پارلیمنٹ کی بالادستی ، مگر کیسے؟
آج کا بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابات ہوتے ہیں، حکومتیں بنتی ہیں، اُن کی مدت پوری ہو جاتی ہے، مگر کوئی تبدیلی نہیں آتی، جیسے حالات پہلے ہوتے ہیں، ویسے ہی برقراررہتے ہیں، تاوقتیکہ اگلے انتخابات آجاتے ہیں۔ یہ جمہوریت کی دوسری مدّت ہے، جو پوری ہونے جارہی ہے۔
کوئی بتائے کہ عام پاکستانی کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ عام پاکستانی کی زندگی کو تو چھوڑیں۔ یہ دیکھیں کہ سیاست اور سیاسی رویوں میں بھی کوئی تبدیلی آئی یا نہیں آئی؟ پہلے مسلم لیگ (ن) استعفے مانگتی تھی، اب پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف مانگ رہی ہیں۔
پہلے کرپشن کے الزامات آصف علی زرداری پر لگتے تھے، اب نواز شریف پر لگ رہے ہیں۔ پچھلی جمہوری حکومت بھی کمزور تھی، یہ بھی کمزور ہے۔
اتنی کمزور ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود اسلام آباد میں دھرنا ختم کرانے تک پر قادر نہیں۔ یہ کوہلو کے بیل والی صورت حال کب تک ہمارا مقدر بنی رہے گی؟ وہی جمہوری حکومت، وہی فوج، وہی عدلیہ اور وہی بیوروکریسی، اُن میں کشیدگی کا عنصر کب ختم ہوگا، کب یہ بحث قصۂ پارینہ بنے گی کہ ملک میں بالادست کون ہے، کس کی چلتی ہے اور کس کی نہیں چلتی۔
اب کوئی خدائی امداد تو آنی نہیں، جو راتوں رات ہمارے اداروں کے درمیان ایک ہم آہنگی پیدا کردے؟ ہماری لیڈر شپ اور قومی اداروں میں براجمان افراد نے اس معاملے کو نمٹانا ہے، مگر وہ یہ کر نہیں رہے اور پاکستان ایک معلق سی فضا میں چل رہا ہے۔ جمہوریت مضبوط نظر آتی ہے، نہ کھل کر آمریت کا پتہ چلتا ہے، یہ ملک ہے یا تجربہ گاہ ہے، جہاں ہر کوئی اپنے مطلب کے تجربے کر رہا ہے؟
ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ ہماری سیاست کو نوجوان قیادت کی ضرورت ہے۔ یہ تیس چالیس سال سے سیاست میں موجود نسل کا کام نہیں کہ وہ تبدیلی لائے۔ اس سیاسی قیادت کے ذہن اور سوچ ایک خاص رنگ میں ڈھل چکے ہیں، وہ اُس سے باہر نہیں نکل سکتی۔
یہ ضروری تو نہیں کہ جو ایک بار سیاست میں آگیا، وہ مرکر ہی اُس کی جان چھوڑے۔ انہوں نے قطر کی مثال دی، جہاں امیر قطر نے اپنے نوجوان بیٹے کو اقتدار سونپ کر خود کو علیحدہ کرلیا۔
اسی طرح اب سعودی عرب کے بارے میں خبریں ہیں کہ شاہ سلمان اپنے ولی عہد کو اقتدار سونپنے والے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں خاندان تو مسلط ہیں، مگر وہ خود اپنی نسل کو بھی آگے نہیں آنے دیتے اور ساٹھ ساٹھ برس کے بابے اپنی وہی پرانی سیاست جاری رکھے ہوئے ہیں، جس نے اس ملک کو سوائے کرپشن، بدامنی، انتشار، غربت اور عدم استحکام کے اور کچھ نہیں دیا۔
اُن کی یہ سب باتیں درست ہیں۔ جمہوریت کا عرصہ پانچ برس رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ سیاست میں جمود طاری نہ ہو اور نیا خون آتا رہے، مگر یہاں تو جمہوریت کو بھی بادشاہت کی طرح چلایا جارہا ہے۔ ہر بار انتخابات میں چہرے تک نہیں بدلتے اور وہی لوگ پھر مسلط ہو جاتے ہیں، جو سارے مسائل کی جڑ ہوتے ہیں۔ دنیا میں اقتدار اگلی نسل کو منتقل کرنے کا رجحان ہے، یہاں سیاسی جماعتیں تک اگلی نسل کو منتقل نہیں کی جاتیں۔ پیپلز پارٹی میں بلاول بھٹو کو چیئرمین تو بنا دیا جاتا ہے، مگر اُن پر تلوار آصف علی زرداری کی لٹکتی رہتی ہے۔ نواز شریف نااہل ہونے کے بعد ایک ترمیم کراکے دوبارہ پارٹی کے صدر بن جاتے ہیں، کسی اور کو آگے نہیں آنے دیتے۔ باقی ہر جماعت میں بھی پرانے بابے براجمان ہیں، اُن کا وہی انداز سیاست ہے، جو سارے مسائل کی جڑ ہے اور وہ اُسی طرح جوڑ توڑ کرکے اقتدار میں حصہ مانگنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، جیسے تین چار دہائیاں پہلے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سیاستدانوں کی سوچ نہیں بدلے گی تو کیا اسٹیبلشمنٹ کی سوچ یکطرفہ طور پر بدل سکے گی؟ جب قدم قدم پر مصلحتوں سے کام لے کر اقتدار تک پہنچنے کے لئے ملک کے طاقتور حلقوں سے مدد مانگی جائے گی تو جمہوریت میں سیاسی اداروں کی مداخلت کیسے کم کی جاسکے گی؟
ہر قیمت پر سیاست اور اقتدار میں رہنے کے رویے نے سیاستدانوں کو کمزور کیا ہے۔ آج اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کبھی شفاف نہیں ہوئے اور ہر بار اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ہی مہرے اقتدار میں اُتارے تو اس سے یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ سیاستدانوں نے اقتدار کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیاں استعمال کیں، اگر اُن میں حرف انکار کی جرأت ہوتی تو کوئی بھی انہیں نہ ہروا سکتا یا جتوا سکتا، بلکہ اس کا فیصلہ خالصتاً عوام کے ووٹ سے ہوتا۔ مجھے تو اس جمہوریت کی سمجھ نہیں آئی، جس میں منتخب ہو کر حکومت کرنے والے ہمیشہ سے رونا یہی روتے رہتے ہیں کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔
پچھلے دور حکومت میں یہ واویلا پیپلز پارٹی کرتی تھی اور موجودہ دور میں مسلم لیگ (ن) کررہی ہے۔ اب جبکہ نواز شریف اقتدار سے محروم ہو چکے ہیں، مسلسل یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ انہیں چار سالہ اقتدار کے دوران ایک دن میں آزادی سے کام نہیں کرنے دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ سیاستدانوں کی آخر وہ کیا کمزوریاں ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے خفیہ طاقتیں اُن کا ہاتھ مروڑتی ہیں اور کام نہیں کرنے دیتیں۔ ان کا تو کسی نے کبھی ذکر ہی نہیں کیا۔ بس یہی کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جا رہا، لیکن جمہوریت ہوتی کہاں ہے، کچھ اس کا اتا پتہ بھی تو ملنا چاہیے۔
جب جمہوریت کے نام پر فرد واحد کا حکم چلتا ہو، پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر بالا بالاسب کام کرلئے جاتے ہوں، سیاسی جماعتوں میں شخصی آمریت ہو اور کسی کو سوال کرنے تک کی آزادی نہ ہو تو جمہوریت کیسے مضبوط ہوسکتی ہے؟ نواز شریف آج پیچھے مڑ کے دیکھیں تو انہیں صاف نظر آئے گا کہ انہوں نے اپنی اصل طاقت یعنی پارلیمنٹ کو کبھی اہمیت نہیں دی۔
دو چاربار اسمبلی میں جاکر انہوں نے اس کی ’’توقیر‘‘ میں جس طرح اضافہ کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ طاقت آپ پارلیمنٹ کی مانگتے ہیں، لیکن پارلیمنٹ کو اہمیت تک نہیں دیتے، پھر یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ جمہوری حکومت کو چلنے نہیں دیا جارہا۔
سیاستدان ایک بات تو تسلیم کریں کہ قوم نے جمہوریت سے اپنی کمٹ منٹ اور بار بار کی آمریت کے خلاف اپنی ناپسندیدگی اور مزاحمت سے اتنی کامیابی تو حاصل کی ہے کہ اب ملک میں مارشل لاء لگانے کے حالات نہیں رہے۔
خود فوج بھی اس حقیقت کو تسلیم کرچکی ہے اور باقاعدہ اس کا اظہار بھی کرتی ہے۔ دوسری طرف عدلیہ نے بھی نظریۂ ضرورت کا باب بند کردیا ہے۔ اب کسی طالع آزما کو سپریم کورٹ نظریۂ ضرورت کا لبادہ نہیں پہنائے گی۔ گویا اس حوالے سے ہم مضبوط ہو چکے ہیں۔ اب یہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ جمہوری اداروں کو مضبوط کریں۔
پارلیمنٹ کے بارے میں آئے روز حزنیہ راگ نہ الاپیں کہ وہ سب سے کمزور ادارہ ہے۔ اُسے مضبوط کرنا کس کا کام ہے؟۔۔۔ وزیر اعظم ایوان کا سربراہ ہوتا ہے، وہ اگر وزیر اعظم بننے کے بعد پارلیمنٹ کو بھول جاتا ہے اور ارکانِ اسمبلی سے جان چھڑاتا ہے، تو کسی کا نہیں اپنا نقصان کررہا ہوتا ہے۔
یہ تو ابھی کل کی ہی بات ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ یہ دہائی دیتے نظر آتے ہیں کہ وزراء پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتے، حتیٰ کہ پارلیمانی کمیٹیوں کے سربراہ بھی سوالات کے جوابات دینے کو تیار نظر نہیں آتے۔ اب جس ادارے کو خود اُس کے نمائندے بے تو قیرکررہے ہوں، اُسے دوسرے کیوں عزت دیں گے؟ ایک منتخب وزیر اعظم کو ریاست کا کوئی ادارہ کیسے دباؤ میں لاسکتا ہے، تاوقتیکہ اُس کے اپنے معاملات شفاف نہ ہوں۔ سیاستدانوں کو مضبوط جمہوریت اور پارلیمنٹ ٹوکری میں سجا کر پیش نہیں کی جاسکتی، اس کے لئے انہیں خود جدوجہد کرنا پڑے گی، جو فی الوقت کسی کی ترجیح نظر نہیں آتی۔