پسُّو پُل۔ بر استہ عطاءآباد جھیل ۔۔۔۔سبزے کے سب شیڈز وہاں کی خو بانیوں، سیبوں اور چیری کے درختوں میں بکھرے ہو ئے تھے

پسُّو پُل۔ بر استہ عطاءآباد جھیل ۔۔۔۔سبزے کے سب شیڈز وہاں کی خو بانیوں، ...
پسُّو پُل۔ بر استہ عطاءآباد جھیل ۔۔۔۔سبزے کے سب شیڈز وہاں کی خو بانیوں، سیبوں اور چیری کے درختوں میں بکھرے ہو ئے تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط :79
پسُّو پُل۔ بر استہ عطاءآباد جھیل 
اچھی بھلی آباد بستی تھی۔خا موش، پر سکون، کسی still life تصویر کی طرح ساکن۔ سبزے کے سب شیڈز وہاں کی خو بانیوں، سیبوں اور چیری کے درختوں میں بکھرے ہو ئے تھے۔ مسکراہٹوں کی خوش بو ُ التر کی برفوں میں گھل کر آ نے والی ہوا کے جھو نکوں سے ملتی تو شا خوں پر پھوٹتے شگوفوں اور کھلتے پھو لوں کے رنگ اور شوخ ہو جاتے ۔زندگی آسودہ اور شانت تھی۔ پتھروں سے چنی دیواروں اور بھاری شہ تیروں والی نیچی چھتو ں والے گھروں کے بیچ خاموش گلیوںسے گزرتے ہو ئے وقت بھی دھیرے دھیرے دبے پاؤںگزرتا تھا جیسے اس فضاءمیں زیادہ دیر ٹھہرنا چاہتا ہو۔ لیکن اب کچھ روز سے زمین اپنا طور بدل رہی تھی۔ اس کا وجود اپنے آپ سے بے گانہ ہورہا تھا۔ اس کے خا کی وجود میں ایسی دراڑیں پڑ نے لگی تھیں جو اس کا بدن چیر کر اندر بہت گہری اترتی جاتی تھیں۔ اسے کاٹ رہی تھیں۔فوکس (FOCUS )والوں نے اس تبدیلی کو بھانپ کر بستی کے لو گوں کو یہ جگہ چھوڑنے کا مشورہ دیا لیکن کو ئی یوں اپنا گھر چھو ڑ کر تھو ڑا ہی جاتا ہے! یہ اپنی زمین بھلا اجنبی، نا آشنا اور بے مہر کیسے ہو سکتی ہے! یہاں کتنی نسلیں جن میں تھیں اور کتنی مر کر اسی مٹی میں سوئی تھیں۔۔۔ہجرت ایک بہت بڑا سوال ہے، لیکن ہجرت سے بھی بڑا سوال یہ تھا کہ جائیں کہاں؟؟ بھلا یہ بھی کوئی سوچتا ہے کہ گھر کے علاوہ ایک گھر اور بھی بنا ناچاہیے، اجڑ کر دوبارہ بسنے کے لیے ! لیکن زمینیں تو پیمبروںسے وفا نہیں کرتیں۔ غارئیٹ کے لوگ کون خدا تھے؟
4 جنوری 2010 کا سرد، برفیلا دن تھا جب اچا نک مٹی کا وہ تودہ جس پر غارئیٹ آباد تھا باقی حصے سے یوں الگ ہوا جیسے کوئی گھٹیا اور کم نسل آدمی پرانے تعلق کو تو ڑ کر یک لخت بے گانہ ہو جاتا ہے۔ جو کچھ غارئیٹ اور سارئیٹ کے لو گوں پر گزری اس کا اندازہ ہم زندہ اور آباد لوگ نہیں لگا سکتے۔ 2 میل لمبی لینڈ سلائڈ نے علاقے کی صورت ہی بدل دی۔ مٹی، پتھر اور ملبے سے دریائے ہنزہ کا راستہ بند ہوگیا۔ شاہراہ ِ ریشم بھی خاک برد ہوگئی۔دریا کا راستہ بند ہوا تو وہ آپے سے باہر ہو نے لگا۔ اس کا زمینی پھسلاؤ پر زور نہیں چلا تو گلمت اور پسو کو نگلنے لگا۔ نیلا پانی زہر بن کر جیتی جا گتی بستیوں کے جسموں میں اترنے لگا۔ زیریں ہنزہ کا راستہ مٹی کے 200 میٹر اونچے اور 2کلو میٹر طویل 6 کروڑ کیوبک میٹر حجم کے تو دے نے بند کر رکھا تھا۔یہاں کے مکین ایک طرح سے محصور ہو چکے تھے۔ مرنے والو ں کو نکالنے سے زیادہ زندہ رہ جانے والوں کو بچا نا اہم تھا اور ا نہیں بچانے کے لیے دریا کو راستہ دینا ضروری تھالیکن راستہ دینا اتنا آسان نہیں تھا۔ہر لمحہ اہم تھا۔ ہر گھڑی رکے ہو ئے پا نی کی سطح بلند ہو رہی تھی۔ پانی جو زندگی کی ضمانت تھا اب موت کی علامت بن چکا تھا۔ فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن ( FWO )کے جوانوں نے اس سد ِ سکندری کو کا ٹ کر 415 میٹر لمبا اور 60 میٹرچوڑا سپِل وے بنایا جس کی گہرائی 24 میٹر تھی۔بعد میں اس سپِل وے کو مزید 30 میٹر گہرا کیا گیا۔اس کام میں FWOکے کئی جوان بھی شہید ہوئے لیکن ان کی موت بہت سے لوگوں کے لیے زندگی کا پیغام تھی۔ پا نی کو راستہ ملا تو گوجال میں زندگی کی رمق پیدا ہونے لگی لیکن 19 کلو میٹر طویل علا قہ زیر ِ آب ہی رہا اور کسی نے اس علاقے کو عطا ءآباد جھیل کا نام دے دیا۔
میں نے اس سانحے کی خبر ٹی وی پر سنی تو میرے دل پر گہری اور سیاہ اداسی نے ڈیرے ڈال دئیے۔ ہنزہ پر قیامت گزر گئی تھی۔ میرے ہنزہ پر۔میری حالت اس شخص جیسی تھی جسے وطن سے دور کسی سانحے کی اطلا ع ملتی ہے اور اسے آنسو بہانے کے لیے کوئی کندھا بھی میسر نہیں ہوتا۔ میں ٹی وی کی ہر رپورٹ کو اضطراب سے دیکھتا اور خود کو لا چار محسوس کر تا۔ کئی دن یوں ہی گزر گئے۔ بہتری کی کو ئی صورت نہیں بن پا رہی تھی۔ رفتہ رفتہ مایوسی اور رنج کی شا خوں پر زندگی کی نئی کو نپلیں پھو ٹنے لگیں۔ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کی وجہ سے لوگ سا نحے کو بھول کر عطا ءآباد جھیل میں دلچسپی لینے لگے۔ ہنزہ میں ایک نئی ٹو¿ رسٹ اٹریکشن (tourist attraction )پیدا ہونے لگی۔ لیکن مجھے یہ تماشا دیکھنے کا حوصلہ نہیں ہو تا تھا۔ آخر 2سال بعد میں آیا بھی لیکن جھیل تک نہ پہنچ سکا کیوں کہ راستہ بند تھا۔ اوراب میں یہاں عطاءآباد جھیل کے فیروزی پانیوں کے کنارے پر کھڑا تھا۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔