انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 21

انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 21
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 21

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یونان میں داخلے کے بعد ایجنٹس عموماً سمندری راستوں سے تارکین وطن افراد کو ان کی منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں تاہم اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ افراد اپنی منزل پر پہنچ کر بھی آزاد نہیں ہوتے بلکہ انہیں جبری مشقت کی خاطر بیچ دیا جاتا ہے۔ یوں یہ غیر قانونی ایجنٹس سرحدیں پارکرانے کے نام پر بھی بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں اور پھر ان انسانوں کی غلاموں کی طرح فروخت کے ذریعے دوہرا منافع کماتے ہیں۔ ایسا عموماً ان کیسز میں ہوتا ہے جن میں ایجنٹس منزل پر پہنچ کر رقم وصول کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور مفت میں سفر کرواتے ہیں تاہم بسا اوقات جعل ساز گروہ بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھی ایسے افراد کو بیچ دیتے ہیں جن سے وہ سرحدیں پارکرانے کا معاوضہ پہلے ہی وصول کرچکے ہوتے ہیں۔ ان میں بہت سے ایجنٹ ایسے بھی ہوتے ہیں جو یونان میں ہی ان تارکین وطن افراد کا سودا کردیتے ہیں۔

انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 20 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان غیر قانونی تارکین وطن افراد کے خریداروں میں عموماً وہ افراد شامل ہوتے ہیں جو آیا
غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہوں یا پھر وہ حکومتی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں۔ یہ مالکان ان خریداروں کو منہ مانگے داموں پر خرید لیتے ہیں کیونکہ یہ بدقسمت مسافر، جعلی کاغذات اور اپنی غیر قانونی موجودگی کے سبب کسی بھی ادارے سے مدد لینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے اور ایسے میں یہ مالکان ان مسافروں سے بے دام غلام کی مانند سخت مشقت لے کر اپنے پیسے پورے کر لیتے ہیں۔ ان مسافروں کو نہ توعلاج معالجے کے حوالے سے کوئی سہولیات میئسر ہوتی ہیں اور نہ ہی یہ دوران مزدوری کسی قسم کے حادثے یا معذوری کی صورت میں کسی ادارے سے انصاف طلب کر پاتے ہیں۔ ایسے مزدوروں کو یا تو معاوضہ سرے سے ہی نہیں دیا جاتا یا پھر اس ضمن میں دی جانی والی رقم اتنی معمولی ہوتی ہے کہ اس سے جسم و جان کا رشتہ بھی بمشکل قائم رکھا جاسکتا ہے۔ خاتون ہونے کی صورت میں ان کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ جنسی تجارت کے اس کاروبار میں اب کم سن تارکین وطن لڑکوں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
وہ خوش قسمت مسافر جو ایجنٹس کے حبس بیجا میں جانے سے بچ رہتے ہیں۔ عموماً بسوں کے ذریعے اٹلی کا رخ کرتے ہیں۔ ماضی میں یونان سے نکلنے کا صرف یہی راستہ مقبول تھا تاہم یہ انتہائی خطرناک سفر ہوتا تھا کیونکہ اس میں یہ مسافر بسوں کے نچلے حصے میں چھپ کر سفر کرتے تھے ۔ اب اٹلی کے راستوں پر سخت چیکنگ کے سبب یہ یونان کے شمال میں براستہ مقدونیہ یا سربیا ہنگری کی جانب چلے جاتے ہیں اور یہاں سیاسی پناہ کی درخواست کے ذریعے نئی زندگی کی شروعات کیلئے بنیاد رکھتے ہیں۔ 
وہ افراد جو ایران کے راستے خلیجی ممالک کا رخ کرتے ہیں ان کیلئے بھی حالات کم وبیش ویسے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ یورپ میں زندگی گزارنے کا خواب دیکھنے والوں کے، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہاں ان کا استحصال کرنے والوں میں اکثریت غیر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی ہوتی ہے جبکہ خلیجی ممالک میں یہ استحصال کرنے والوں میں اکثریت کلمہ گو مسلمانوں کی ہوتی ہے۔ ان ممالک میں ایسے غیر قانونی تارکین وطن افراد کے لئے بھی مزدوری کا حصو ل سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
اکثریت کو وزارت برائے مزدور و مزدوری سے رجوع کرنے کی صورت میں اس کی محنت کا معاوضہ مل جاتا ہے تاہم ان کوششوں میں اکثر کو وطن واپسی کیلئے جہاز پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات زبان سے ناواقفیت کی بنا پر یہ افراد لاعلمی میں ممنوعہ اشیاء مثلاً منشیات یا اسلحے کی سمگلنگ میں ملوث گروہوں کے ہتھے بھی چڑھ جاتے ہیں۔ ایسے بدقسمت افراد کیلئے اپنی آزادانہ زندگی کا نئے سرے سے آغاز کا خواب، لاحاصل کی تمنا بن کر رہ جاتا ہے کیونکہ خلیجی ممالک میں ممنوعہ اشیا کے کاروبار میں ملوث افراد کے لئے کڑی سزائیں مقرر ہیں۔
انسدادانسانی سمگلنگ کے اداروں کی صورتحال نیز حکومتی کوششیں 
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال کم از کم دس سے پندرہ ہزارافراد بلوچستان کے راستے سے غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں اکثریت پاکستانیوں کی ہوتی ہے جبکہ دیگر میں افغانیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ اس کوشش میں کامیابی کا تناسب اگرچہ پچاس فیصد سے بھی کم ہوتا ہے تاہم گرفتار ہونے والوں کی اکثریت کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ انہیں سفر کے آغاز سے قبل اس سفر کی قانونی حیثیت کے بارے میں اندازہ نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں تعلیم اورشعور کی کمی کی وجہ سے اکثریت ان ایجنٹس کی قانونی حیثیت سے واقف ہی نہیں ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ ایجنٹس ہی بیرون ملک سفر کا ذریعہ ہوتے ہیں اور وہ ان کے ذریعے بیرون ملک جانے کا خواب بننے لگتے ہیں۔ پاکستان میں انسانی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے سرکاری سطح پر کام کرنے والا ادارہ یعنی کہ ایف آئی اے اب اس ضمن میں بھی متحرک ہوچکا ہے اور مختلف میڈیا ذرائع مثلاً اخبارات ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے سے غیر قانونی ایجنٹس کی نشاندہی اور بیرون ملک غیر قانونی سفر کی حیثیت کے بارے میں عوام میں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن یہ کوششیں ابھی آغازِ سفر کی مانند ہیں کیونکہ صورتحال یہ ہے کہ پچھلے تین برسوں میں کڑے پہروں اور سخت کوششوں کے باوجود بیس ہزار سے زائد افراد کو غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ وہ افراد تھے جو پاکستانی سرحد کو پار کرنے کی کوشش میں تھے۔ اس کے علاوہ اسی عرصے کے دوران پچاس سے زائد انتہائی مطلوب انسانی سمگلرز کو بھی گرفتار کیاگیا ہے جن کے بارے میں اندازہ ہے کہ یہ اربوں روپوں کے عوض لاکھوں افراد کوغیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھیج چکے ہیں۔
پاکستان میں انسانی سمگلنگ کی اس قدر خوفناک شرح کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ اس ضمن میں قانون سازی پر توجہ نہیں دی گئی۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس حوالے سے متعدد قوانین موجود ہیں۔پاکستان پینل کوڈ کے تحت ہیومن ٹریفکنگ کی مختلف اشکال جن میں حبس بیجا میں رکھ کر بیگار لینا، جنسی مقاصد کیلئے بچوں کی تجارت، آزاد شہری کو غلام بنانے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے اور اس کے مرتکب افراد کیلئے جرمانے سے لے کر عمر قید تک سزائیں موجود ہیں۔ اس ضمن میں دیگر تشکیل دیئے جانے والے قوانین میں بونڈڈ لیبر سسٹم ابولیشن ایکٹ بی ایل ایس اے(Bonded Labor System abolition Act) اور پریوینشن اینڈ کنٹرول آف ہیومن ٹریفکنگ آرڈیننس پچتو(Prevention and Control of Human Trafficking Ordinance) شامل ہیں۔ تاہم ہیومن ٹریفکنگ اور انسانی سمگلنگ پر قابو پانے میں ناکامی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان قوانین اور پاکستان پینل کوڈ کے مطابق ترتیب دیئے گئے قوانین میں تصادم ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر پچتو کے تحت گرفتار ہونے والے ملزمان کو کم از کم سات جبکہ زیادہ سے زیادہ چودہ سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔دوسری جانب پاکستان پینل کوڈ کے تحت انہی الزامات سے ملتے جلتے الزامات میں گرفتار ہونے والوں کیلئے معمول سزائیں موجود ہیں جس کی وجہ سے ماتحت عدالتیں اس قسم کے مقدمات میں سزاؤں کے تعین کے حوالے سے الجھاؤ کا شکار ہوتی ہیں۔ مزید براں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ تاحال بی ایل ایس اے کے تحت ایک بھی مجرم کو سزا نہیں سنائی گئی۔ اسکی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جبری مشقت لینے والوں میں اکثریت بااثر گھرانوں کی ہوتی ہے، ایسے میں اول تو عدالتوں تک ایسے کیسز پہنچ ہی نہیں پاتے ہیں اور اگر سوئے اتفاق پہنچ ہی جائیں تو بھی ’’ اوپر ‘‘ سے آنے والے دباؤ کے سبب ایسے کیسز اپنے انجام کو نہیں پہنچ پاتے۔ یوں قانون ہونے کے باوجود بھی مظلوموں کی داد رسائی نہ ہونے کے برابر ہے ۔
اس ضمن میں ایف آئی اے کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندرون ملک اور بیرون ملک انسانی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے نمایاں کوششوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ سال 2010-11 میں ادارے کی جانب سے سینکٹروں افسروں کو ایف آئی اے اکیڈمی میں ٹریننگ دی گئی جس کامقصد اندرون انسانی سمگلنگ پر قابو پانا تھا۔ ایف آئی اے کی جانب سے انسانی سمگلنگ کا نشانہ بننے والے افراد کو دارالامان اور دیگر محفوظ مقامات تک پہنچانے کے لئے کی جانے والی کوششیں بھی قابل تحسین ہیں تاہم ادارے کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ ایسے افراد کی شناخت ہے۔ اندرون ملک سمگلنگ کی صورت میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے، کھیتی باڑی کرنے والے کسانوں اور قحبہ خانوں سے منسلک خواتین کی شناخت کیلئے ادارے کے پاس مناسب سہولیات اور انتظامات نہ ہونے کے سبب ادارے کی کارکردگی خاصی مایوس کن دکھائی دیتی ہے۔ بیرون ملک سمگل کئے جانے والے افراد کی بحالی کیلئے حکومتی سطح پر دارالامان اور دیگر ادارے قائم کئے گئے ہیں تاہم حکومتی سطح پر بدانتظامی کے سبب یہ ادارے بھی ایسی خواتین کی بحالی میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ ایف آئی اے نے دو برس قبل ایک بین الاقوامی این جی او کے ساتھ مل کے ایسے غیر قانونی تارکین وطن افراد کے سفر، عارضی رہائش اور قانونی مدد کیلئے کوششیں شروع کی ہیں جو کہ قابل تحسین اقدام ہے۔ اس کے علاوہ ادارے نے سولہ خصوصی سیلز بھی قائم کئے ہیں جو خاص کر انسانی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے بنائے گئے ہیں۔ان تمام اقدامات کے باوجود بھی پاکستان میں انسانی سمگلنگ کا کاروبار جاری ہے جس کی ایک وجہ کرپشن بھی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں نادرا کے ایسے پانچ دفاتر کام کر رہے ہیں جہاں آسانی کے ساتھ جعلی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ان جعلی دستاویزات کے لئے کوشش کرنے والوں میں اکثریت بنگالیوں کی ہوتی ہے جو پاکستان ایک ماہ کے وزٹ ویزہ پر آنے کے بعد واپس نہیں جاتے اور پھر ان جعلی دستاویزات کے ذریعے سے یورپی یا خلیجی ممالک میں سفر کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں گرفتاری کی صورت میں یہ پاکستان کا نام بدنام کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔مزید براں اس وقت ملک میں ایسے ہزاروں افغان مہاجرین موجودہیں جو افغان سرزمین پر بدامنی کے سبب پاکستان میں مہاجر کی حیثیت سے آئے اور پھرجعلی دستاویزات کی بنا پر خود کو پاکستانی شہری کے طور پر رجسٹر کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایف آئی اے کے ادارے کو مزید فعال بنانے کے ساتھ ساتھ وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرنے والے دیگر اداروں کو بھی فعال کرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن پر بھی قابو پایا جائے تاکہ مستقبل میں پاکستان کو انسانی سمگلنگ کے لئے بطور راہداری یا بطور منزل کم سے کم استعمال کیا جاسکے۔(جاری ہے )

انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 22 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں