کچھ ایٹم بم وغیرہ کے بارے میں  (1)

  کچھ ایٹم بم وغیرہ کے بارے میں  (1)
  کچھ ایٹم بم وغیرہ کے بارے میں  (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 بعض قارئین نے سوال بھیجا ہے کہ ہم امریکہ سے کیوں ڈرتے ہیں۔ کیا ہم ایٹمی طاقت نہیں؟…… اگر امریکہ ایٹمی طاقت ہے تو ہم بھی تو ایٹمی طاقت ہیں۔ ان حضرات نے مزید پوچھا کہ اگر 1945ء میں امریکہ نے جاپان پر دو ایٹم بم گرا کر اس کے لاکھوں شہری ہلاک اور زخمی کر دیئے تھے اور ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے ہنستے بستے شہروں کا بڑا حصہ برباد کرکے رکھ دیا تھا تو پاکستان کے ایک ڈیڑھ سو بم ہم نے آخر کس دن کے لئے بنا کر رکھے ہیں؟…… ماضی میں کئی نامور سیاستدان یہ بڑھک مارتے سنے گئے تھے کہ 2001ء میں جب نوگیارہ ہوا تھا اور امریکہ، افغانستان میں گھس آیا تھا اور ساتھ ہی ہم سے مطالبہ کیا تھا کہ اپنے چند ہوائی اڈے ہمارے حوالے کر دو وگرنہ ہم آپ کو ”پتھر کے دور“ میں پہنچا دیں گے تو کیا ہمارے پاس ایٹم بم نہیں تھے؟ اس وقت جنرل پرویز مشرف پاکستان کے آرمی چیف بھی تھے اور صدرِ مملکت بھی۔ انہوں نے چپکے سے شمسی بیس (Base) جو بلوچستان میں ہے اور شکار پور اور جیکب آباد کی Bases بھی، امریکہ کے حوالے کیوں کر دی تھیں؟ کیا اس وقت جنرل مشرف کی قومی حمیت کہیں جا کر سو گئی تھی؟
ایک اور قاری نے یہ بھی یاد دلایا کہ ہمارے اسی ملٹری آمر (جنرل مشرف) نے ایک بھارتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ”کیا ہم نے اپنے ایٹم بم شب برات پر آتش بازی چلانے کے لئے رکھے ہوئے ہیں؟“…… قاری نے سوال کیا کہ اصل حقیقت کیا ہے؟ کیا جنرل مشرف نے جھوٹ بولا تھا؟ کیا ہمارے پاس واقعی ایٹم بم نام کی کوئی چیز ہے؟ اگر ہے تو کیا ہماری فوج مرنے مارنے سے گھبراتی ہے؟ایٹم بم چلانے کا ”بٹن“ کس کے پاس ہے؟ کیا وزیراعظم (سابق) کو جب پاکستان کی جوہری اہلیت کی بریفنگ دی گئی تھی تو یہ بتایا گیا تھا کہ یہ بم وغیرہ اور یہ میزائل وغیرہ صرف نمائشی ہتھیار ہیں۔ اور یہ بھی کہ اگر ان کو چلانے کا موقع آیا تو کیا ہم صم’‘ بکم’‘ ہو کر بیٹھے رہیں گے۔


میرے قارئین اس قسم کے سوالات اکثر پوچھتے رہتے ہیں جن کا میں کوئی تشفی آمیز جواب نہیں دے سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ جوہری قوت اور اس کا ارتقاء ایک نہایت ٹیکنیکل موضوع ہے۔ یورینیم۔235 کیا ہے، اس کے ذرے کو پھاڑ کر ایٹم بم کیسے بنایا جاتا ہے، کیا واقعی پاکستان کے پاس جوہری وار ہیڈز ہیں، اگر ہیں تو ان کی نوعیت، قوتِ ضرب، اہلیت اور اہمیت کیا ہے، ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم میں کیا فرق ہے، کیا پاکستان کے پاس ہائیڈروجن بم بھی ہیں، کیا یہ بم محض ڈراوا ہیں، فروری (2024ء) میں روسی صدر پوٹن نے کریملن پر حملہ کرکے امریکہ اور ناٹو کو جو خبردار کیا تھا کہ زینہار کریملن میں نہ آنا ورنہ تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے گی تو کیا وہ خالی خولی دھمکی تھی…… ان سوالوں کا جواب کسی بھی اردو کالم میں نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ موضوع اس قدر سائنٹیفک اور ٹیکنالوجیکل ہے کہ اسے عام فہم نہیں بنایا جا سکتا۔
دوسری طرف پاکستان کے زیادہ تر قارئین جو اگر انگریزی زبان پر کافی عبور بھی رکھتے ہوں تو وہ بھی ان تکنیکی اصطلاحات کو نہیں سمجھ سکتے جو ایٹمی قوت کی ابتداء اور اس کی عہد بہ عہد تدریجی ڈویلپ منٹ کے دوران پیش آئیں اور وضع کی گئیں۔وضعِ اصطلاحات کی کوئی بھی انگلش۔ اردو ڈکشنری اب تک شائع نہیں ہو سکی جو ایک گریجوایٹ یا میٹرک / ایف اے پاس قاری کو جوہری موضوع پر کوئی قابلِ ذکر معلومات بہم پہنچا سکے۔
جہاں تک پاکستانی ایٹم بموں پر وہ تبصرے شامل ہیں جو بہت سے لکھے پڑھے لوگوں کی طرف سے کئے گئے (ان میں جنرل مشرف کو بھی شمار کر لیجئے)تو وہ صرف ”جواب آں غزل“ کے طور پر کئے گئے وگرنہ جتنی سمجھ بوجھ اس موضوع پر جنرل مشرف کو ہے، اتنی کسی اور ریٹائرڈ یا حاضر سروس آرمی جنرل کو شاذ ہی ہوگی۔


اگر کسی صاحبِ ذوق قاری نے جوہری قوت کی ابتداء کے سلسلے میں کوئی قابلِ اعتبار جانکاری لینی ہے تو اس پر سینکڑوں کتابیں موجود ہیں جو سب کی سب انگریزی زبان میں ہیں اور اس مشکل کا ذکر سطور بالا میں کر چکا ہوں۔
ایک عام اور اوسط فہم کے حامل اردو زبان کے قاری کے لئے درج ذیل اساسی اور ابتدائی معلومات کافی ہوں گی:
1۔اگر کسی ٹھوس مادے کے ذرے (Atom) کو توڑتے جائیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ اس کا صغیر ترین (Smallest) حصہ کیا ہوگا تو ایک وقت آئے گا کہ وہ ذرہ مزید ٹوٹنے سے ”انکار“ کر دے گا۔ اسی انکار کو اگر زبردستی اقرار میں بدلنے کی کوشش کریں تو وہ ”دھماکہ“ پیدا ہوتا ہے جسے ایٹمی دھماکہ کہا جاتا ہے۔ یہ دھماکہ اتنا زور دار ہوتا ہے کہ اس سے پلک جھپکنے میں ہزاروں جاندار زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
2۔ اس کا اولین تجربہ امریکہ میں 16جولائی 1945ء کو کیا گیا جو کامیاب قرار پایا۔
3۔ پہلا ایٹم بم 6اگست 1945ء کو ہیروشیما اور دوسرا 9اگست کو ناگاساکی پر گرایا گیا۔
4۔ جس ہوائی جہاز سے یہ بم گرانے گئے اس کا نام بی۔29 تھا اور ان دو ایٹم بموں کے نام بالترتیب Little Boy اور Fatmanتھے۔
5۔ یہ بم، جہاز سے زمین پر نہیں گرائے گئے بلکہ سطحِ زمین سے 1800 فٹ اوپر ان کو Detonate کیا گیا۔
6۔ ان کی ژیلڈ 25کلو ٹن تھی۔
7۔ ان دونوں بموں سے چشم زدن میں ایک لاکھ انتیس ہزار (129000) جاپانی لقمہء اجل بن گئے تھے۔
8۔ 1945ء سے لے کر 1949ء تک امریکہ واحد جوہری ملک تھا۔


9۔جوہری راز خود امریکیوں نے دنیا کے باقی ممالک کو فراہم کئے۔ کبھی غیر ارادی طور پر اور کبھی عمداً…… ایک امریکی میاں بیوی جوہری سائنس دان جوڑے نے ایٹمی راز روس کے حوالے کئے اور روس نے 1949ء میں یہ بم بنا لیا۔ ان سائنس دانوں کا موقف یہ تھا کہ جب تک اس بم کا حامل کوئی واحد ملک رہے گا وہ ساری دنیا کی حکمرانی کا خواب دیکھے گا جو خلافِ فطرت بات ہے کیونکہ دنیا میں نیکی بدی، اچھائی بری، شیطانی اور رحمانی قوتوں کا وجود ہی مل کر اس کائنات کو اکٹھا رکھ رہا ہے۔ اس توازن کو اگر درہم برہم کر دیا جائے تو قیامت نزدیک تر آ جائے گی۔
10۔ امریکہ نے بعد میں اس تھیوری کو تسلیم کیا اور برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی تاکہ روس کا توڑ کیا جا سکے۔
11۔ چین اور شمالی کوریا کی ایٹمی قوت بھی روس کی عطا کردہ ہے۔ بعد میں امریکہ ہی نے انڈیا کو بھی یہ راز فراہم کئے تاکہ چین کا توڑ کیا جا سکے۔
12۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کی ایٹمی قوت ڈاکٹر عبدالقدیر کی مسروقہ سرگرمیوں کی مرہونِ احسان ہے۔


13۔ عددی اعتبار سے دیکھا جائے تو روس کے پاس 6سے 7 ہزار تک جوہری بم ہیں اور اتنے ہی امریکہ کے پاس بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے پاس ڈیڑھ سو سے زیادہ ایٹم بم ہیں۔ (ایٹم بم کی اصطلاح ایک اوسط فہم پاکستانی شہری کے لئے استعمال کر رہا ہوں۔ وگرنہ ایٹم بم سے اگلا ورشن ہائیڈروجن بم ہے جو ایٹم بم سے ایک ہزار گنا زیادہ تباہ کن ہے اور ایٹم اور ہائیڈروجن بموں کے لئے ”جوہری بم“ کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔)
14۔ بڑے ایٹم بم سے چھوٹے ایٹم بم بھی بنا لئے گئے ہیں جو بیٹل فیلڈ وار ہیڈز کہلاتے ہیں۔ ان کو روائتی جنگ کے دوران عام توپخانے کے گولے کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ چھوٹے ایٹم بم پاکستان کے پاس بھی ہیں۔
15۔ ایٹم بم (یا جوہری بم) کو بذریعہ ہوائی جہاز (فضا سے) اور بذریعہ آبدوز (سمندر سے)بھی فائر کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس جوہری وارہیڈز کو دشمن پر پھینکنے کے تینوں ذرائع (فضا، زمین، سمندر) موجود ہیں۔
16۔ کسی بھی جوہری بم (وار ہیڈ) کو میزائل کی نوک پر رکھ کردنیا کے کسی حصے میں پھینکا جا سکتا ہے۔ ایسے میزائل کو بین البراعظمی بلاسٹک میزائل (ICBM) کہا جاتا ہے۔
قارئین گرامی کی خدمت میں ایک اور حقیقت بھی پیش کرنی ضروری سمجھتا ہوں جو یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی نیا ہتھیار (وار ہیڈ) ایجاد ہوتا ہے تو اس کے فوراً بعد اس کا توڑ بھی ایجاد ہو جاتا ہے۔ چنانچہ توپ شکن، طیارہ شکن، ٹینک شکن ہتھیاروں کے علاوہ میزائل شکن میزائل بھی ایجاد ہو گئے ہیں۔بلکہ اکثر اوقات تو یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر نئے ہتھیار کی ایجاد کے ساتھ ہی ایک ہتھیار شکن ہتھیار بھی ایجاد کر لیا جاتا ہے۔ لیکن ایٹمی وار ہیڈ شکن وار ہیڈ اب تک اس مقولے سے بالاتر ہے۔ اب تک کوئی ایسا ہتھیار نہیں بنایاجا سکا جو جوہری ہتھیار کو ناکارہ بنا سکے…… اس سلسلے میں جو پیش رفت کی گئی ہیں وہ حالیہ روس۔ یوکرائن جنگ کے تناظر میں دلچسپ بھی ہیں اور ایک اوسط فہم اردو زبان کے قاری کے لئے معلومات افزاء بھی…… ان کا ایک مختصر سا ذکر اگلے کالم میں ……      (جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -