اموس رسالتؐ کا تقاضہ، دھرنا ختم کر دیں!
بلاشبہ یہ ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے اور وفاقی حکومت نے جس تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا ہے، اس پر داد کی مستحق ہے کہ غلطی چھوٹی تھی یا بڑی، اس کا ارتکاب بھی اُدھر سے ہی ہوا۔
یہ بھی درست ہے کہ اب اسے درست کر دیا گیا ہے،بلکہ نئی ترمیم کے ذریعے اس امر کو پہلے سے بھی زیادہ واضح کر دیا گیا ہے کہ رسالتؐ پر یقین ہی ایمان کی بھی نشانی اور ضمانت ہے، یہاں تک تو ٹھیک اور غلطی ٹھیک بھی ہو گئی تو پھر اے بندۂ خدا یہ ہنگامہ کیا ہے؟اسلام آباد کے فیض آباد چوک میں تحریک لبیک یا رسولؐ اللہ کے ایک دھڑے نے(جو پہلے قائم کیا گیا) دھرنا دیا ہوا ہے، جسے آج (اِن سطور کی اشاعت تک) بارہ روز سے زیادہ ہو جائیں گے۔دھرنے والوں نے، بلکہ قائدین نے ہر نوع ہر قسم کی اپیل اور درخواست کو رَد کر دیا اور دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔
دھرنے کا یہ سلسلہ اس سے پہلے اسی نام کی تنظیم کے ایک دوسرے دھڑے نے شروع کیا اور اسلام آباد میں قیام کے بعد حلف نامے کی واپس بحالی کے بعد ختم کر کے آ گئے۔
ان کی قیادت اشرف جلالی نے کی تھی۔اب جو دھرنا ہے وہ محترم خادم حسین رضوی کی قیادت میں جاری ہے اور مطالبہ بڑھ کر وفاق اور صوبے کے وزرائے قانون کے استعفوں تک آ گیا ہے۔
اس سے پہلے کہ بات کو آگے بڑھایا جائے، یہ گزارش ضروری ہے کہ رسالتؐ ایمان کا پہلا جزو ہے کہ رسالتؐ پر ایمان ہی کے بعد تو اللہ کو بھی پہچانا گیا۔ حضورؐ کی نبوت و رسالت پر ایمان ہی تو اثاثہ ہے، اور جو کوئی اس میں رخنہ اندازی کرے وہ یقیناًمسلمان کہلانے کا بھی حق دار نہیں۔
اس پر تمام مکاتب فکر متفق اور کامل یقین رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ1953ء میں کل جماعتی مجلس ختم نبوت یا تمام مکاتب فکر کا اتحاد ہوا تو ختم نبوت ہی کے مسئلے پر تھا، ہمارے بزرگ اور رہنما مولانا ابو الحسنات سید محمد احمد قادریؒ کو سربراہی کا اعزاز ملا تھا اور پھر قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک چلی۔
جامع مسجد وزیر خان مرکز تھا، گرفتاریاں اور سزائیں بھی تحریک کو نہ روک سکیں، حتیٰ کہ لاہور میں منی مارشل لاء لگایا گیا۔ ہم نے خود بھی اس تحریک میں حصہ لیا اور قارئین کی یاد کے لئے عرض کر دیں کہ ہمارے کئی ساتھی نوجوانوں نے عشق مصطفی ؐ میں سینوں پر گولیاں بھی کھائی تھیں، اس تحریک کے حوالے سے یہ بھی گزارش ہے کہ مولانا ابو الحسنات اور مولانا مودودیؒ سے لے کر صاحبزادہ امین الحسنات سید خلیل احمد قادری (حضرت ابو الحسنات کے صاحبزادے) اور مولانا عبدالستار نیازی تک بھی گرفتار ہوئے۔
ان دو حضرات کو تو سزائے موت بھی سنائی گئی تھی۔اسی تحریک کا پھل1974ء میں ملا جب قومی اسمبلی میں تاریخی آئینی ترمیم ہوئی اور مرزائیوں کو اقلیت قرار دیا گیا، تب سے یہ آئین کا حصہ ہے اور مرزائیوں کے سب طبقات غیر مسلم قرار پائے ہوئے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں۔
اب سوال حالات حاضرہ کا ہے کہ موجودہ دھرنے کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں کے مکین،سرکاری ملازم، طلباء، مزدور اور عام شہری بے حد پریشان ہیں، راستے منقطع ہیں اور مظاہرین نے باقاعدہ یہ حکمتِ عملی اختیار کی ہے کہ راستہ نہیں دینا، چنانچہ یہ بے چینی اور پریشانی اپنی جگہ ہے۔
اب کہا جا رہا ہے کہ جب مطالبہ پورا ہو گیا،نئی ترمیم بھی منظور کر لی گئی اور متفقہ طور پر ہوئی تو پھر دھرنے کا مقصد پورا ہو گیا اِس لئے اسے ختم کر دینا چاہئے، لیکن دھرنے والوں نے ایسا نہیں کیا، حتیٰ کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ تک پہنچا اور فاضل جج نے دھرنا ختم کرنے کی ہدایت کر دی کہ عام شہریوں کو تکلیف اور پریشانی کا سامنا ہے اور یہ حکم اِس فاضل جج نے دیا جو حال ہی میں توہینِ رسالتؐ کے حوالے سے تاریخی فیصلہ دے چکے ہوئے ہیں۔فاضل جج نے مثال دی کہ حضور اکرمؐ تو لوگوں کی تکلیف کا اتنا خیال کرتے تھے کہ راستے میں سے خود کانٹے چُن کر ہٹا دیا کرتے تھے کہ نادانستگی میں کسی کے پیر میں نہ چبھ جائے۔
نبی اکرمؐ کی تمام تر تعلیم حقوق العباد کے حوالے سے ہے،جس میں دوسروں کے حق کا خیال لازم ہے۔یہاں لوگ پریشان ہیں،ان کو تکلیف پہنچانا مناسب نہیں۔
فاضل عدالت نے دھرنے والوں کو دھرنا ختم کرنے کی ہدایت کی، ان محترم حضرات نے یہ حکم بھی ہوا میں اڑا دیا اور تادم تحریر دھرنا جاری ہے، حالانکہ عدالت عالیہ کے حکم میں مظاہرہ اور دھرنا ختم کرنے کی ہدایت کی گئی اور اس کے لئے آج(ہفتہ) صبح دس بجے تک کی ڈیڈ لائن تھی، تاہم آخری وقت میں اسے مزید 24گھنٹوں کے لئے بڑھا دیا گیا کہ مظاہرین کی قیادت سے مزید بات چیت ہو سکے۔ی
وں یہ حد آج دس بجے تک کی ہے۔اللہ کرے اس عرصے میں یہ معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹ جائے۔ ہم یہاں یہ گزارش کرنے پر مجبور ہیں کہ مظاہرین نے اپنے اس رویے سے عام مسلمانوں کو دُکھی کیا ہے۔اب باتیں ہونے لگی ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو مولوی حضرات پوری قوم کو یرغمال بنا لیں گے۔ہم بھی سمجھتے ہیں کہ یہ طوالت حکمتِ عملی کے حوالے سے بھی درست نہیں کہ اصل غلطی درست کر لی گئی ہے،اس پر معذرت بھی کی گئی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، اِس لئے اسے قبول کر کے احتجاج اور دھرنا ختم کر دینا چاہئے تھا۔چلیں آپ یہاں تک آ گئے اور اپنی حیثیت مستحکم کر کے منوا لی تو براہِ کرم بات کو سمیٹ لیجئے کہ ریاست سے براہِ راست مقابلہ خود آپ کے لئے مفید نہیں ہے۔
یہ ضد معلوم ہونے لگا ہے۔ فاضل جج اسلام آباد ہائی کورٹ تو دیندار آدمی ہیں اور انہوں نے ہی ہدایت کی ہے۔ توقع کرنا چاہئے کہ آج(ہفتہ) ہی آخری مذاکرات کے ذریعے مطمئن ہو کر اس احتجاج کو ختم کر دیا جائے گا،دوسری صورت میں محاذ آرائی ہوئی تو نقصان مسلمانوں ہی کا ہو گا،جیسے دہشت گرد حضرات خود کو سچا کہتے اور دین ہی کے نام پر قتل کرتے ہیں، آپ سب علماء حضرات ہی تو ان کے موقف کو تسلیم نہیں کرتے کہ دین میں جبر نہیں۔