تبدیلی کے نام پر ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو بچانے کی کوشش
سارا فساد ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو بچانے کے لئے کھڑا کیا گیا۔ پاکستانی عوام کو نئے پاکستان‘ تبدیلی اور انقلاب کے سنہرے سپنے دکھا کر اسٹیبلشمنٹ نظام پر اپنی آہنی گرفت کو اور مضبوط کر رہی ہے۔ براہ راست فوجی حکمرانی کے بعد کچھ عرصہ کے لئے سول حکمرانی کے لئے دیئے جانے والے وقفوں کے لئے بعض اصول طے کئے گئے تھے۔ آصف علی زرداری کی سربراہی میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود 5سال پورے کر کے سرخ لائن عبور کر لی۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی پیپلزپارٹی کی حکومت کو گرانے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا گیا، لیکن کوئی تیر نشانے پر نہیں بیٹھا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اپوزیشن نے اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلنے سے انکار کر دیا وگرنہ آصف زرداری بھی سال دو سال بعد فارغ ہو جاتے۔ اسٹیبلشمنٹ نے طے کر رکھا ہے کہ اس کی مستقل حکمرانی کے لئے جمہوریت ہی سب سے بڑا خطرہ ہے، اسے کسی صورت چلنے نہ دیا جائے۔
سول حکمرانوں کو گرانے کے لئے کبھی ایوان صدر کو استعمال کیا گیا تو کبھی اعلیٰ عدالتیں مدد کو آ گئیں۔ بینظیر اور نوازشریف کے درمیان 2006ء میں طے پانے والے میثاق جمہوریت کے بعد لیکن صورتحال بدل گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کو جونہی اندازہ ہوا کہ سیاسی شطرنج کے پرانے مہرے اب اس کی مکمل دسترس میں نہیں رہے تو نیا مہرہ سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ تحریک انصاف بنانے کے بعد عوامی حمایت کے حصول میں بھی اس کی پوری مدد کی گئی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ووٹروں کی اکثریت کو فوری طور پر متاثر نہ کیا جا سکا تو ڈیفنس جیسی پوش آبادیوں کے مکینوں کو میدان میں جھونک دیا گیا۔ بوڑھے کپتان کے ذریعے پرانا سسٹم اکھاڑ پھینکنے کا نعرہ لگا کر نوجوان طبقے کو بھی ورغلانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہ سب اس لئے بھی کیا گیا تاکہ سول حکمرانی کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے طے کردہ قوانین کی خلاف ورزی پر محمد نوازشریف کو سبق سکھایا جا سکے۔
جب یہ واضح ہونے لگا کہ پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ (ن) حکومت میں آ سکتی ہے تو طاہرالقادری کو تماشا لگانے کے لئے اسلام آباد مدعو کیا گیا۔ 2013ء کے عام انتخابات ملتوی کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں تو چاروناچار اقتدار مسلم لیگ (ن) کو سونپ دیا گیا۔ سول حکومتوں کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے طے کردہ حدود میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہیں اپنی مرضی سے پالیسیاں بنانے اور منصوبہ بندی کرنے کی اجازت ہی نہیں دی جائیگی۔ سیاسی حکمرانوں کو کچھ اس انداز میں الجھا کر رکھا جائے گا کہ وہ ساری مدت اپنا اقتدار بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے پر صرف کر دیں گے۔ نواز شریف حکومت سنبھالنے کے کچھ ہی عرصہ بعد زیرعتاب آ گئے۔ سکرپٹ رائٹر کا حکم ملتے ہی کپتان اور قادری اسلام آباد فتح کرنے کے لئے نکل پڑے۔ پرامن رہنے کی یقین دہانیاں کرانے کے بعد جہاں اور جب بھی موقع ملا تشدد کی راہ اختیار کی گئی۔ ریاستی اداروں پر بھی دھاوا بولا گیا مگر دال نہ گل سکی۔ دھرنے سے قادری کے اٹھ جانے کے بعد اب عام تاثر یہی ہے کہ عمران خان اپنے ہی آقا ’’سکرپٹ رائٹر‘‘ کے جال میں خود پھنس چکے ہیں۔ 30نومبر کو اسلام آباد پر پھر یلغار کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ گھیراؤ جلاؤ‘ مرو‘ مار دو کا واویلا مچایا جا رہا ہے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک کی تقریباً تمام اہم شخصیات اور اداروں کو بلاثبوت لتاڑنے والے عمران خان دھمکیوں کے ذریعے حکومت کو ڈرا کر ’’فیس سیونگ‘‘ کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ عمران خان کو حکومت الٹانے کی یقین دہانی 14اگست سے پہلے بھی کرائی گئی تھی ۔ یہ تمام ڈائیلاگ جو آج بولے جا رہے ہیں پہلے بھی دھرنے میں گونجتے رہے تھے۔ خان صاحب اب ایسا کیا نیا کرنے جا رہے ہیں، جو انہوں نے پہلے نہیں کیا۔ ریاستی اداروں پر دھاوے‘ سول نافرمانی کی کال‘ کارکنوں کو تشدد پر اکسانے سمیت تقریباً تمام کارڈز پہلے ہی کھیلے جا چکے ہیں۔ 14اگست سے پہلے اور بعد میں حکومت سخت دباؤ میں تھی۔ ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے سے اسے اب بھی خطرہ لاحق ہو، لیکن بظاہر منظر خاصی حد تک بدل چکا ہے۔ ایجنسیوں اور اداروں کی کمان خالصتاً پیشہ ورانہ امور پر توجہ دینے والوں کے ہاتھ ہے۔ حکومتی رویے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اب اسے آبپارہ سے پہلے جیسی تپش محسوس ہو رہی ہے نہ ہی منگلا میں بجلیاں کڑکتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اسلام آباد پر دھاوا بولنے والوں کو ایک حد تک ہی فری ہینڈ دیا جائے گا۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ 30نومبر کو فیصلہ کن دن قرار دینے کی بار بار دھمکیاں دینے کے دوران خان صاحب کے سن رسیدہ چہرے پر تشویش کی لہربھی دوڑ جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں زمینی حقائق کا کچھ کچھ ادراک ہو گیا ہو۔ حکومتی حلقے تو دوٹوک الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ ہم نے 14اگست دیکھ لیا تھا اب 30نومبر سے بھی نمٹ لیں گے۔
’’اسٹیٹس کو‘‘ برقرار رکھنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے جو نیا تجربہ کیا ہے وہ شاید آسانی سے کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی کلاسیکل علامت روئیداد خان نے تو بھرے جلسے میں عمران خان کو قائداعظمؒ ثانی قرار دیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف کے خاکے میں رنگ بھرنے کے لئے ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اکثر میڈیا ہاؤسز براہ راست اپنے کنٹرول میں لے لئے، اس کے باوجود عمران خان کو مسیحا ثابت نہ کیا جا سکا۔ 14اگست کو نیا پاکستان بنانے کے دعوے سے قبل تو عمران خان صرف جنگ اور جیو پر برستے تھے، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت یہی تھی، اب حالات کچھ یوں ہیں کہ وہ کالم نگاروں‘ اینکروں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کو بے ضمیر قرار دینے پر تل گئے ہیں۔ عمران خان نیازی بھی عجیب آدمی ہیں کبھی جسٹس افتخار محمد چودھری پر برستے ہیں، کبھی جسٹس رمدے پر‘ موقع ملتے ہی جسٹس تصدق جیلانی کو بھی متنازعہ بنا ڈالا۔ سیاست دانوں کے لئے ان کی مخالفت نواز شریف اور آصف علی زرداری تک ہی محدود نہیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب وہ اپنی اکلوتی حلیف جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو بھی راندہ درگاہ قرار دینے پر تل گئے تھے۔
عمران خان نے مبینہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم کر کے آئی ایس آئی اور ایم آئی کو شامل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ حکومت ایسا کوئی مطالبہ ماننے پر تیار نہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے عمران خان نے ملٹری انٹیلی جنس کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ انوکھے مطالبات اور بلاثبوت الزامات کے لئے اب عملاً عمران خان اکیلے میدان میں رہ گئے تھے۔ عمران خان کا ٹریک ریکارڈ دیکھ کر خفیہ ادارے یقینی طور پر حکومت سے یہی استدعا کریں گے، ہمیں اس معاملے سے باہر رکھا جائے۔ یہ طے ہے کہ فیصلہ عمران خان کی مرضی کے مطابق نہ آیا تو وہ ایک بار پھر ملٹری انٹیلی جنس کے ساتھ آئی ایس آئی کے نام کو بھی خراب کرنے کی کوشش کریں گے۔ تحریک انصاف کی قیادت اس وقت ایسی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہو چکی ہے کہ جو سامنے آ جائے اس پر گند اچھالا جا رہا ہے۔قابل ا حترام اداروں اور افراد کو اس طرح سے رگیدنے کا یہ سلسلہ زیادہ دیر چل نہیں سکتا ہے۔ عمران خان اور ان کے چاہنے والوں کوپتہ ہونا چاہئے کہ حنیف عباسی کی طرف سے پوچھے جانے والے دو سوالات غیرمعمولی ہیں۔ عمران خان کے بے بنیاد الزامات کا نشانہ بننے والوں کو ان کی اہمیت کا بخوبی علم ہے ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈنا بھی قطعاً مشکل نہیں۔ عمران خان ایسے ہی ہر کسی پر کیچڑ اچھالتے رہے تو ایسا نہ ہو کہ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ کر متعلقہ فورمز میں پیش کر دیئے جائیں۔ عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے ہی سیاست سے آؤٹ ہونے والے وطیرے اختیار نہ ہی کریں تو بہتر ہو گا۔
جمہوریت کے استحکام کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا کسی کے مفاد میں نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو حالیہ دھرنوں اور دھاوؤں کے بعد پارلیمنٹ سے اٹھنے والی زوردار آوازوں سے پتہ چل گیا ہو گا کہ پاکستان سچ مچ تبدیل ہو رہا ہے۔ بہتر ہو گا کہ تبدیلی کی آڑ میں بلوائیوں کی کھلی سرپرستی کر کے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو بچانے کی کوششیں ترک کر دی جائیں۔ حکومت الٹانے کے لئے لوگوں کے جذبات بھڑکانے کا کھیل بے حد خطرناک ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ’’خود گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ والا معاملہ ہو جائے۔
شیخ رشید المعروف شیداٹلی کو اکثر لوگ پرلے درجے کا جھوٹا قرار دیتے ہیں۔ اول فول باتوں‘ غلط پیشگوئیوں اور بیہودگی نے اس تاثر کو مزید پختہ کیا ہے۔ اس کے باوجود یہ ماننا ہو گا کہ انسان خود کو خواہ کتنا ہی ’’پھنے خان‘‘ سمجھتا رہے سچ زبان سے نکل ہی جاتا ہے۔ شیخ رشید نے اپنی تازہ ترین گیدڑ بھبھکی میں اپنے آپ کو خودکش سیاستدان قرار دیا ہے۔شیخ کے بیان سے حکومتی صفوں میں کھلبلی نہیں مچی،لیکن تحریک انصاف کو بہرحال الرٹ ہونا ہو گا۔ فرزند راولپنڈی ان دنوں عمران خان کے آس پاس پائے جاتے ہیں۔ آثار قدیمہ کی مانند شیخ رشید اس حد تک بوسیدہ ہو چکے ہیں کہ ڈر لگتا ہے اچانک کہیں بیٹھے بٹھائے ہی نہ چل جائیں۔