عمران خان کی گورننس

عمران خان کی گورننس
 عمران خان کی گورننس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عمران خان صاحب کی سیاست پرتو پہلے ہی ماتم برپاتھا مگر ایک یتیم لڑکی کو برہنہ کر کے سڑکوں پر گھمانے کے بعد ان کی گورننس بھی ایکسپوز ہو گئی ہے، ایکسپوز خیبرپختونخوا کی وہ پولیس بھی ہوئی ہے جس کے بارے سوشل میڈیا پر پاکستان کی بہترین پولیس ہونے کا تاثر تراشا گیااور یہ تمام حقائق نظرانداز کر دئیے گئے کہ ملک میں کہیں دھماکہ ہوتا ہے،منشیات یا اسلحے کی کھیپ پکڑی جاتی ہے ، کسی کا کوئی پیارا اغوا ہوتا ہے یا گاڑی چوری ہوتی ہے تو اس کے ڈانڈے اسی صوبے کے دارالحکومت ، مردان سمیت سیٹلڈ ایریاز یا ان سے ملحقہ علاقوں میں بسنے والے جرائم پیشہ اور ملک دشمن عناصر سے جا ملتے ہیں، اگر خیبرپختونخوا کی پولیس دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کی سہولت کار نہ ہو تو ان برائیوں کے ملک کے دوسرے حصوں میں پہنچنے کے امکانات آدھے سے بھی کم رہ جاتے۔

اسی پولیس کا ایس ایچ اوہے جس نے سولہ برس کی نوجوان مگر غریب لڑکی کو ڈیرہ اسماعیل خان کی گلیوں میں برہنہ گھمانے کے اندوہناک اور شرمناک جرم پر مظلوموں کے خلاف ہی مقدمہ درج کر لیا، متاثرین کو ڈرایا دھمکایا ، اس بچی کی ماں کو سرعام گالیاں دیں ۔

وہ ایک صوبائی وزیر کے چچا کے ہاتھوں یرغمال تھا جس کے خلاف پہلے ہی دہشت گردوں سے رابطوں کے حوالے سے دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کی درخواستیں موجود ہیں، وہ وزیر جو بنی گالہ جاتے ہوئے اسلحے اور’ بلیک لیبل شہد‘ برآمد ہونے پر بھاگ نکلا تھا بلکہ اس سے پہلے ایک ضمنی انتخاب میں بیلٹ باکس لے کر فرار ہوتا ہوا مقامی لوگوں کے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔


ہم نئے پاکستان کے داعی عمران خان کی گورننس کا تقابل میاں نوازشریف اور میاں محمد شہباز شریف کے ساتھ ہی کر سکتے ہیں جو ان کی تنقیدکا سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں عمران خان نے خیبرپختونخوا کی پولیس کی سوشل میڈیا کمپین کو تیز کرتے ہوئے پنجاب پولیس میں تبدیلی کو بھی مذاق کا نشانہ بنانے کی کوشش کی مگر یہی پنجاب پولیس جب کہیں زیادتی کرتی ہے تو نواز شریف اور شہباز شریف اس کا دفاع کرنے کی بجائے اپنے صوبے کے عوام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔

یہاں کے پولیس افسران کو ظلم و زیادتی کرنے پر جیل بھیجا جاتا ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ پنجاب پولیس میں صوبائی حکومت کا ایک خوف ضرور موجود ہے۔

میں جب عمران خان کی گورننس کا مقابلہ شہباز شریف کے ساتھ کرتا ہوں تو مجھے عمران خا ن نہ تو ان ہزاروں ڈینگی مریضوں کی فکر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جن میں سے درجنوں اپنی جان سے گئے اور نہ ہی وہ ڈیرہ اسماعیل خان کے اس واقعے میں مظلوم خاندان کو تسلی دیتے اور اس مظلوم بچی کے سر پر چادر رکھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

کیا یہ امر حیرت انگیز نہیں کہ عمران خان کی اس واقعے کا نوٹس لینے بارے جو ویڈیو بہت سارے دنوں کے بعد منظر عام پر آئی ہے اس میں وہ اپنی ہی پارٹی کے اس رکن قومی اسمبلی داور کنڈی کو پارٹی سے نکالنے کا نادر شاہی حکم جاری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو اپنے علاقے میں مظلوم خاندان کے ساتھ کھڑا ہے، مظلوم لڑکی کے چچا سمیت دیگر رشتے داروں کی ترجمانی کرتے ہوئے ظالموں کوایکسپوز کررہا ہے۔ عمران خان ڈیرہ اسماعیل خان کے واقعے میں ایک ایسے لیڈر کا دفاع کرتے ہوئے پائے گئے جس چہرے مہرے والے فلموں میں ولن کے طورپر لئے جاتے ہیں۔


عمران خان میکرو اور مائیکرو کے ساتھ ساتھ سیاسی اور انتظامی تمام اقسام کی انتظامی صلاحیتوں میں ناکام نظر آتے ہیں۔ مجھے حق نہیں کہ میں ان کی ذاتی زندگی کو ڈسکس کروں جو ناکامی کی ایک الگ داستان ہے مگر سیاسی سطح پر وہ شیخ رشید احمد اورچودھری پرویز الٰہی جیسے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ مل کر نامعلوم افراد کی طرف سے مشکلات کا شکار مسلم لیگ نون کے ارکان کی بغاوت کی درفنطنیاں تو روزانہ چھوڑتے ہیں مگر حقیقت میں دھرنے سے لے کر اب تک ان کی اپنی پارٹی میں بغاوت کا بدترین دور چل رہا ہے، کچھ ارکان اسمبلی انہیں خود چھوڑ گئے اور بہت ساروں کو وہ خود کسی ڈکٹیٹرکی طرح پارٹی سے دھکے دے دے کرنکال رہے ہیں، سیاسی طور پر ممکن ہے کہ جیسے ہی خیبرپختونخوا کی حکومت ختم ہو توان کے بہت سارے ’الیکٹ ایبلز‘ ان سے الگ ہو جائیں۔ یہ دلچسپ امر ہے کہ جب چودھری پرویز الٰہی ، عمران خان کے مسلم لیگ نون میں بغاوت کے بیان میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو خود عمران خان ان کے بہنوئی کو ان سے الگ کر رہے تھے اور اسی طرح شیخ رشید احمد اپنی پارٹی کے یکا و تنہا رہنما ہیں۔ دروغ بہ گردن راوی ،خان صاحب اپنی ہی پارٹی کے وزیراعلیٰ کے ہاتھوں یرغمال نظر آتے ہیں۔

وہ صوبائی حکومت کی گوشمالی تو ایک طرف ، رہنمائی تک فراہم کرتے ہوئے نظر نہیں آتے جو ان کو ملنے والے مینڈیٹ اور عوامی اعتماد کا بنیادی تقاضاہے۔ ان کا صوبہ تعلیمی صورتحال میں پنجاب سے بہت پیچھے ہے، ان کے بنیادی مراکز صحت جان بچانے والی ادویات کی کمی سے سانحے سے دوچار ہیں۔


عمران خان کی گورننس الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہی نظر آتی ہے جہاں وہ دو سے تین برس کے قلیل عرصے میں ایک ارب اٹھارہ کروڑ درخت اگانے کے دعوے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کوئی جواب نہیں ملتا کہ اگر تین برسوں میں ایک ارب اٹھارہ کروڑ درخت لگائے جائیں تو ایک دن میں پونے گیارہ لاکھ سے زائد درخت لگانے ہوں گے اور اگر ایک شخص روزانہ آٹھ گھنٹے کام کرتے ہوئے سو درخت بھی لگائے تواس کام کو مکمل کرنے کے لئے بغیر کسی چھٹی کے کام کرنے والے تینتیس ہزار افراد روزانہ چاہئے ہوں گے اور میرے پاس ایسی کوئی ویڈیو اور دستاویزی ثبوت نہیں جو مجھے پوری لگن کے ساتھ محض دس فیصد یعنی تینتیس سولوگوں کو ہی کام کرتا ہوا دکھا دے۔

خان صاحب کی اسی گورننس کو سوشل میڈیا پر ان کے جان نثار اس طرح دکھاتے ہیں کہ دنیا بھر کے جدید ترین ائیرپورٹ ، سڑکیں اور پل کاپی کرتے ہوئے خیبرپختونخوا میں پیسٹ کررہے ہیں۔ خیبرپختونخوا وہ صوبہ ہے جس میں ایک سیاسی رہنما نے اپنی صوبائی حکومت اور سیاسی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی والدہ کے نام پرایک بڑا ہسپتال تو بنا لیا ہے مگر مجھے وہاں کسی ایک نئے ٹیچنگ ہسپتال کے قیام کے بارے بتاتا ہوا کوئی نظر نہیں آتا بلکہ کہا جاتا ہے کہ بہت سارے ایسے ترقیاتی کام جو اے این پی کی حکومت میں شروع کئے گئے تھے، ابھی تک مکمل نہیں ہوسکے۔

ایک طرف پی ٹی آئی کی حکومت ، پنجاب حکومت کی میٹرو کو گالیاں اور کوسنے دینے کے بعد، اسی طرح کی ایک میٹرو اس سے کہیں زیادہ بجٹ میں بنارہی ہے تو دوسری طرف خیبرپختونخواہ کی تمام اہم سڑکیں نیشنل ہائی وے اتھارٹی بناتی ہوئی نظرآتی ہے جو وفاقی حکومت کا ادارہ ہے۔


اے این پی پنجاب کے صدر امیر بہادر خان ہوتی نے ایک پیغام میں کہا کہ عمران خان کی گورننس یہ ہے کہ پارٹی انتخابات میں دھاندلی کی نشاندہی کی تو جسٹس وجیہہ الدین کو نکال دیا، جمہوریت کے خلاف سازش کو مسترد کیا تو جاوید ہاشمی کو پارٹی کی صدارت سے ہٹا دیا،اکبر ایس بابر نے پارٹی فنڈز میں کرپشن کی نشاندہی ہوئی تو انہیں اپنا دشمن قرار دے دیا، خواتین کو گندے میسجز کا ایشو کھڑا ہو اتو معافی مانگنے اور توبہ کرنے کی بجائے عائشہ گلالئی کے خلا ف فواد چودھری اور فواد چودھری جیسوں کو لگا دیااور اب ایک لڑکی پر ظلم ہوا ہے اس کے ساتھ کھڑے ہونے والے ایم این اے کے خلا ف ایکشن لے لیا ہے۔

باقی ساری باتیں اپنی جگہ پر لیکن اگر وہ اپنے صوبے میں بدترین ظلم کا شکار ہونے والی ایک غریب لڑکی کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے تو انہیں نہ بہادر کہلوانے کا حق ہے اور نہ ہی سیاستدان۔

میں تو یہ کہتا ہوں کہ ایک اچھے انسان اور سیاستدان کی آنکھوں میں تو اس وقت بھی آنسو آجانے چاہئیں جب وہ کسی چڑیا کے بچے کو گھونسلے سے گرتے ہوئے دیکھ لے،اگرآپ کا دل سخت ہے اور آپ کی آنکھوں میں کسی ظلم کو دیکھ کر آنسو نہیں آتے تو اپنی شکل اور اپنے الفاظ ہی کچھ افسوس والے بنا لیں مگر شائد یہ بھی آپ کے کنٹرول میں نہیں ہے۔

مزید :

کالم -