آئی ایم ایف سے قرض کا پیکیج،پارلیمینٹ سے منظوری حاصل کی جائے

آئی ایم ایف سے قرض کا پیکیج،پارلیمینٹ سے منظوری حاصل کی جائے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آئی ایم ایف نے پاکستان کو تجویز پیش کی ہے کہ قرض کے حصول کے لئے حکومت کو پارلیمینٹ سے منظوری لینی چاہئے اور اصلاحات پر اتفاق رائے حاصل کرنا چاہئے، تمام پارلیمانی جماعتوں سے قرض واپسی کی شرائط پر مشاورت ہونی چاہئے۔ آئی ایم ایف کا موقف ہے کہ مستقبل میں جس پارٹی کی بھی حکومت ہو وہ آئی ایم ایف کی تجویز کردہ اصلاحات اور قرض واپسی کی پابند ہو گی، اِس لئے یہ ضروری ہے کہ اصلاحات اور قرض کے حصول کا پورا منصوبہ پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں (قومی اسمبلی+سینیٹ) میں پیش کیا جائے اور ایف بی آر، بجلی کی پیداواری کمپنیوں سمیت دیگر محکموں میں اصلاحات کے منصوبے پر اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے۔
آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے سلسلے میں پاکستان کو جن شرائط کا پابند کیا جا سکتا ہے اُن میں سے بہت سی شرطوں پر تو آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے ہی پاکستان عمل کر چکا ہے،جن میں روپے کی قیمت میں کمی،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے جیسی شرائط شامل ہیں۔اب اصلاحات کے نام پر کچھ مزید مطالبات بھی آئی ایم ایف کی جانب سے سامنے آئے ہیں اور اگر قرض لینا ہے تو ان مطالبات کو بھی پورا کرنا ہو گا۔البتہ قرض کے پیکیج،اس کی واپسی اور آئی ایم ایف کی اصلاحات وغیرہ کے معاملات کی منظوری پارلیمینٹ سے لینے کی تجویز بڑی بروقت اور صائب ہے، ویسے تو خود حکومت کی جانب سے اپنے طور پر یہ مسئلہ پارلیمینٹ میں پیش کر دیا جاتا تو قابلِ تعریف ٹھہرتا، کیونکہ پارلیمینٹ ہی ایک ایسا فورم ہے،جہاں قوم کو درپیش تمام حقیقی مسائل پر کھل کر بات ہونی چاہئے اور ان کا حل تجویز کرنا چاہئے،لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم پارلیمینٹ جیسے موقر اور ہر لحاظ سے مُلک کے بالاتر ادارے کو خود ہی ڈیبیٹنگ کلب سے بھی نیچے کے مقام پر لے آئے ہیں۔
اگر کسی جبیں پر شکن نہ آئے تو ہم عرض کریں گے کہ قوم کو درپیش مسائل پر اوّل تو پارلیمینٹ میں سنجیدہ بحث کو بہت کم وقت دیا جاتا ہے اور اگر کبھی اس کی نوبت آ بھی جائے تو بحث کا معیار انتہائی پست ہوتا ہے،اِس میں لڑائی جھگڑے کا عنصر ہی حاوی رہتا ہے اور نوبت احتجاج اور واک آؤٹ تک آ جاتی ہے،ہر حکومت کی اپوزیشن تو احتجاج کرتی رہی ہے،لیکن یہ غالباً پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک وفاقی وزیر کو اس کی تلخ گوئی،بلکہ بدزبانی کو چھوتی ہوئی گفتگو کی وجہ سے ایوانِ بالا سے نکالا گیا، اور یہ نوبت یہاں تک اِس لئے آئی کہ وزیر نے چیئرمین سینیٹ کی ہدایت کے باوجود معذرت سے بھی انکار کر دیا تھا اور پھر اگلے روز یہ اطلاع بھی عام کر دی کہ وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں سینیٹ میں وفاقی وزیر کے ساتھ توہین آمیز سلوک کا نوٹس لیا ہے،جبکہ ایک دوسرے وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ اِس معاملے پر تو کابینہ کے اجلاس میں سرے سے بات ہی نہیں ہوئی،اب جہاں حالت یہ ہو کہ کابینہ کے اجلاس کے بارے میں ایک ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو وزیروں کے بیانات ہی آپس میں نہ ملتے ہوں وہاں قوم کے مسائل کا حل پارلیمینٹ میں بحث مباحثے کی روشنی میں نکالنے کی کاوشوں میں کون سنجیدہ ہو گا۔
ہمارے مُلک میں آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے بارے میں ایک خاص طرح کی فضا ہر وقت موجود رہتی ہے،حکومت کوئی بھی ہو وہ جب کبھی آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لئے رجوع کرتی ہے اسے اپوزیشن کی تنقید کا سامنا ہوتا ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ جب قرض پر اپوزیشن تنقید کر رہی ہو اس کا زمینی حقائق سے بھی کوئی تعلق ہو،بس جس کے دِل میں جو آئے کہہ دیتا ہے، انہی دِنوں میں جب آئی ایم ایف کا وفد قرض پر مذاکرات کے لئے پاکستان آیا ہوا ہے،اس قرض پر بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں، ویسے تو وزیراعظم عمران خان خود ایک زمانے میں کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس قرض کے لئے جانے سے بہتر ہے کہ آدمی خود کشی کر لے،اب چونکہ یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ اور حرام فعل ہے،اِس لئے انہوں نے بہت بروقت یوٹرن لے لیا ہے، اور ان کی حکومت نہ صرف آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لئے کوشاں ہے،بلکہ تمام شرائط پر بھی عمل کرتی ہوئی نظر آتی ہے، ایسے میں اگر آئی ایم ایف نے یہ مشورہ دے دیا ہے کہ پاکستان اِس سارے میں معاملے کی(یعنی قرض اور اس سے جڑی ہوئی اصلاحات) کی پارلیمینٹ سے منظوری لے تو یہ اچھی تجویز ہے، اس پر فوری طور پر عمل ہونا چاہئے، غالباً اِس کی ضرورت آئی ایم ایف نے اِس لئے محسوس کی ہے کہ بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایسی باتیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں کہ آئی ایم ایف کو قرضہ واپس کرنے سے انکار کر دیا جائے،اِس لئے آئی ایم ایف نے محسوس کیا ہو گا کہ کل کلاں اگر تحریک انصاف کی حکومت نہیں رہتی اور کوئی دوسری جماعت برسر اقتدار آ جاتی ہے تو اسے پہلے سے اپنی ذمے داری کا احساس ہونا چاہئے۔
جو لوگ قرض ادا نہ کرنے کی بات کرتے رہتے ہیں۔اگرچہ اُن کے کبھی برسر اقتدار آنے کا امکان نہیں اِسی لئے وہ ایسی بات کرتے ہیں تاہم سیاسی فضا میں اس طرح کی آوازیں گونجتی تو رہتی ہیں، خود وزیراعظم عمران خان آج بہت سے ایسے اقدامات کر رہے ہیں یا کرنے پرمجبور ہیں،جن کی وہ ماضی میں مذمت کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے دھرنے کے دوران اعلان کیا کہ بیرونِ مُلک مقیم پاکستانی ہُنڈی کے ذریعے رقوم پاکستان بھیجیں، اب ان کی حکومت میں ہُنڈی کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، اِسی طرح انہوں نے بجلی کے بل جلائے، لیکن کیا وہ آج پسند کریں گے کہ لوگ احتجاجاً بل ادا کرنے سے اس لئے انکار کر دیں کہ یہ اُن کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں، چونکہ ہماری حکومتیں اور ہماری اپوزیشن جماعتیں وقت کے ساتھ اپنی رائے بدلتی رہتی ہیں یا باالفاظ دیگر یوٹرن لیتی رہتی ہیں، جو بقول عمران خان اچھے لیڈر کی نشانی بھی ہے، اِس لئے آئی ایم ایف نے یہ اچھا مشورہ دے دیا ہے کہ قرض کی منظوری سے پہلے اِس معاملے کی پارلیمینٹ سے منظوری حاصل کر لی جائے تاکہ کل کو اگر کوئی دوسری جماعت برسر اقتدار آئے یا کسی جانب سے یہ آواز اُٹھے کہ یہ قرض چونکہ ہماری حکومت نے نہیں لیا اِس لئے ہم اسے واپس کرنے کے پابند بھی نہیں تو اس کا توڑ پہلے سے موجود ہو۔اگرچہ آئی ایم ایف یہ شرط اپنے قرض کی واپسی کو محفوظ کرانے کے لئے پیش کر رہا ہے،لیکن جس بھی وجہ سے یہ تجویز پیش کی جا رہی ہے یہ عین جمہوری طریقہ ہے اِس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ نہ صرف آئی ایم ایف سے قرض کی تمام تر تفصیلات اور اصلاحات کا پورا پیکیج پارلیمینٹ میں پیش کرے، بلکہ سعودی عرب اور چین سے ملنے والے قرضوں یا سرمایہ کاری (جو بھی ہو) کی تفصیلات سے بھی پارلیمینٹ کو آگاہ کیا جائے تاکہ ہر چیز نہ صرف ریکارڈ پر آ جائے،بلکہ حکومت اور اپوزیشن اِس ضمن میں یکساں ذمے داری محسوس کریں۔ اپوزیشن پہلے ہی اِس معاملے پر پارلیمینٹ میں بحث کا مطالبہ کر چکی ہے۔
ارکانِ پارلیمینٹ قوتِ برداشت کا مظاہرہ کریں

مزید :

رائے -اداریہ -