فیض احمد فیض اور صحافت (1)

فیض احمد فیض اور صحافت (1)
فیض احمد فیض اور صحافت (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فیض احمد فیض ہماری تہذیبی حیات، ادبی و فکری تاریخ اور قلمی و صحافتی روایت کا زندہ اور روشن استعارہ ہیں۔ دانشور، شاعر، استاد، نقاد، مزدور انقلابی راہنما ، مدیر و صحافی یہ سب ان کی ہشت پہلو شخصیت کے نمایاں پہلو ہیں۔ ان کی شاعری اور نثر ان کی ذات اور زمانے کا پتہ دیتی ہیں۔

اہلِ قلم شعوری و غیر شعوری طور پر زندگی سے خام مواد لے کر ایسی دنیا تخلیق کرتے ہیں، جس کے معنی و اقدار ایک طرف اہل قلم کے حقیقی تجربے کو دوام بخشتے ہیں تو دوسری طرف زندگی میں خیر کا اضافہ کر کے خود زندگی کو تازہ دم کرتے ہیں۔

فیض احمد فیض کی ہمہ جہت شخصیت کا ہر پہلو اپنے اندر ایک زندگی لئے ہوئے ہے۔وہ عہد ساز شاعر کہلاتے ہیں، لیکن ان کی شخصیت کے دوسرے پہلو بھی کم متاثر کن نہیں ہیں، وہ کئی طرح سے گلشن کا طرز بیاں نکھارتے رہے۔

ادب اور صحافت دونوں ہی ترجمان حیات ہیں، وہ اہلِ قلم جو کسی مقصد یا نظریے سے وابستہ اور کسی نصب العین کے لئے کوشاں ہوں، وہ بالعموم دونوں شعبوں میں احترام اور اعتبار پیدا کر لیتے ہیں۔ فیض احمد فیضؔ بھی اسی قبیلے کے سرخیل ہیں۔

صحافت ان کی ذات کا ایک پہلو، نظریاتی جدوجہد کا ایک محاذ اور اظہار ذات کا اہم ذریعہ تھی۔ سچا قلمکار معاشرے کے اجتماعی شعور کا آئینہ دار ہوتا ہے جو اسے اپنے احساسات سے باخبر بھی کرتا ہے اور اسے بدلتا بھی ہے۔

قلم کار ہر لمحے کو، ہر واقعہ کو صحیح پس منظر میں سب سے پہلے سمجھ لینے کی صلاحیت اور قوت رکھتا ہے، پھر اسے دوسروں تک پہنچانا اور دوسروں کو روشنی دکھانا اس کا فرض بن جاتا ہے۔ ژاں پال سارتر نے کہا تھا : ’’ادیب لکھتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے یہ فرض سنبھال لیا ہے کہ اس دُنیا میں جہاں آزادی کو ہر دم کھٹکا لگا رہتا ہے، آزادی کے نام کو، آزادی سے مخاطب ہونے کی سرگرمی کو جاوداں بنا دیا جائے‘‘ ۔۔۔بلا شبہ اہلِ قلم کو یہی فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ فیض ؔ صاحب نے بھی سچے قلمکار کے طور پر انگلیاں خون دِل میں ڈبو لیں اور ہر حلقہ زنجیر میں زباں رکھ دی ۔

فیض نے خوب سے خوب ترکی جستجو میں بحرِ عقل و خرد میں غوطہ زن ہو کر غور و فکر کے بعد فلاح انسانیت کے لئے افکار تازہ کا علم بلند کیا اور اپنی شاعری اور صحافت کو سماجیات سے ہم رشتہ کر کے اپنے نصب العین کی جدوجہد کا ذریعہ بنایا۔ بطور ادبی مدیر اور صحافی بھی فیض صاحب پُرمسرت دنیا کی تخلیق کی خاطر صبر آزما اور پُر مصائب جستجو کے عمل سے گزرے اور فکر کو تخلیقی، جری ، امن پسند اور جدت پسند بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔


یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ محققین اور نقادوں نے اپنی تمام تر توجہ فیض کی شاعری پر ہی مرکوز رکھی، جبکہ ان کی شخصیت کے دیگر پہلو ؤں بشمول صحافتی کردار کو نمایاں نہیں کیا گیا ۔

یہ بھی درست ہے کہ بڑے لوگوں کی ہمہ گیر زندگی کا کوئی ایک پہلو دوسرے پہلوؤں پر غالب آجاتا ہے، اسی طرح فیض کی شاعری اتنی مقبول ہوئی کہ دیگر پہلو پس منظر میں چلے گئے۔ فیض صاحب کا صحافتی کردار تین ادوار پر مشتمل ہے۔

قیام پاکستان سے پہلے انہوں نے ’’ادب لطیف ‘‘کی ادارت کی تھی، مگر عملی صحافت کا پہلا دور قیام پاکستان کے بعد ’’پاکستان ٹائمز‘‘، ’’امروز‘ ‘اور ’’لیل و نہار‘ ‘کی ادارت کا ہے جو ایوب خاں کے مارشل لاء تک ہے۔ دوسرا دور 1970ء اور 1971ء کا بحرانی زمانہ ہے، جس میں وہ دوبارہ ’’لیل و نہار‘‘ سے منسلک ہوئے اورپھر تیسرے دور میں بیروت سے شائع ہونے والے رسالے LOTUS کے مدیر ہوئے۔


فیض ؔ صاحب نے، جس زمانے میں وادئ صحافت میں قدم رکھا وہ بر صغیر میں انگریز عہد کے خلاف آزادی کی جنگ کا دور تھا۔ پہلی عالمگیر جنگ کے بعد آزادی کا شعور خاص طور پر نمایاں ہوا ۔ تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون نے بھی اس جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا ۔

اسی دور میں اُردو صحافت نے بھی نئی کروٹ لی اور علمی و ادبی صحافت کو فروغ حاصل ہوا۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ ، محمد علی جوہرؔ ، حسرت موہانیؔ ، مولانا ظفر علی خان، چراغ حسن حسرتؔ اور فیض احمد فیضؔ جیسے کہنہ مشق صحافیوں نے اُردو میں ادبی صحافت کی بنیاد ڈالی۔

ان تمام صحافیوں میں قدرِ مشترک یہی تھی کہ یہ دنیائے ادب کے رخشندہ ستارے ہونے کے ساتھ ساتھ صحافت کی خاردار وادی کے مسافر بھی تھے۔1936ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین ہندوستان نے ادب کو ملک میں بروئے کار آنے والے سماجی عوامل سے عملاً جوڑ دیا اور نظریاتی پرچارک کے لئے خاص طور پر مشاعرے منعقد کئے جاتے اور ترقی پسندوں کی تخلیقات شائع کرنے والے اخبارات اور رسائل کو بڑی دلچسپی سے تقسیم کیا جاتا۔

ہم خیالوں کو اکٹھا کرنے میں ادبی رسائل اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ فیضؔ ، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی، راجندر سنگھ بیدی اور اپندر ناتھ اشک کی تخلیقات بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ادبی رسالے میں چھپنے لگی تھیں۔

’’ہمایوں‘‘ اور’ ’ادبی دنیا‘‘ کے بعد لاہور ہی سے 1937ء میں ایک اور رسالہ ’’ادب لطیف‘‘انجمن ترقی پسند مصنفین ہندوستان کی پنجاب شاخ کے زیر اہتمام منظر عام پر آیا۔

فیض کو فوراً ’’ادب لطیف‘ ‘کی مجلس ادارت میں شامل کر لیا گیا ۔ جلد ہی انہوں نے صحافت کی باریکیوں سے آگاہی حاصل کر لی اور ادبی صحافت میں غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر کے ادارت کو زندگی کا اہم جزو بنا لیا۔


اس حوالے سے مرزا ظفر الحسن، ’’عہد طفلی سے عنفوان شباب تک‘‘ مشمولہ باتیں فیض سے ص21پر لکھتے ہیں کہ فیض کہتے ہیں: ’’ادب لطیف کی ادارت کی پیش کش ہوئی تو دو تین برس اس میں کام کیا۔ اس زمانے میں لکھنے والوں کے دو بڑے گروہ تھے، ایک ادب برائے ادب کا اور دوسرا ترقی پسند ادب کا۔

کئی برس تک ان دونوں کے درمیان بحثیں چلتی رہیں جس کی وجہ سے کافی مصروفیت رہی جو بجائے خود ایک بہت ہی دلچسپ اور تسکین دہ تجربہ تھا‘‘ ۔۔۔فیض صاحب 1939ء تک ’’ادب لطیف‘ ‘سے وابستہ رہے،اسی دوران ان کے اندر اعلیٰ تعلیم کا خواب انگڑائیاں لینے لگا تھا ۔

مہ و سال آشنائی میں فیض صاحب کہتے ہیں کہ ’’ مَیں نے 1939ء کے وسط میں مزید تعلیم کے لئے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ ایک اطالوی بحری جہاز میں جگہ بھی مخصوص کروا لی تھی ، ٹکٹ تک خرید لیا تھا، کپڑے بنوا لئے تھے ،بس جہاز کی روانگی کا انتظار تھا ، جہاز کے جانے میں ابھی کوئی دس دن باقی تھے جب خبر آئی کہ دوسری جنگ عظیم شروع ہو چکی ہے اور ملک سے باہر جانے کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں‘‘۔(جاری ہے)

اس کے بعد فیض ؔ صاحب لاہور آگئے اور ہیلے کالج آف کامرس میں انگریزی کے لیکچرر ہو گئے انہی دنوں کے حوالے سے فیضؔ خود لکھتے ہیں:’’جب تین طرف سے فاشسٹوں کا ریلا یعنی مشرق سے برما، مغرب سے شمالی افریقہ، اور شمال سے جنوبی روس کی طرف بڑھنے لگا اور اپنا دیس بھی اس سہ شاخہ یورش کی زد میں نظر آنے لگا تو مَیں نے ہندوستانی فوج میں ملازمت کرلی‘‘۔۔۔۔فیضؔ صاحب1942ء میں لڑکپن کے دوست میجر مجید ملک کے مشورے پر فوج میں کپتان ہو گئے اور ان کی خدمات نشر و اشاعت اور باشندگان مُلک کے شعبے کو تفویض کی گئیں۔

ان کے ہمہ گیر فرائضِ منصبی میں مختلف محاذوں سے روزانہ وائرلیس پر موصول ہونے والی خبروں کو یکجا کر کے جنگی خبر نامے تیار کرنا ، ان پر تبصرے لکھنا اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے برقیوں سے لے کر اخبار و رسائل کی اشاعت تک کا کام شامل ہوتا تھا۔

فیض نے نشر و اشاعت و اطلاعات کا یہ کام اتنی قابلیت اور کامیابی سے کیا کہ 1943ء میں میجر اور 1944ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی، جنگ کے اختتام پر M.B.E ،یعنی رُکن مملکت برطانیہ کے خطاب سے سرفراز ہوئے ۔


دوسری عالمگیر جنگ کے خاتمے کے بعد فیض فوجی ملازمت چھوڑنے کا سوچنے لگے ، انہوں نے محکمہ تعلیم کو دوبارہ استادی لوٹانے کی درخواست بھی کی، مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایک روز اچانک انہیں ایک انگریزی روزنامے کی ادارت سنبھالنے کی دعوت ملی۔

ڈاکٹر ایوب مرزا کی کتاب ’’فیض نامہ‘‘ کے مطابق فیض خود اس کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ : ’’ایک دن میاں افتخار الدین صاحب ہمارے پاس آئے اورکہا دیکھو ہم لاہور سے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے نام سے انگریزی اخبار نکال رہے ہیں اور تمہارا نام چیف ایڈیٹری کے لئے طے پا گیا ہے۔

مَیں نے کہا:’’ میاں صاحب آپ کمال کر رہے ہیں‘‘ مَیں نے صحافت میں کبھی قدم نہیں رکھا ۔ بھلا اتنا بڑا پرچہ کیسے چلا سکتا ہوں؟ میرا سیدھا سادا سا جواب سن کر میاں صاحب ناراض ہوئے اور کہا: مَیں کوئی بے وقوف ہوں، تم نے مجھے جاہل سمجھاہے جو تمہارا نام تجویز کر آیا ہوں ؟ اگر نا تجربہ کاری دلیل ہے تو فوج کا تمہیں کہاں تجربہ تھا ؟ بس اب فوج سے ریلیز کی درخواست بھجوا دو، اور دو ماہ میں پرچہ سڑکوں پر ہونا چاہئے ‘‘ ۔۔۔ فیض صاحب نے میاں افتخار الدین کی پیش کش تھوڑے غور و فکر کے بعد قبول کر لی ۔ ویسے بھی ایک ہزار روپے ماہانہ تنخواہ بری نہیں تھی ۔انہوں نے فوج سے مستعفی ہو کر اخباری ذمہ داریاں سنبھال لیں اور اس انہماک سے کام کیا کہ سونپی گئی ذمہ داری کے مطابق 4 فروری 1947ء کے دن ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کا شمارہ لاہور کی سڑکوں پر موجود تھا ۔

شروع میں مدیراعلیٰ کی مدد سے سینئر انگریز صحافی ’’ڈیسمنڈینگ ‘‘کا تقرر بھی کیا گیا جو صحافت و اشاعت کے کام کی باریکیوں سے فیض صاحب کو آشنا کرتا تھا، مگر لُدمیلاوسیلئیوا کے مطابق فیضؔ نے جلد ہی فن صحافت میں مہارت حاصل کر لی،اس انگریزمعاون کو خود ہی یہ احساس ہو گیا کہ بحیثیت اتالیق اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

ابتداء میں ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ پریس میں چھپتا رہا، مگر چند ماہ بعد پاکستان معرض وجود میں آگیا اور اسی دوران وہاں سے نکلنے والا اخبار ’’ٹریبیون‘‘ بند ہو گیا تو پی پی ایل کے میاں افتخار الدین نے اس پریس کو بلڈنگ سمیت خرید لیا ۔

فیض ؔ صاحب نے اس اخبار کے لئے جو ٹیم منتخب کی وہ ان ہی کا حسن انتخاب ہو سکتا تھا۔ مظہر علی خاں ان کے ساتھ جوائنٹ ایڈیٹر بنے تو زہیر صدیقی اور احمد علی خاں بھی ان کی ٹیم کا حصہ تھے ۔ فیض کی یہ صحافتی ٹیم آگے چل کر ملکی صحافت کی نئی سمت متعین کرنے میں بھی معاون ثابت ہوئی۔

مزید :

کالم -