یو ٹرن: ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان
وزیراعظم عمران خان کے نظریۂ یو ٹرن کی آمد کے بعد یہ بحث چل نکلی ہے کہ یو ٹرن آخر ہوتا کیا ہے؟کیا اپنے موقف کو تبدیل کرنا یو ٹرن کہا جا سکتا ہے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ وعدے کر کے مُکر جانے کو یو ٹرن کہتے ہیں۔امجد سلیمی ایک ریٹائرڈ سول سرونٹ ہیں۔صاحبِ مطالعہ ہیں اور حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں،انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے اوریانا فلیسی کو دیئے گئے انٹرویو کا ایک اقتباس شیئر کیا ہے۔ یہ انٹرویو اس مشہور خاتون صحافی نے اندرا گاندھی سے انٹرویو لینے کے بعد کیا تھا۔ اوریانا فلیسی ذوالفقار علی بھٹو سے سوال پوچھتی ہیں کہ اندرا گاندھی نے مجھے کہا ہے کہ بھٹو ایک غیر متوازن آدمی ہے۔آج کچھ کہتے ہیں کل کچھ اور، کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ اُن کے دماغ میں کیا ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
’’ہاں اُن کا کہنا درست ہے،لیکن مَیں اس کا فوری دو ٹوک جواب نہیں دے سکتا۔مَیں مشہور فلسفی جان لاک کے اِس بیان کو قبول کر سکتا ہوں، ’’ ایک ہی بات پر اڑے رہنا چھوٹے ذہن کے لوگوں کی خاصیت ہوتی ہے‘‘۔
مَیں سمجھتا ہوں انسان کو اپنے بنیادی نظریے پر سختی سے قائم رہنا چاہئے، تاہم اُس مرکزی نظریے کے دائرے میں رہ کر اِدھر اُدھر ہونا ضروری ہے، کبھی ایک جگہ تو کبھی دوسری جگہ۔ ایک ذہین آدمی کو کبھی ایک ہی جگہ منجمد نہیں رہنا چاہئے، اُس میں لچک ہونی چاہئے۔ ذہین آدمی تصورات و نظریات میں تیرتا رہتا ہے، ایک جگہ جم نہیں جاتا، سیاست تو ہے ہی تحرک کا نام، اِس لئے سیاست دان کو بھی متحرک ہونا چاہئے،اُسے کبھی بائیں اور کبھی دائیں حرکت کرتے رہنا چاہئے،اُس کے اندر تضادات اور شکوک و شبہات رہنے چاہئیں، اس کی کامیابی یہی ہے کہ خود کو مسلسل تبدیل کرتا رہے، چیزوں کو بغور جانچے، مخالفوں پر ہر طرف سے حملہ آور ہو، صرف اپنے مخالف کا کمزور پہلو تلاش کر کے اُسے ہدف نہ بنائے۔ یہ اُس کی ناکامی ہے اگر وہ موقف پر اڑا رہتا ہے۔اگر وہ اُن نئے راستوں کو بند کر دیتا ہے،جن کے ذریعے اپنے مخالف کو ناکام بنا سکتا ہے۔غیر مستقل مزاجی در حقیقت ذہین آدمی کی بنیادی خوبی ہوتی ہے اور سیاست دانوں کی تو یہ بنیادی ضرورت ہے۔اگر مسز اندرا گاندھی اِس بات کو نہیں سمجھتیں تو پھر وہ سیاست کی خوبصورتی کو بھی نہیں جان سکتیں، حالانکہ اُن کے والد اسے اچھی طرح سمجھتے تھے‘‘۔
مجھے لگتا ہے وزیراعظم عمران خان یو ٹرن کی تعریف کرتے ہوئے بھٹو جیسی دلیل استعمال نہیں کر سکے۔انہوں نے ایک سخت بات اپنے انداز میں بیان کی۔ مثال کے لئے ہٹلر اور نپولین کے نام استعمال کئے، جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک فلسفی کے قول سے اپنی غیر مستقل مزاجی کا دفاع کیا، جس نے کہا تھا ایک ہی نکتے پر اڑے رہنا چھوٹے ذہن کے لوگوں کی پہچان ہوتی ہے۔بھٹو تو یہاں تک کہہ گئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنا موقف بدلنا سیاست دانوں کی ضرورت ہے،کیونکہ سیاست تو ہے ہی تبدیلی کا نام۔اندازہ کیجئے کہ اندرا گاندھی جیسی بڑی لیڈر کے اعتراض کا بھٹو نے کس خوبصورتی سے جواب دیا،اُلٹا انہیں سیاست کی ابجد سے ناواقف قرار دیا۔ بس اندازِ بیان بات بدل دیتا ہے،وگرنہ دُنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں، ذوالفقار علی بھٹو کے پاس ایک شاندار ذہن تھا۔
وہ دلیل سے بات کرتے تھے اور اپنے موقف کا دفاع کرنا جانتے تھے۔عمران خان سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے موقف کی تبدیلی کو یو ٹرن کا نام دیا، یو ٹرن تو ٹریفک کی ایک اصطلاح ہے، اسے میڈیا نے سیاست کے لئے متعارف کرایا۔ وگرنہ یہ سیاسیات کے کسی باب میں استعمال نہیں ہوتی۔وہ اگر بھٹو کی طرح دلیل سے یہ ثابت کرتے کہ تبدیلی اور مؤقف میں نئے امکانات کو شامل کرنا سیاست دان اور سیاست کی ضرورت ہوتی ہے، تو شاید اتنا ہنگامہ کھڑا نہ ہوتا، وہ تو یوٹرن کا دفاع کرتے رہے،جو ایک منفی اصطلاح ایجاد کی گئی ہے۔دیکھا جائے تو ابھی تک وزیراعظم عمران خان نے کون سا ایسا یوٹرن لیا ہے،جو ان کی منفی سوچ کو ظاہر کر رہا ہے، اب یہ جو گورنر، وزرا اور ترجمان عمران خان کے یوٹرن والی تھیوری کا دفاع کرنے نکلے ہوئے ہیں، تو انہیں ذرا بھٹو کے نظریات کا مطالعہ کر لینا چاہئے، مثلاً ابھی تک کسی نے عمران خان کے دفاع میں یہ نہیں کہا کہ اپنے نظریئے کے دائرے میں رہ کر دائیں بائیں حرکت کرتے رہنا انتہائی ضروری ہے۔ بھٹو نے تو بات بڑی دلیل کے ساتھ سمجھا دی تھی۔ منزل کا پتہ ہونا چاہئے راستے تو کئی ہو سکتے ہیں، راستہ بدلنے کو جھوٹ یا فریب قرار نہیں دیا جا سکتا، مگر یہاں تو یہ بات کی ہی نہیں جا رہی۔ عمران خان سمیت کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم اپنے بنیادی نظریئے سے پیچھے نہیں ہٹے، صرف اس نظریئے کے دائرے میں رہ کر اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان سے دوسری بڑی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے یوٹرن کا دفاع کرنے کے لئے منفی مثالیں تلاش کیں۔ ہٹلر کی مثال تو دی ہی نہیں جا سکتی، کیونکہ ہٹلر کوئی مصلح یا مبلغ تو تھا نہیں، جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ وہ اگر یوٹرن لیتا تو ناکام نہ رہتا۔ بھٹو نے کتنی نفاست کے ساتھ اپنے مخالف کو زیر کیا۔ آج پیپلزپارٹی والے بڑے بھونڈے طریقے سے عمران خان پر تنقید کر رہے ہیں،اِس لئے کہ انہوں نے بڑے برے انداز سے اپنا موقف پیش کیا۔ عمران خان اگر بھٹو کی مثال ہی دے دیتے تو شاید خورشید شاہ ہٹلر کے حوالے سے وہ باتیں نہ کرتے جو انہوں نے کیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے اوریانا فلیسی کو جواب دیتے ہوئے جو کچھ کہا اس کا نچوڑ نکالا جائے تو یوٹرن ہی نکلتا ہے، مگر مجال ہے اِس سے منفی تاثر اُبھرتا ہو، ’’سیاست دان کو لچکدار ہونا چاہئے‘‘ کہہ کر بھٹو نے واضح کر دیا کہ وہ دائیں بھی جا سکتا ہے اور بائیں بھی، ایسا وہ جتنی بار مرضی چاہے کر سکتا ہے، اس پر کوئی روک ٹوک نہیں، لیکن عمران خان نے جس انداز میں بات کی اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ سیاست دان اپنے جھوٹ کا بھی دفاع کر سکتا ہے۔ جھوٹ بول کر مُکر بھی سکتا ہے، وعدہ کر کے مُکرا بھی جا سکتا ہے اور وعدے سے پھرا بھی جا سکتا ہے،
حالانکہ عمران خان کا مقصد اور مطلب ہرگز یہ نہیں ہو گا۔ کہنا وہ بھی یہی چاہتے تھے جو بھٹو نے کہا کہ اپنے نظریئے کے دائرے میں رہ کر مؤقف کو تبدیل کرنا سیاست دان کے لئے ضروری ہے، تاکہ اپنے مخالفین کو شکست دے سکے۔ مثلاً اگر اسے عملی انداز میں دیکھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان اپنے ایک کروڑ نوکریوں اور 50لاکھ گھروں کے وعدے کو آگے پیچھے کر سکتے ہیں، پہلے گھروں کی تعمیر کا آغاز کریں، پھر نوکریوں کے وعدے پر توجہ دیں۔ ان کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ پاکستان کو کرپشن فری بنائیں گے، یہ ان کا بنیادی فریم ورک ہے، اب اس کے اندر رہ کر وہ کیا عمل کرتے ہیں، کیسے کرتے ہیں، یہ ان کی صوابدید ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے اپنے وعدوں پر الف بے قاعدے کی طرح عمل کیوں نہیں کیا۔
عمران خان اس پر بھی کبھی یوٹرن نہیں لیں گے کہ مُلک میں اقربا پروری ہو، میرٹ کا جنازہ نکلے، اگر اس کے لئے انہیں کچھ انتظار کرنا پڑتا ہے، تو اسے حکمتِ عملی قرار دیا جائے گا۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ اپنے وعدے سے مُکر گئے ہیں۔عمران خان کو دباؤ شاید اِس لئے محسوس ہو رہا ہے کہ انہوں نے تبدیلی کو ’’چٹ منگنی پٹ بیاہ‘‘ والا معاملہ سمجھ لیا تھا۔وہ پانچ برسوں کے لئے منتخب ہوئے ہیں اور وعدوں کی تکمیل بھی پانچ برسوں میں ہونی چاہئے۔ بھٹو نے جب زرعی اصلاحات اور روٹی کپڑے مکان کا وعدہ کیا تھا تو اُس کے لئے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا تھا۔یہ سو دن کا ایجنڈا کیا چیز ہوتی ہے، کیا اسے ناتجربہ کاری کہا جائے یا پھر جوشِ جذبات؟ سو دن کا یہ بھوت سوار نہ ہوتا تو شاید حکومت پر دباؤ بھی نہ ہوتا اور تنقید بھی نہ کی جاتی۔حکمتِ عملی میں تبدیلی کو یو ٹرن کیسے کہا جا سکتا ہے،مگر جب آپ خود یو ٹرن کا نام لے کر اُس کا دفاع کریں گے تو اُسے یو ٹرن ہی سمجھا جائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تو یو ٹرن کو ایک خوبی بنا کر پیش کیا تھا، عمران خان اور اُن کی ٹیم اُسے دفاعی پوزیشن اختیار کر کے درست ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ سو فیصد وعدے تو کوئی بھی حکمران پورے نہیں کر سکتا، ہاں اُن کی طرف قدم بڑھانے کو کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اپوزیشن سے زیادہ خود حکومت اپنی ناکامی ماننے پر تلی ہوئی ہے،حالانکہ وہ نہ تو ناکام ہوئی ہے اور نہ ناکامی کے کوئی خدوخال نظر آ رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک کامیاب سیاست دان کا جو فارمولا بیان کیا ہے،عمران خان اس پر پورا اُترتے ہیں۔مثلاً وہ پینترے بدل بدل کر اپنے مخالفوں کو زیر کر رہے ہیں،ایک جگہ نہیں ٹھہرے ہوئے،تبدیلی کی حکمتِ عملی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ البتہ وہ بھٹو کی طرح اپنا دفاع نہیں کر پا رہے۔ وہ اپنی طرف سے حملہ کرتے ہیں،لیکن وہ حملہ خود اُن کے لئے مشکلات پیدا کر دیتا ہے،کیا اُن کی ٹیم میں کوئی ایسا نہیں،جو اس پہلو پر اُن کی توجہ مرکوز کرا سکے،کیا وہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینک کر اسی طرح چھینٹوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں گے؟