خصوصی قوانین کے حوالے سے ثقہ صورت حال!

خصوصی قوانین کے حوالے سے ثقہ صورت حال!
خصوصی قوانین کے حوالے سے ثقہ صورت حال!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سینٹ کے سابق چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر راہنما سینٹر میاں رضا ربانی نے 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے ملٹری ایکٹ کے تحت کارروائی کی مخالفت کی اور کہا ہے کہ اس سے فائدہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے ملزموں کے خلاف دہشت گردی کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں سماعت تک محدود رکھنے کی تجویز دی ان کا موقف ہے کہ جو ہوا اس کی مذمت کے لئے الفاظ کم ہیں تاہم ملٹری ایکٹ کے تحت کارروائی سے نقصان ہوگا۔ میاں رضا ربانی کے اس موقف سے بہت سے سینئر سیاست دان بھی متفق ہیں اور سب کا موقف یہ ہے کہ ایسے ملزموں کے مقدمات کے لئے پہلے ہی انسداد دہشت گردی کی عدالتیں موجود ہیں۔
جہاں تک ان حضرات کے موقف کا تعلق ہے تو اس میں وزن ہے معروضی حالات میں بظاہر یہ عمل درست نظر آیا لیکن قباحت یہ ہے کہ یہ خصوصی طریقہ اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہوگا اور مقدمہ بازی طوالت اختیار کر لے گی اور اندرونی استحکام کے حوالے سے جو موقف اپنایا گیا وہ بھی کمزور ہوگا اس لئے اس سے گریز بہتر ہے یہ شاید اس لئے سوچا گیا کہ عموماً عام عدالتوں سے ملزموں کو ریلیف مل جاتی ہے جبکہ قومی اور فوجی تنصیبات کے ساتھ جو سلوک ہوا اس سے دل تو مجروح ہوئے ہیں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بھی لازم ہے کہ اس کے فوائد و نقصانات کا پہلے جائزہ لے لیا جائے۔


یہ فیصلہ شاید اس وجہ سے کیا گیا کہ پولیس کارروائی کرتی ہے لیکن ملزموں کو عدلیہ سے ریلیف مل جاتی ہے ضرورت تو یہ ہے کہ اس امر پر غور کیا جائے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اس کے لئے بعض مقدمات کے فیصلوں میں تحریری ریمارکس پر بھی غور کرنا چاہئے عدالتوں سے بری ہونے والے کیسوں کے حوالے سے منصفین نے یہ اعتراض کئے کہ استغاثہ کی طرف سے نہ تو پیروی کی جاتی ہے اور نہ ہی چالان مضبوط بنیادوں پر بنائے جاتے ہیں یوں کیس کی کمزوری کے باعث حکومت کو پریشانی ہو گی، اس پر غور کرنے کی بجائے خصوصی قانون کا استعمال بہتر نہیں ہوگا کہ اس سے بھی تقسیم بڑھے گی۔


جہاں تک میرا اپنا موقف ہے تو میں نہ صرف ذاتی طور پر بلکہ اپنی بانی تنظیم پی ایف یو جے کے مطابق خصوصی قوانین کے تحت کارروائیوں کا مخالف ہوں ہمارا واضح موقف ہے کہ ملک میں ہر قسم کے قوانین موجود ہیں ان کے مطابق ہی کارروائی ہونا چاہئے اس کے لئے ہم جدوجہد بھی کرتے رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اچھی پیروی درست مقدمہ اور صحیح چالان کے ساتھ شہادت موجود ہو تو تعزیرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری کے قوانین بھی موثر ہیں مسئلہ تو صرف یہ ہے کہ نہ صرف پولیس سے پراسیکیوشن تک درست کارروائی اور پیروی نہیں ہوتی بلکہ اکثر تفتیش ہی صحیح نہیں ہو پاتی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ان پر غور کر کے اصلاح کی ضرورت ہے۔


پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے ہمیشہ آزادی صحافت کے حوالے سے بنائے گئے خصوصی قوانین کی مزاحمت کی اور جدوجہد کر کے ان سے نجات بھی حاصل کی جیسے پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس سے جان چھڑائی اس لئے میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ استغاثہ کی کمزوری کے باعث یہ فیصلہ موزوں نہیں اس پر غور کر لینا چاہئے اگرچہ جذباتی طور پر یہ بالکل صحیح محسوس ہوتا ہے کہ ریاست اور حکومت کے خلاف مہم 9 مئی کو تشدد اور جلاؤ گھیراؤ تبدیل ہوئی۔ یہ صدمہ والی کیفیت تھی اس کے بعد حکومت اور انتظامیہ کو ملزموں کی تلاش اور گرفتاری کے حوالے سے جو کرنا پڑا وہ بھی عیاں ہے اور یہ بھی سامنے آیا کہ بوجوہ حراست میں لئے جانے والے اہم حضرات و خواتین کو عدالتوں سے ریلیف ملتی چلی گئی اب صورت حال یہ ہے کہ عدالت عالیہ نے 3 ایم پی او کے تحت نظر بندی غیر قانونی قرار دے کر بعض رہنماؤں کی رہائی کا حکم دیا تو پولیس نے جیلوں سے رہائی کے فوراً بعد ان کو پھر سے گرفتار کر لیا میں سمجھتا ہوں کہ نظر بندی یا بعض درج مقدمات میں ضمانتوں کی وجہ کمزور ایف آئی آر اور تفتیش کے بعد پیروی ہو سکتی ہے ایک مثال عرض کر سکتا ہوں کہ عدالتوں نے ضمانت قبل از گرفتاری کو معمول کی طرح لیا گیا حتیٰ کہ حفاظتی ضمانت نہ صرف لی گئی بلکہ اس میں توسیع بھی کی جا رہی ہے حالانکہ حفاظتی ضمانت محض ایک عدالت سے متعلقہ عدالت تک رسائی کے لئے ہوتی ہے کہ متاثرہ فرد گرفتار ہوئے بغیر متعلقہ عدالت سے رجوع کر سکے۔

لیکن یہاں حفاظتی ضمانت کو مستقل ضمانت کے طور پر استعمال کیا گیا اسی طرح کسی بھی درخواست دہندہ کو اس حد تک گرفتار نہ کرنے کا حکم بھی حاصل ہوا کہ اسے کسی نئے درج مقدمہ میں بھی گرفتار نہ کیا جا سکے۔ میں اپنے عدالتی رپورٹنگ کے تجربہ کی بناء پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ غصہ سے ذہنی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے ورنہ مجھے یاد ہے کہ پیپلزپارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو دور میں 199 میں ترامیم کی گئیں۔  ان کے تحت پہلے تو کسی دوسرے ملک کے وکیل کو پاکستان کی عدالتوں میں اس وقت تک پیروی سے روک دیا گیا جب تک وہ دو سال تک مقامی عدالتوں میں پریکٹس نہ کر لے اس کے علاوہ یہ پابندی لگائی گئی کہ عدالتیں (Umbrela Bail) ضمانتی چھتری مہیا نہیں کر سکتیں اور ضمانت قبل از گرفتاری کے لئے ایف آئی آر کی نقل لف کرنا لازم قرار دی گئی۔  حال ہی میں اس پر عمل نہیں ہوا عدالتوں نے نہ صرف غیر موجودگی میں ضمانت دی بلکہ ضمانتی چھتری بھی مہیا کی اور کسی بھی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کے ساتھ ایف آئی آر کی موجودگی طلب نہیں کی عدلیہ کا اپنا اختیار ہے خصوصاً اعلیٰ اور بالا عدلیہ کے فیصلوں کو تو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مجھے حیرت یہ ہے کہ استغاثہ کی طرف سے کسی نے عدلیہ سے ان نکات پر نہ بات کی نہ دلیل دی اور نہ اعتراض کیا چنانچہ ضمانتوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ اس لئے کسی خاص قانون کو بروئے کار لانے سے بہتر ہے کہ پیروی کے نظام کو درست کیا جائے۔


حال ہی میں چیف جسٹس والی سہ رکنی بنچ کے سامنے الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست آئی تو چیف جسٹس نے بھی ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن تو آیا لیکن حکومت نہیں۔ حالانکہ یہ ممکن تھا کہ پہلے فیصلے کے بعد بائیکاٹ بائیکاٹ نہ کھیلا جاتا اور نظر ثانی کی اپیل دائر کر کے ابتدائی درخواست فل کورٹ کے لئے کی جاتی منظور نہ ہونے پر بائیکاٹ بھی کرتے تو اثر ہوتا۔
قومی اسمبلی نے توہین پارلیمینٹ کے حوالے سے نئی قانون سازی کی اور اس کا جواز بھی دیا ہے لیکن یہ بھی خصوصی قانون ہی کے ضمن میں آتا ہے اور موجودہ اداراتی محاذ آرائی کے حوالے سے اس پر اعتراض کیا جا رہا ہے اگرچہ پارلیمینٹ کا یہ حق ہے اور یہ بھی درست ہے کہ پارلیمینٹ کی بے توقیری بھی بہت کی گئی ہے اس کے باوجود میرے خیال میں اس کی ضرورت نہیں تھی کہ اسمبلیوں کو پہلے ہی سے اپنے اپنے اور اراکین کے استحقاق متاثر ہونے کے خلاف کارروائی کا حق ہے اور تحاریک کا وقفہ التوا کے علاوہ استحقاق کی تحریکوں پر غور کرنے کے لئے بھی ہے۔ میری پارلیمانی رپورٹنگ کے تجربہ میں یہ آیا کہ منتخب اراکین کو خود اپنے استحقاق کا علم نہیں ہوتا اور استحقاق کی ایسی تحاریک بھی آئیں جو ٹریفک پولیس کی طرف سے گاڑی روکنے کے حوالے سے تھیں۔ ایوان (خصوصاً مغربی پاکستان+ پنجاب اسمبلی) میں کئی بار اس پر بحث ہوئی کہ استحقاق کیا ہے تاہم یہ بحث محض متعلقہ تحریک استحقاق تک محدود رہتی رہیں اور رولنگ بھی اسی حد تک دی گئی اب جو بل منظور ہوا ہے اس میں توہین پارلیمان کی جو وضاحت کی گئی وہ بھی تفصیل طلب ہے اور جو سزا اور طریقہ اختیار کیا گیا اگرچہ وہ بڑی حد تک تسلی بخش قرار دیا گیا ہے لیکن اپیل کے حوالے سے بات وہی ہے کہ ایوان کی کارروائی ایوان ہی کے پاس رہے گی اس پر پھر سے غور کر لیں کہ امن کے دور میں صحافیوں کے خلاف استعمال ہو گی کہ سوال وہ کرتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -