حکومت صبر کا دامن نہ چھوڑے، فریقین درمیانی راستہ نکالیں: مفتی منیب الرحمٰن

حکومت صبر کا دامن نہ چھوڑے، فریقین درمیانی راستہ نکالیں: مفتی منیب الرحمٰن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی (اسٹاف رپورٹر)معروف عالم دین اور رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے کہاہے کہ پارلیمنٹ نے عقیدہ ختم نبوت کا قانون بحال کر دیا، حکومت کے پاس حالات سے نمٹنے کی قوت موجود ہے لیکن ملک کسی سانحہ کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ پی ٹی آئی ہو یا مسلم لیگ ن کسی کا دامن دھرنوں سے پاک نہیں، دھرنوں کی روایت حکومت اور لبرل جماعتوں نے شروع کی۔ حکومت پر زور دیتا ہوں انتہائی اقدام نہ کرے بلکہ دھرنے والوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرے، دھرنے کے شرکا سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کوجامعہ نعیمیہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ اسلام آباد میں دینی جماعتوں کے دھرنے سے عوام کی مشکلات کا احساس ہے لیکن ان کا دھرنا اور مطالبات بالکل جائز ہیں جبکہ ان کی قیادت ختم نبوت قانون بحال ہونے پر مطمئن ہے۔مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ دھرنے میں موجود مظاہرین کسی سیاسی جماعت کی اجرت پر لائے ہوئے لوگ نہیں بلکہ ختم نبوت پر کامل یقین رکھنے والے مسلمان ہیں، حکومت ان کے خلاف کسی سخت ایکشن لینے کا نہ سوچے بلکہ ایک بااختیار وفد مذاکرات کے لئے جائے اور ان کے مطالبات کو تسلیم کرے تاہم کسی عالم یا مشائخ کو دھرنے والوں سے مذاکرات کا اختیار نہیں ہے، جب کہ مظاہرین سے بھی اپیل ہے کہ وہ درمیانی راستہ اپنائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا دینی جماعتوں کو کوریج نہیں دیتا، جبکہ پیمرا رمضان میں ناچ گانے اور دین کا تماشا بنانے والے پروگرامات کو بھی روکے۔مفتی منیب نے کہا کہ حکومت باآختیار افراد پر مشتمل مذاکراتی وفد کا انتخاب کرے جو مطالبات کو حل اور ذمہ داروں کا بتاتے ہوئے غلطی کا اعتراف اور قوم سے معافی مانگے ۔ ایسا کوئی اقدام نہ اٹھایا جائے تاکہ پھر لال مسجد جیسا واقعہ دوبارہ رونما ہو ہم خبردار کرتے ہیں کے ملک لال مسجد جیسے سانحہ کا متحمل نہیں ہو سکتا،ریلی اور دھرنو میں پہلے بھی اموات ہوئی ہیں۔میں حکومت سے کہ رہا ہوں کے کوئی ایسا اقدام نہ کرے جس سے چیزیں اور الجھ جائیں۔ انہوں نے کہاکہ علامہ قادر حسین اور پیر افضل قادری ہمارے اسلام آباد میں نمائندہے ہیں۔انہوں نے میڈیا سے سوال کیا کہ کیا دینی طبقات پاکستانی نہیں ہیں ؟؟؟۔حکومت کو اپنے عوام کے دینی جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔ اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تب بھی ہم قانون ہاتھ میں نہیں لییں گے۔انہوں نے کہاکہمیڈیا بھی اپنا متعصبانہ رویہ ترک کرے جبکہ حکومت بھی میڈیا کی باتوں میں نہ آئے، میڈیا کی جانب سے خواجہ سراؤں، نابیناؤں ، سیاسی جماعتوں اور ہر شخص کو کوریج ملتی ہے لیکن مذہبی جماعتوں کو کوریج نہیں دی جاتی جس سے احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے، خدارا میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور مذہبی طبقے کو انتہا پسندی تک جانے سے بچائے۔

مزید :

صفحہ آخر -