اقتدار، اقتدار ہی ہوتا ہے، چاہے کسی ریاست کا ہو یا کسی ادارے کا۔۔۔۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کوئی ایسی شخصیت دکھائی نہیں دیتی جس کا اقتدار دو دہائیوں یا اس سے زائد قائم رہا ہو، ماسوائے مفتی منیب الرحمٰن کے۔ 1998ء میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی سربراہی کا تاج مفتی منیب الرحمٰن کے سر پر رکھا گیا اور 2021 ء تک وہ اس کمیٹی اور اس کے ذمہ فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے بےتاج بادشاہ بنے رہے، بڑے بڑے تیس مار خاں آئے ،مجال ہے کوئی مفتی منیب الرحمٰن کی "سلطنت" میں پَربھی مار سکا ہو۔
22سال کے دوران کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، بڑے بڑے طاقتور حکمران آئے اور تاریخ کے اوراق میں گم ہو گئے، کوئی اقتدار کی مسند پر گیارہ سال رہا تو کوئی آٹھ سال،کوئی پانچ سال رہا تو کسی بیچارے کو تیسری بار بھی پانچ سال پورے نہ مل سکے لیکن مفتی منیب الرحمٰن اپنی "سلطنت"میں پورے 22سال تک براجمان رہے،یعنی ان کا اقتدار دو دہائیوں پر مشتمل نہیں تھا بلکہ دو دہائیوں سے بھی دوسال زیادہ مدت پر مشتمل رہا۔ کسی نے انہیں چھیڑا نہ ہٹانے کی کوشش کی حالانکہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی میں تمام مکاتب فکر کی نمائندگی موجود ہوتی ہے لیکن کسی رکن نے مسلکی تعصب کی بنا پر ان کے خلاف کبھی کوئی سازش بھی نہیں کی حالانکہ مفتی صاحب کے بائیس برسوں پر محیط "حکمرانی" میں درجنوں بار رویت ہلال پر تنازع کھڑا ہوا لیکن مفتی صاحب نے اختلاف کرنے والوں کی ناصرف ڈنکے کی چوٹ پر مذمت کی بلکہ اپنے فیصلے پر ثابت قدمی سے قائم بھی رہے۔
مفتی منیب الرحمٰن انتہائی جذباتی شخصیت ہیں، جب وہ رویت ہلال کمیٹی کے چئیرمین تھے اس وقت متعدد بار قوم ٹی وی چینلز پر ان برانگیختہ جذبات کا مظاہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہے، ہمارے ایک پروگرام میں جیوگرافی ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر منور صابر کے دلائل پر جب مفتی صاحب کی پیشانی سے بہتا پسینہ ان کی پریشانی کا پتا دے رہا تھا اس وقت بھی وہ غصے میں آگئے اور اس بات پر بضد ہوگئے کہ اس پروگرام میں یا تو پروفیسر صاحب بیٹھیں گے یا میں، پروفیسر صاحب انتہائی مہذب اور سلجھی ہوئی شخصیت تھے، انہوں نے خود ہی کہہ دیا کہ شاہد بھائی ! میں چلا جاتا ہوں مفتی صاحب کو رہنے دیں لیکن ان تمام معاملات کے باوجود ہماری طرح پورا ملک بائیس سال تک ان کے فیصلوں کا احترام کرتا رہا ، ان کے اعلان پر روزہ رکھا جاتا تھا اور انہیں کے اعلان پر عید منائی جاتی تھی کیونکہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی ریاستی ادارہ ہے اسے شرعی طور پر قائم کیا گیا لہٰذا اس کا فیصلہ شرعی فیصلہ ہوتا ہے جس کے مقابل کوئی دوسرا فیصلہ قبول نہیں کیا جاسکتا۔
مفتی منیب الرحمٰن کے فیصلے پر اکثر خیبر پختونخوا کے لوگوں کو اعتراض رہتا تھا، مسجد قاسم خان میں ایک متوازی رویت ہلال کمیٹی چاند دیکھ کر اپنا الگ فیصلہ سنا دیتی تھی، اکثر اوقات ان کا فیصلہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے سے متصادم رہتا لیکن ہم نے کبھی اس غیر سرکاری کمیٹی کو سپورٹ کیا نہ ان کے فیصلوں کو تسلیم کیا۔ ہمیشہ مفتی صاحب کے فیصلوں کا احترام کیا گیا۔ رواں سال حکومت پاکستان نے مفتی منیب الرحمٰن کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی ذمہ داری سے سبکدوش کردیا اور ان کی جگہ بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا سید عبدالخبیر آزاد کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا سربراہ بنادیا گیا، مولانا آزاد گزشتہ 15برس سے اسی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے رکن تھے جس کے سربراہ مفتی صاحب تھے یعنی اس ذمہ داری کے لئے کوئی نئے کھلاڑی نہیں بلکہ مستند عالم دین ہیں۔
انہوں نے کمیٹی کا چارج سنبھالنے کے بعد پہلا اجلاس اسی شہر پشاور میں رکھا جہاں سے ہمیشہ اختلاف سر اٹھاتا تھا، اللہ کریم کی رحمت سے پورے ملک میں رمضان المبارک کا آغاز ایک ہی دن ہوا جس پر خیبر سے پشاور تک کوئی اختلافی بات سامنے نہ آئی لیکن جونہی مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے مولانا عبدالخبیر آزاد کی سربراہی میں کے پی کے ، بلوچستان اور سندھ سے موصول ہونے والی شہادتوں کا جائزہ لے کر رویت ہلال کا اعلان کیا تو مفتی منیب الرحمٰن سمیت کچھ ایسے علماء نے ناصرف ان شہادتوں کو گھر بیٹھے بٹھائے رف کردیا بلکہ قضا روزہ رکھنے کا اعلان بھی کردیا۔ پورے ملک میں اس اعلان کے بعد ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا، سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا ہوا، ایک شرعی مسئلے پر بھانت بھانت کی بولیاں بولیں گئیں ، ایسے لگتا تھا جیسے ہر شخص "مفتی" بنا ہوا ہے اور ان کی ہر پوسٹ اور کمنٹ "فتویٰ"ہے۔
اسی دوران مفتی منیب الرحمٰن کا سلیم صافی کو دئیے گئے ایک انٹرویوکا کلپ ملا، جس سے مشکل آسان ہوگئی،اس ویڈیو کلپ میں قضاء روزے کے معاملے پر مفتی صاحب کیا فرما رہے ہیں ان کی گفتگو من و عن احباب کی نذر ہے " اگر ان کو دین کی بنیادی باتوں کا کچھ بھی شعور ہے تو پھر ان کو ماننا چاہئے کہ قضاء تفویض کرنا ریاست کا کام ہے ، یہ کسی کی خاندانی جاگیر نہیں ہے کہ ہمارے خاندان میں چلی آرہی تھی تو ہم بھی کریں گے۔ شریعت کی پابندی ہے کہ آپ متوازی کوئی چیز قائم نہیں کریں گے۔ اس لئے کبھی بھی انہوں نے اپنی شہادتیں ہمارے سامنے پیش نہیں کیں، ان کا رویہ انحراف کا ہے، انتشار کاہے ۔ آج بھی 80فیصد صوبہ سرحد(موجودہ کے پی کے)مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور اگر کوئی شتر بے مہار ہوجائے گا تو پھر ہرجگہ دکانیں کھل جائیں گی پھر جس کی جو مرضی میں آئے گا وہ کرتا پھرے گا۔ اس لئے شریعت کا تقاضا بھی یہی ہے، آئین اور قانون کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جس چیز کے فیصلے کے لئے ادارہ شرعی قائم ہو اس فیصلے کو تسلیم کیا جائے"۔
اس ویڈیو میں مفتی منیب الرحمٰن کی گفتگو بالکل درست ہےلیکن حالیہ رویت ہلال پرمفتی منیب الرحمٰن نے قضا روزے کا جو اعلان کیا وہ ان کے اپنے ہی فتوے کی زد میں آگیا۔قوم دیکھ لے کہ شریعت ، آئین اور قانون کے تقاضے بھی اس وقت بدل جاتے ہیں جب آپ منصب پر نہیں ہوتے؟۔ قوم ان کے فیصلوں کا بائیس سال احترام کرتی رہی اور مفتی صاحب سے دوسرا مہینہ نہیں نکل سکا اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کی کوشش میں رسوائی مول لے بیٹھے۔
(شاہد جاوید ڈسکوی ملک کے معروف صحافی اور کالم نگار ہیں ،کئی قومی اخبارات میں ’فورمز ‘کے انچارج رہے اور اخبارات کے کلر ایڈیشنز میں اپنے قلم کا جادو جگاتے رہے ہیں ،اب ان کی تحریریں اور جاندار تجزیئے ’ڈیلی پاکستان ‘ میں بھی شائع ہوا کریں گے۔ فیڈ بیک کے لئے شاہد جاوید ڈسکوی کے فیس بک پر رابطہ کیا جا سکتا ہے www.facebook.com/daskavi)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔