ٹی وی کمرشلز اور ہمارا معاشرہ
جن دِنوں ٹیلی ویژن ہمارے گھروں میں داخل نہیں ہوا تھا ، اُن دِنوں اِشتہار بازی بذریعہ اخبار یا ہورڈنگز ہوا کرتی تھی۔ مخصوص مصنوعات کے لئے اِشتہاری مہم بھی مخصوص ہوتی تھی۔ فلموں کی تشہیر انسانی ہاتھوں سے پینٹ شدہ بڑے بڑے جہازی ہورڈنگز کے ذریعے ہوتی تھی۔
گہرے اور بیہودہ سے رنگوں کے استعمال سے ہیرو اور ہیروین کی شکلیں غیر اِنسانی سی نظر آتی تھیں۔ تشہیر کے لئے تانگے بھی استعمال ہوتے تھے۔ تانگے کے چاروں طرف فلمی بورڈ لگے ہوتے تھے اور تانگے میں ڈھول بجانے والا راہ گیروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے مسلسل ڈھول بھی پیٹتا تھا اور وقفے وقفے سے زبانی اعلان کر کے نئی فلم اور سنیما ہال کے بارے میں اِطلاع بھی دیتا تھا۔ ساتھ ہی گھٹیا سے کاغذ پر چھپے ہوئے اِشتہار (Flyers) بھی راہگیروں میں بانٹتا جاتا تھا۔
outdoor اشتہار بازی کے لئے کھانے پینے والی مصنوعات کو سٹرکوں کے کنارے پر باقاعدہ میز پر پکایا جاتا تھا مثلاً بناسپتی گھی سے بنے ہوئے پکوڑے راہ گیروں کو کھلائے جاتے تھے اور لپٹن کی چائے پلائی جاتی تھی۔
کسی اِشتہار کو صارفین کے گھروں کے اندر پہنچانے کا واحد ذریعہ صرف اخبارات ہوا کرتے تھے۔ اخبار میں چھپا ہوا اشتہار تہذیب کے دائرے میں ہوتا تھا کیونکہ اُس اخبار پر ابّا میاں کے علاوہ بچوں کی بھی نظر پڑتی تھی۔
اِشتہار بازی کا قدیم طریقہ جو انگریز کے آنے سے پہلے کا رائج تھا یعنی ڈھول بجا کر راہگیروں کو اِکٹھا کرنا اور پھر شاہی فرمان کی طرح اعلان کر کے اپنی اشیاء سے متعارف کروانا۔ پچاس کی دھائی کے بعد ہمارے ہاں نیون سائنز بھی نظر آنے لگے۔
ایک وقت تھا کہ رنگین نیون سائنز کی بہار کراچی اور لاہور میں بہت نظر آتی تھی۔ جب ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ کی شکل میں بسیں چلنی شروع ہوئیں تو تانگوں کی جگہ بسوں نے لے لی۔ اَب بسوں کے دائیں بائیں اور پیچھے اِشتہار پینٹ ہونے لگے۔ یہ چلتے پھرتے اِشتہار عموماً بسوں پر مستقل چسپاں رہتے تھے۔ بسوں کے مالکان ایسے اشتہاروں کا معاوضہ لیتے تھے۔
جب تک ٹیلی ویژن ہمارے ہاں بلیک اینڈ وائٹ رہا، ٹیلی ویژن کے اِشتہار بھی ایسے ہی سادہ سے رہے۔ ٹی وی اِشتہار کے پیغام میں صنفِ نازک کا استعمال موقع محل کی مناسبت سے ہوتا تھا۔ ٹیلی ویژن کی زبان میں چلتے پھرتے اِشتہاروں کو کمرشلز کا نام دے دیا گیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ حکومتی ٹی وی کے علاوہ پرائیویٹ چینلز بھی میدان میں آگئے۔ سرکاری ٹیلی ویژ ن تو اخلاقیات اور تہذیب کی حدود کو ملحوظِ خاطر رکھتا تھا۔ رنگین ہونے کے باوجود پاکستان ٹیلی ویژن(PTV) میں بیہودہ یا لچر قسم کے کمرشلز براڈکاسٹ نہیں کئے جاتے تھے۔
پرائیویٹ TV چینلز کی بھر مارنے اینکرنک یعنی TV کی میزبانی کا معیار بھی کم تر کر دیا۔ خبریں پڑھنے والوں کی زبان دانی اور لب و لہجہ زیادہ تر بازاری سا ہو گیا۔ پاکستان میں اس وقت 127 پرائیویٹ چینلز ہیں، جن میں سے صرف 15 یا 20 چینلز قابل ذکر ہیں۔
اِن چینلز پر Original پروگرام بھی نشر ہوتے ہیں جن میں سے کئی مقبولِ عام ہوجاتے ہیں۔ اِن ہی چینلز کو زیادہ سے زیادہ کمرشلز ملتی ہیں۔ نجی ٹی وی چینلز کے مقبول پروگراموں میں 10 منٹ سے بھی زیادہ دورانیہ کے اِشتہار دکھائے جاتے ہیں۔ اکثر اِشتہار غیر معیاری ہوتے ہیں۔
زبان عامیانہ قسم کی استعمال ہوتی ہے۔ بڑی اور چھوٹی عمر کے ناظرین کا خیال رکھے بغیر نہایت غیر شائستہ ڈائیلاگ بولے جاتے ہیں۔
ہر کمرشل میں ایک خوبصورت ماڈل ضرور ہوگی خواہ اُس ماڈل لڑکی کا تعلق تشہیری Product سے دُور تک نہ ہو۔ ایسے لگتا ہے کہ خوبُرو لڑکی اور نوجوان لڑکے کے بغیر اشتہار مکمل ہی نہیں ہو سکتا۔
داڑھی کا شیو کرنے والا لڑکا تو اِشتہار میں شیو کرتے دِکھایا جا سکتا ہے لیکن لڑکی اُس کے ملائم شیو کی تعریف معنی خیز اَنداز میں ضرور کرے گی۔ سب سے زیادہ بد تمیزی والے اور لچر ڈائیلاگ والے اِشتہار عموماً موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کے ہوتے ہیں۔
لڑکا اور لڑکی تھوڑے سے پیسوں سے اپنے Cell فون پر تمام رات بات چیت کر سکتے ہیں۔ بتائیے ایسے Suggestive اِشتہار کس تہذیب کے دائرے میں آتے ہیں۔ آج سے 20 سال پہلے تک ہم خوبصورت ماڈلز کو فیشن شوز کے لئے اسٹیج پر Cat walk کرتے نہیں دیکھتے تھے، اَب تو وہ مختلف کمپنیوں کے ملبوسات اور کپڑوں کے ڈیزاین کی نمائش مردانہ شائقین کی دلچسپی کے لئے Ramp پر اِٹھلاتی لہراتی ہوئی آتی ہیں اور ایسے ایسے لباسوں کی نمائش ہوتی ہے جن کو ہماری پڑھی لکھی اور خوشحال لڑکیاں شائد شادی بیاہ پر بھی نہ پہنیں۔ لیکن متوسط طبقے کی لڑکیوں کی آنکھیں ضرور خیرہ ہو جاتی ہیں اور عموماًوہ احساسِ محرومی کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔ اِن ہی لڑکیوں میں سے کوئی غلط راستے پر نکل پڑتی ہے۔
چونکہ ہماری کمرشلز ،ٹیلی ویژن ناظرین کو متوجّہ کرنے کے لئے خوبصورت ماڈلز کو ضرور کسی نہ کسی طور دکھاتی ہیں اس وجہ سے ہمارے معاشرے کی ہر قبول صورت لڑکی ماڈل بننے کے خواب ضرور دیکھتی ہے۔
یہ دوسری بات ہے کہ خاندانی دباؤ اور دین سے لگاؤ کی وجہ سے وہ ماڈل بننے کی خواہش سینے میں ہی دبائے رکھیں ۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی جذباتی لڑکی کسی کے ورغلانے میں آجائے اور وہ ماڈل بننے کے لئے گھر سے نکل پڑے بغیر یہ جانے کہ اُس کی شکل و صورت اور جسم کی ساخت ماڈل بننے کے قابل ہے یا نہیں۔
ایسی لڑکیاں عموماً نچلے متوسط طبقے سے ہوتی ہیں اور مردوں کے جھانسے میں آکر ماڈل بننے کی بجائے کہیں اور پہنچ جاتی ہیں۔ اخباروں میں روزانہ ایسی خبریں آتی ہیں کہ فلاں شہر سے ایک لڑکی لاہور میں ماڈل یا ایکٹرس بننے کے لئے آئی اور اَوباش گروہوں کے ہاتھ لگ کر بے راہ روی کے راستوں پر خود ہی چل پڑی یا زبردستی اُس کی عصمت داغدار کردی گئی۔
TV کمرشلز اپنی چکا چوند سے ہماری جیبوں پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی TV کمرشل میں دِکھائی ہوئی اشیاء کو خریدنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔
ہم اپنے گھریلو اخراجات کی ترجیحات میں گڑ بڑ کر دیتے ہیں۔ ہمارے پاس Cell فون ہونے کے باوجود TV کمرشل پر بھڑکیلے Cell فون کو دیکھ کر خود بھی بھڑک جاتے ہیں اور بغیر پیشگی ارادے کے اپنی اشد ضروریات کو پسِ پشت ڈال کر وہ فون خرید لیتے ہیں۔
ہمارے TV چینلز کو کمرشلز ہی زندگی بخشتی ہیں۔چینلز اپنے پروگراموں کو زیادہ چٹخارے دار بناتے ہیں تاکہ اُن کی Rating اوپر جائے۔ جب ریٹنگ اوپر جائے گی تو اشتہار بھی زیادہ ملیں گے۔ زیادہ اشتہار چینلز کی زیادہ آمدنی کا باعث ہونگے ۔
اخلاقیات جائے چولہے میں، بس کارپوریٹ تجارتی مفادات اوّلین ہوتے ہیں۔ کمرشلز کی تیاری میں، اُن کی نمائش کے اوقات کے فیصلے ، اور وہ کمرشلز دِن اور رات میں کتنی مرتبہ دکھائی جائیں گی، اِن تمام پہلوؤں کے پیچھے اِنسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کی معلومات کی بہت ضرورت ہے۔
ایسی کمرشلز جو صرف عورتوں کو لبھائیں وہ کبھی رات 8 بجے کے بعد چلنے والے ٹی وی پروگرامز میں نہیں دکھائی جائیں گی کیونکہ یہ پروگرام سیاسی بحث مباحثوں اور تجزیوں پر مبنی ہوتے ہیں، عورتیں اِنہیں کم ہی دیکھتی ہیں، اس لئے عورتوں کو اپیل کرنے والے اِشتہارات اِن پروگراموں کے ساتھ نہیں دِکھائے جائیں گے۔
اگر دیکھا جائے تو پاکستانی چینلز پر چلنے والے اِشتہارات ہماری نوجوان نسل میں محرومی اور مایوسی کا عنصر بھی پیدا کرتے ہیں۔ یورپ اور باقی ترقی یافتہ ممالک میں نوجوان طالبِ علموں کو ہفتہ میں 20 گھنٹے کام کرنے کی اِجازت ہے۔ 20 گھنٹے کام کر کے یہ بچے اور بچیاں اتنی رقم کما لیتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کی کوئی بھی چیز جوTV پر مشتہرہوتی ہے ،خرید سکتے ہیں۔
ماں باپ پر بوجھ نہیں بنتے۔ روپیہ حاصل کرنے کے لئے غلط ہتھکنڈے استعمال نہیں کرتے۔ اس عمر میں خواہشات بھی لمبی چوڑی نہیں ہوتیں۔ ڈیزائنر لباس، ماڈرن سا Cell فون، برانڈڈ جوگرز اور اپنے دوست کے لئے کوئی اچھا سا تحفہ ۔
بس یہی کچھ ہوتا ہے ہر نوجوان کی ضروریات کا حصہ ۔ یہ ضروریات دراصل ٹی وی کمرشلز پیدا کرتی ہیں اور یہ بچے بغیر کوئی جُرم کئے اپنے ہی پیسے سے اپنی خواہشات پوری کر لیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے نے اور نہ ہی ہماری حکومت نے نوجوانوں کو اس طرح Independent ہونے کی سہولت دی ہے۔
لہٰذا ہمارے بچے اور بچیاں یا تو ماں باپ پر دباؤ ڈال کر اپنی بے موقع خواہشات جو TV کے اشتہار سے جنم لیتی ہیں، پوری کرتے ہیں یا پھر نا پسندیدہ راستوں پر چل کر جرائم کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔
سٹریٹ کرائم کرتے ہیں، اوباش لوگوں کے ہتھّے چڑھ جاتے ہیں، مختلف مافیاز کے کارندے بن جاتے ہیں اور لڑکیاں بوائے فرینڈز بنا کر اُن کے ہاتھوں خراب ہو جاتی ہیں۔
میَں نے اپنے کسی گذشتہ مضمون میں ٹی وی کے ڈبے کو شیطانی ڈبہ لکھا تھا۔شائد ٹھیک ہی لکھا تھا۔ Corporate کلچر اور ٹی وی کمرشلز کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تاجر اور صنعت کار اپنے منافع کو زیادہ ترین کرنا چاہتا ہے۔
اُسے اَخلاقیات، معاشرتی قدروں، حکومتی قوانین اور مذہبی پابندیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ٹی وی کمرشلز جتنی گلیمرس ہوں گی اُتنی ہی تعداد سے یہ مصنوعی صارفین پیدا کریں گی جو نہ چاہتے ہوئے اپنے ضروری اَخراجات کو پسِ پشت ڈال کر رنگ گورا کرنے والی کریم خریدیں گی۔
بالوں کی خشکی دُور کرنے والا مہنگا شمپو خریدیں گی، گھر میں جوتوں کے کئی جوڑے ہونے کے باوجود ، نئے ڈیزاین کی جوتیاں خریدیں گی۔غرضیکہ اشتہاری مہم بازی سے سرمایہ دار اِنسانی ذہنوں کو میسمرائز (Mesmerize) کردیتے ہیں۔ آج کل ایک ٹی وی چینل صرف عاملوں، جادوگروں اور استخارہ کرنے والوں کی اِشتہاربازی کر رہا ہے اور کمزور عقیدے کے حامل مرد و خواتین کی جیبیں خالی کروا رہا ہے۔
اس فراڈ کا شکار ہمارے برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی جو کم علم ہیں زیادہ ہیں۔ پہلے تو اِن فراڈ عاملوں کے اخباری اِشتہار آتے تھے۔ اَب یہ کام ٹی وی کمرشلز نے سنبھال لیا ہے۔ ہمارے صنعت کار ، بڑے تاجر اور بینک مالکان ، سرمایہ دار تو ضرور ہوتے ہیں لیکن وہ معاشرے کی ترجیحات کو نہیں سمجھتے ۔
کمرشلز بنانے والی اشتہاری کمپنیاں کیسے ہی بیہودہ Script والے اشتہار اِن سیٹھوں کے سامنے رکھ دیں، سیٹھ نے تو یہ دیکھنا ہے کہ اشتہار سے اُس کا کاروبار چمکے گا یا نہیں۔