکسپینڈ نیچے کر لیں، وہ الگ کرلیے جائیں۔ اور دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے، کہ اگر وہ جو فائنانس پر ہے، بجٹ، اس پر ہی حصہ الگ کردیا جائے ڈیفنس کا۔ لیکن پیار محبت سے یہ کام کرنا ہوگا، دھینگا مشتی سے لڑ جھگڑ کر ایسا کم نہیں ہوسکے گا نہ کیا جانا چاہیے۔مکالمے میں حسہ لیتے ہوئے منیر احمد خان نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو اس غصے والی سوچ کو پیچھے ہٹانا ہوگا حکومت کو ہی آگے بڑھ کر سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملانا ہوتا ہے۔چاہے اگر آپ نے آئین میں تبدیلی لانی ہے، چاہے آپ نے این ایف سی ایواڈ بلانا ہے۔آپ چیف منسٹر بلوچستان کو بلا لیتے ہیں، کے پی کے والے بھی آگئے، لیکن جو دوسرے لوگ ہیں اپوزیشن کے لوگ ہیں ان کو بھی راضی کریں نہیں کریں گے تو یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
مجیب الرحمن شامی نے کہا کہجو فیصلہ سازی کا طریقہ ہے اور جو ادارے ہیں، ان کا اختیار تو ان سے بھی چھین لیا۔ پہلے اتفاق رائے ان کے اندر تو ہو، اگر ہم دوسرے اتفاق رائے میں الجھ جائیں گے تو کوئی کام ہی نہیں ہوسکے گا۔ بات یہ ہے، وسائل جو ہیں ان میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ٹیکس کی بیس بڑھنی چاہیے، صوبوں کو اپنے وسائل پیدا کرنے چاہئیں۔ ایگری کلچر انکم ٹیکس، ایگری کلچر انکم پر کو ئی ٹیکس نہیں خواہ آپ 100 مربعوں کے مالک ہیں، صوبے اپنے وسائل بھی پید اکریں۔ ڈیفنس جو سکیورٹی کے مسائل ہیں ان کو الگ سے ڈیل کیا جائے، اگر وہ اپنے حصے سے نہیں دیتے۔اگر آپ یہ چاہیں آپ اس وقت کراچی میں جو امن وامان قائم کیا ہے، سندھ میں جو ہے قانون کی عملداری ہوئی ہے، تو وہ بھی سکیورٹی فورسز کا کام ہے۔ بلوچستان جو پورے قد سے کھڑا ہے، وہاں جمہوری سٹرکچر موجود ہے وہاں وہ بھی سکیورٹی کی وجہ سے۔ اب بھی ہر روز کوئی نہ کوئی ہمارا جوان شہید ہوتا ہے دہشتگردوں کا مقابلہ ہورہا ہے، تو اس لیے یہ سکیورٹی کا مسئلہ ایک صوبے کا مسئلہ نہیں ہے یہ سب کا مسئلہ ہے۔
اس کا حل نکالا جائے، اس کا حل نکل سکتا ہے۔ دوسری بات میں آپ سے یہ کردوں۔ پی ٹی آئی کے دوستوں سے بات ہوتی ہے، پی ٹی آئی کے دوست یہ سمجھتے ہیں اور چپکے چپکے یہ بات بھی کرتے ہیں کہ اتفاق رائے پیدا کرنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے یہ ان اداروں کا کام ہے جو براہ راست اس سے متعلق ہیں۔ یہ کوئی اچھی سوچ نہیں ہے۔ ان اداروں پر یہ بوجھ ہمیں ہیں نہیں ڈالنا چاہیے، یہ اداروں کی ذاتی مفاد اس سے وابستہ نہیں۔ یہ قومی معاملہ ہے، اس میں لیڈنگ رول ادا کرنا چاہیے وزیراعظم کو اور وہاں ذمہ داری نہیں ڈالنی چاہیے جو اسے اٹھانے کی دستوری ذمہ داری نہیں رکھتے۔یہ بڑی میں نے آپ کو باریک بات کی ہے، ان کے ذہن میں کیا ہے، وہ سمجھتے ہیں یہ ہمارے ذمہ داری نہیں ہے۔منیر احمد خان نے کہا کہآپ یہاں پولیو کے لیے فوج کو بلاتے ہیں، دہشتگردی کے لیے فوج کو بلاتے ہیں، بلوچستان کے معاملے کو فوج کو بلاتے ہیں، ابھی جو لاک ڈاؤن کے حوالے سے بھی آپ نے فوج کو تعینات کیا۔ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ ہمارے فوجی ادارے ہیں، افواج پاکستان ہے یہ کوئی شوکت خانم ہسپتال ہے یا کوئی ایدھی فاؤنڈیشن ہے، کہ جب چندہ مانگیں عطیات اکٹھا کریں، یہ ہمارے ادارے ہیں، ہمارے محافظ ہیں، ہم جو چین کی نیند سورہے ہیں انہی کی وجہ سے سورہے ہیں، ہم جو سکون کا سانس لے رہے ہیں ان کی وجہ سے لے رہے ہیں، ان کے لہو کی دیواریں کھڑی ہیں ہمارے ارد گرد۔ ہم یہ کام ان کو کیسے سپرد کردیں، یہ خود کام کرلیں گے۔