حکومتی پالیسیوں میں تسلسل اور شفافیت ناگزیر ہے، ابراہیم قریشی
لاہور(کامرس رپورٹر)آل پاکستان بزنس فورم نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور عالمی مسابقتی انڈیکس (جی سی آئی) میں بہتری کیلئے حکومتی پالیسیوں میں تسلسل اور شفافیت کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ عالمی اقتصادی فورم نے پاکستان کی درجہ بندی 115 ویں نمبر پر کی ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ آل پاکستان بزنس فورم کے صدر ابراہیم قریشی نے طویل المدتی پالیسیوں کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بدعنوانی کی شناخت ملک میں کاروبار کرنے کیلئے سب سے زیادہ مشکل مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ عالمی مسابقتی انڈیکس کے لحاظ سے پاکستان کی درجہ بندی میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ جنوبی ایشیائی ہمسایوں میں سب سے آخر پر ہے جہاں عالمی مسابقتی انڈیکس 2017-18ء میں بھارت 40 ویں نمبر پر ہے جبکہ بھوٹان 82 ویں، سری لنکا 85 ویں، نیپال 88 ویں اور بنگلہ دیش 99 ویں نمبر پر ہیں۔ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کے رجحان سے متعلق انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان میں غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری میں 2016-17ء کے دوران 4 فیصد اضافہ ہوا جو 2.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی لیکن یہ ملک کی جی ڈی پی کا ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ ماضی میں ریکارڈ کی گئی غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری سمیت غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کی سطح پاکستان کی صلاحیت اور استعداد سے کم ہے۔ ابراہیم قریشی نے حکومت کو پاکستانی مصنوعات کو فروغ دینے کیلئے حکمت عملی تیار کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے ٹریڈ افسران پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی جانب سے پیش کئے گئے مواقع کا فائدہ اٹھانے پر بھی زور دیا۔
ابراہیم قریشی نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کے باوجود غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کرنٹ اکاؤنٹ کے خلا کو پُر کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ اس کے نتیجہ میں ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مالی سال 2017ء کے دوران 1.7 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں کمی کا رجحان دیکھا گیا جس میں 66 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ آل پاکستان بزنس فورم کے صدر نے کہا کہ سخت اقدامات معیشت کو بحال کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ٹیکس بیس میں اضافہ کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح موجودہ 9 فیصد سے بہتر ہو سکے۔ حکومتی چیلنجز کے علاوہ ناموافق سیکورٹی صورتحال، سیاسی عدم استحکام اور غیر ملکی تجارتی دفاتر کا کردار غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کے تسلسل کیلئے بھی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ حکومت کے موجودہ دور میں سب سے زیادہ سنگین اقتصادی چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ جب موجودہ حکومت 2013ء میں اقتدار میں آئی تو ملکی سالانہ تجارتی خسارہ 20.44 ارب ڈالر تھا۔ اس میں اس وقت سے مسلسل اضافہ ہوتا گیا جبکہ مجموعی درآمدی بل میں 18.7 فیصد اضافہ ہوا جو 2016-17ء کے لئے 53 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے برآمدی صنعتوں کو 24 گھنٹے بجلی کی فراہمی اور بجلی کے نرخوں میں 3 روپے فی یونٹ کی رعایت کی فراہمی کے دعوؤں کے باوجود برآمدات میں کمی آئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں صنعت کے لئے بجلی بنگلہ دیش سمیت خطے کے دیگر ممالک میں 7 روپے کلو واٹ فی گھنٹہ کے مقابلے میں ساڑھے 10 روپے کلو واٹ فی گھنٹہ میں دستیاب ہے۔ علاوہ ازیں گیس بنگلہ دیش میں 400 روپے کے مقابلے میں پاکستان میں 1000 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو میں دستیاب ہے۔ ۔#/s#