مذہبی اقلیتی آبادی سے ایک گزارش
توہینِ رسالت، ختمِ نبوت، توہینِ مذہب اور اس سے ملتے جلتے موضوعات پر پاکستان کی تمام آبادی آج بُری طرح تقسیم ہو چکی ہے۔ اب اس کی بخیہ گری کسی معجزے ہی کے توسط سے ممکن ہے۔ آج کی اس نشست میں میری کوشش ہو گی کہ وطنِ عزیز کی مذہبی اقلیتوں کی توجہ ایک ایسے زاویہ کی طرف دلاؤں جسے بالعموم نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ نظرانداز کرنے کا عمل اگر رواروی میں اور ان افراد کی طرف سے ہو جنہیں طبقاتی اعتبار سے کم فہم افراد کے زمرے میں ڈالا جاتا ہے تو اس نکتے کو بھی نظرانداز کیا جا سکتا ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اقلیتی آبادی کے ذہن میں اب یہ بات ڈال دی گئی ہے یا یوں کہہ لیں کہ اقلیتوں نے اس بات پر اب ایمان رکھنا شروع کر دیا ہے کہ وہ اس ملک میں غیرمحفوظ ہیں۔
عدم تحفظ کے اس احساس کے پس پشت ایک اور احساس کام کر رہا ہے کہ اس کا سبب مسلمانوں کی اس ملک میں اکثریت ہے۔
ملک کی تمام آبادی سیاسی اعتبار سے متعدد سیاسی و مذہبی جماعتوں میں منقسم ہے، لیکن درجنوں سیاسی جماعتوں کے باوجود ملک کی تمام اہم جماعتیں نصف درجن سے زائد نہیں ہیں۔ تمام ملکی آبادی کی غالب اکثریت انہی چھ بڑی جماعتوں سے منسلک ہے۔ گویا ووٹ بینک کے اعتبار سے مسلم لیگ (نواز)، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ،جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی وہ بڑی جماعتیں ہیں جو کم و بیش تمام ملکی آبادی کا احاطہ کرتی ہیں۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جن کی تنظیمی ساخت کے اندر تمام اقلیتوں کو سمونے اور انہیں سینے سے لگانے کا خوب اچھی طرح انتظام موجود ہے۔ ان تمام جماعتوں کے اندر اقلیتی وِنگ موجود ہیں۔
یہ وِنگ اور ان کی ترتیب و تنظیم خود اقلیتوں ہی نے سنبھال رکھی ہے۔ مسلمانوں کی طرح اقلیتیں بھی آزاد شہری کی طرح ملکی سیاست میں فعال ہیں۔ مذکورہ بالا سات سیاسی جماعتوں اور بقیہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں پھیلی ہوئی اقلیتیں ملکی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات سے قبل نگران حکومت کی سربراہی کے لئے ایک نام رانا بھگوان داس صاحب کا بھی آیا تھا جس کی تائید جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد نے بھی کی تھی، تاہم آئینی اعتبار سے یہ تجویز قابل عمل نہ تھی اس لئے اس پر عمل ممکن نہ ہو سکا۔
پڑھنے والے ذرا یاد کر کے رائے قائم کریں کہ کیا کسی سیاسی جماعت نے کبھی کسی اقلیتی آبادی کو ہدف ملامت بنایا ہو، انہیں دھتکارا ہو، انہیں نظرانداز کیا ہو، میرا خیال ہے ایسا نہیں ہے۔ اگر انفرادی طور پر کسی شخص یا ہجوم نے کسی اقلیتی شخص کے ساتھ بدسلوکی کی ہو تو اس کے ذمہ دارنہ تو مسلمان ہیں اور نہ اس کا سبب سیاسی جماعتوں میں کوئی ہے۔اس کے بعد تو ہینِ رسالت، توہینِ مذہب اور ختمِ نبوت کی طرف آئیں تو ان متعلقات کی ذمہ داری بعض مذہبی تنظیموں نے اٹھا رکھی ہے۔ جیسے ختمِ نبوت کے معاملے پر ملک کی پوری آبادی یک زبان ہو جاتی ہے، بلکہ اس کے لئے مسلمانوں نے ایک نہایت موثر ادارے کی داغ بیل بھی ڈال رکھی ہے جسے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کہتے ہیں، یہ تمام جماعتیں اور ادارے بحیثیت ادارہ یا بحیثیت تنظیم یا جماعت نہایت ذمہ دار اور کام سے کام رکھنے والے ہیں۔ ایک دفعہ پھر یاد کریں کیا کسی مذہبی جماعت یا کسی مذہبی تنظیم نے کسی مذہبی اقلیت کے بارے میں کبھی ناروازبان یا لب و لہجہ استعمال کیا ہو، ہرگز نہیں۔
گھر سے نکل کر کسی اورشہرجاناپڑے تو دن بھر میں میرے آپ جیسے عام شخص کے پانچ سو ، ہزار روپے لگ جاتے ہیں۔ذرا غور کریں اب حالیہ دنوں میں ایک نووارد گروہ نے دیکھتے ہی دیکھتے سڑکیں،گزر گاہیں، گلیاں اور موٹرویز بند کر کے رکھ دیں، لیکن کیا کسی نیک سیرت درد مند فرد نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ اس ساری مشق کا حساب لگایا جائے تو جواب اربوں روپے میں آتا ہے۔ یہ اربوں روپے کہاں سے آئے اور کیوں آئے؟ ان لوگوں نے ادارہ جاتی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش تک کی، لیکن مجال کہ ان کے خلاف کوئی ہلکی سی کارروائی بھی ہوئی ہو۔ کیوں؟ 2017ء میں اس تنظیم نے کوئی مہینہ بھر وفاقی اور صوبائی حکومت کو مفلوج کیے رکھا اور مجال کہ یہ دونوں حکومتیں ان کے دو ہزار افراد کے خلاف کچھ کرنے کی جرأت کر سکتی ہوں۔
آگے چلئے ! آسیہ مسیح کا مقدمہ اپنی فطری ترتیب سے چل رہا تھا۔ مقدمے کا تعلق کھینچ تان کر زیادہ سے زیادہ مجلس تحفظ ختم نبوت سے بنتا ہے۔ جس کی سوچ ایک ڈھب پر چل چکی ہے،لیکن اس کے باوجود ان لوگوں میں تشدد، گالم گلوچ، بدزبانی اور لاقانونیت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ یہ افراد نہ تو راستے بند کرتے ہیں اور نہ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ دوسری طرف یہ نووارد گروہ نہ صرف درجنوں افراد کی موت کا ذمہ دار ہے، بلکہ اس نے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔
حدود قوانین ابھی تک کتاب قانون کا جزولاینفک ہیں جس بُرے طریقے سے اس گروہ نے لاقانونیت کا مظاہرہ کیا ہے کم سے کم الفاظ میں یہ لوگ ’’حرابہ‘‘ کی زد میں آتے ہیں جس کی سزا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کاٹنا ہے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ان لوگوں نے ناموسِ رسالت کے نام پرملک کو جس بُرے طریقے سے بیرون ملک بدنام کیا اس کی کوئی ہلکی سی مثال بھی میری نظر میں نہیں ہے۔
اقلیتی آبادی کو خاطر جمع رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی عام آبادی میں سے ایک ہزار تو کیا، ایک فی لاکھ فرد بھی آپ سے کوئی کد نہیں رکھتا۔ تمام سیاسی جماعتیں اور تمام مذہبی اقلیتیں ایک دوسرے میں رچ بس چکے ہیں۔ پاکستان کے عام شہری ایک دوسرے میں اسی طرح دخیل ہیں جیسے کسی اور ملک کے شہری ہوا کرتے ہیں۔ یہ جو آئے دن کسی معمولی سے مقامی مسئلے کو اٹھا کر اسے توہینِ رسالت یا توہینِ مذہب کا عالمگیر مسئلہ بنا دیا جاتا ہے یقین کیجئے، اس کے پیچھے نہ تو کوئی مقامی سیاسی جماعت ہوتی ہے اور نہ مذہبی تنظیم۔
اقلیتی آبادی کے تمام افراد کے بارے میں میں معمولی سا گمان بھی نہیں کر سکتا کہ ان میں سے کوئی ملک دشمن یا مذہب دشمن ہو سکتا ہے۔ اقلیتوں کے عام افراد میری اس گزارش کی روشنی میں یہ جائزہ لیں کہ ان کے اڑوس پڑوس ، محلے، آبادی، بستی اور قرب و جوار میں کتنے مسلمان ان کی جان کے دشمن ہیں۔ یقیناًانہیں اس کا جواب صفر میں ہی ملے گا۔ ذاتی طور پر میرے نزدیک ، میرے تمام دوست احباب کے نزدیک اور میرے جیسے ایسے تمام افرادکے نزدیک تمام اقلیتیں، ان کی جان، ان کے مال اور ان کی عزت وآبرو اسی طرح محترم ہیں جیسے مسلمانوں کی جان و مال، عزت وآبرو محترم ہیں۔
فساد فی الارض کے مرتکب چاہے مسلمان ہوں ، چاہے غیرمسلم وہی طاغوت کہلانے کے لائق ہیں۔ اللہ کی تمام مخلوق اللہ کو نہایت پیاری ہے لہٰذا یہ عام مخلوق مسلمانوں میں سے ہو یا یہ ہندو،مسلم، سکھ، مسیحی ،بدھ وغیرہ ہوں ،اسلام ان سب کا محافظ اور متولی ہے۔ فساد فی الارض کے مرتکب افراد مسلمانوں میں سے ہوںیا غیر مسلموں سے، دونوں صورتوں میںیہ ریاست کے دشمن ہیں۔ اقلیتی آبادی کے عام افراد کو یہ یقین دہانی کرانا بے محل نہ ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ دو عام انتخابات تک صبر سے کام لیں اورذرا پارلیمنٹ کو مضبوط ہونے دیں، ہم ہوئے یا نہ ہوئے ہماری نسلیں اِن شا اللہ چین کی نیند سویا کریں گی، لیکن فی الحال تو ایوب خان اور جسٹس منیر کی بدروح کا آسیب ہر ادارے پر مسلط ہے۔