ہم کہ ٹھہرے کالم نگار!

ہم کہ ٹھہرے کالم نگار!
ہم کہ ٹھہرے کالم نگار!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کالم نگاری کے بہت سے مقاصد بیان کئے جاتے ہیں۔ کئی دوستوں کے لئے یہ سرگرمی کسبِ روزگار ہے،کئی احباب اسے ویسا ہی شغل تصور کرتے ہیں جیسا کہ غالب نے کہا تھا کہ: ’بیکاری ء جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل‘…… لیکن ساتھ ہی مرزا صاحب نے یہ مجبوری بھی ظاہر کر دی تھی کہ: ’جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی‘…… بعض کالم نگار حضرات کے ہاتھ تو نہیں ٹوٹتے لیکن ہاتھوں کو خارش ضرور ہوتی ہے۔ علی الصبح جب اخباروں کا ’تھبّا‘ سامنے آتا ہے تو پہلے موٹی موٹی شہ سرخیاں وغیرہ پڑھ کر گزشتہ شب کے الیکٹرانک میڈیا کی تکرار دیکھنے کو ملتی ہے اور پھر دماغ کو کھجلی آن ستاتی ہے کہ آج ٹوٹے ہوئے ہاتھوں سے کس موضوع پر قلم فرسائی کی جائے۔ اس قبیل کی قلم فرسائی ایک تیسرا مقصد ہوتا ہے…… لیکن میرے لئے کالم نویسی ایک عبادت ہے۔ جب آدھا پاکستان ایک طرف جا رہا ہو اور آدھا دوسری طرف تو آپ کا ضمیر کسی ایک طرف تو گامزن ہوگا ناں …… مییں اسی آدھی راہ پر چلنے کو عبادت سمجھتا ہوں اور میرا مقصد بھی یہی ہے جو مقصد کی چوتھی قسم ہے۔ مجھے شمشیروسناں پر قلم گھسیٹتے ہوئے ربع صدی گزر گئی۔ میں نے دیکھا اور پڑھا ہے کہ بین الاقوامی پریکٹس یہی ہے کہ دفاع اور سیاست ایک صفحے پر ہوتے ہیں۔ کسی کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ فوج اور حکومت ایک page پر ہیں کہ ان کے صفحات اگر الگ ہو جائیں تو ملک ’الگ‘ ہوجاتا ہے۔ یہ ’تماشا‘ ہم 1971ء میں دیکھ چکے ہیں۔ اب اس بچے کھچے پاکستان میں ہم یہ افورڈ نہیں کر سکتے کہ اس تماشے کو بارِ دگر دہرایا جائے۔ لیکن آدھا پاکستان ہے کہ ایسا کرنے پر مصر ہے!


حکومت خدا رسول کے واسطے دے رہی ہے کہ کورونا کی دوسری لہر زور پکڑ رہی ہے اس لئے جلسے جلوسوں سے پرہیز کیا جائے۔ جلسے اور سماجی فاصلے کی آپس میں جنیرک دشمنی ہے۔ یہ دونوں ایک ’صفحے‘ پر نہیں ہو سکتے۔ کورونا کا اصرار ہے کہ ایک حد تک یہ فاصلہ ضرور رکھا جائے، وگرنہ قبرستان جانے کی تیاری کی جائے۔ آدھا پاکستان بضد ہے کہ یہ جلسے ہو کے رہیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ موت کا تو ایک دن معین ہے، وہ ٹل نہیں سکتا۔اگر وہ دن جلسے کی حاضری سے پیوست ہے تو بسم اللہ۔ لیکن جلسے وقتِ مقررہ اور تاریخِ معینہ پر ہی ہوں گے۔ یہ حکومت تو کورونا کا خوف دلا کر عوام کو گمراہ کر رہی ہے…… دوسرا آدھا پاکستان بِٹ بِٹ تک رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے ہاں موت و حیات کا یہ کیسا تصور ہے۔ لیکن آدھا پاکستان مولانا کا پیروکار نظر آتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے یہ آدھا پاکستان اسی مخمصے میں گرفتار ہے۔


تحریکِ لبیک کا احوال تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے۔ کون کافر ہے جو حرمتِ رسولﷺ کا والہ و شیدا نہیں؟ لیکن پورے اسلام آباد کو ایک ہفتے تک بند کر دینا اور درجنوں بیماروں کو خوفِ مرگ میں مبتلا کر دینا کون سی سنتِ رسولؐ ہے؟ یہ موضوع بھی ایک بہت حساس موضوع ہے۔ اس پر لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ میں کسی کو کیا بتاؤں کہ حضورؐ کا نام آتا ہے تو آنکھیں چھلک چھلک جاتی ہیں۔1969ء میں ایک ایرانی آفیسر نے یہ سوال کیا تھا: ’جیلانی صاحب! آپ اقبال کے اشعار کوٹ کرتے رہتے ہیں لیکن اقبال جس درجے کا عاشقِ رسولؐ تھا، اس کا اندازہ بھی کچھ ہے آپ کو؟“…… وہ ایرانی آفیسر پوری پاکستان آرمی سے منتخب کردہ افسروں کی ایک کلاس کو درس دے رہے تھے۔ میں کلاس کا جونیئر موسٹ سٹوڈنٹ تھا اور واحد سیکنڈ لیفٹیننٹ تھا، شائد انہوں نے اسی لئے مجھ سے یہ سوال پوچھا تھا۔ کلاس میں سوائے فارسی زبان کے کسی دوسری زبان کا کوئی لفظ بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ میں نے ان کو کہا: ”خواہش می کنم، اجازہ بدہید، روئے تختہء سیاہ می آئیم کہ یارائے سخن ندارم“
انہوں نے اجازت دی تو میں نے نمناک آنکھوں سے بلیک بورڈ پر چاک سے یہ شعر لکھا جو  شاید عشقی فروغی کا تھا:


من عاشقم، گواہِ من این قلبِ چاک چاک
در دستِ من جُز این سندِ پارہ پارہ نیست


(میں عاشقِ رسولﷺ ہوں اور میرا گواہ میرا یہ دلِ صد چاک ہے۔یہ گواہی (سرٹیفکیٹ) اگرچہ پارہ پارہ ہے لیکن میرے پاس اس پھٹی پرانی سند کے سوا کوئی دوسرا ثبوت نہیں)
25آرمی آفیسرز پر مشتمل اس کلاس میں شیعہ بھی تھے، سّنی بھی، وہابی بھی، دیو بندی بھی اور بریلوی بھی۔ لیکن قارئین کرام میں حلفاً بیان کرتا ہوں کہ سب کی آنکھیں یہ شعر پڑھ کر نم ہو گئی تھیں۔ خود استادِ محترم سرگرد پرتوی (میجر پرتوی) بار بار اس شعر کو پڑھتے رہے اور کلاس پر ایک سحر طاری ہو گیا!…… یہ 50سال پہلے کا واقعہ ہے۔ میں خود ستائی سے کوسوں دور بھاگتا ہوں۔ لیکن اگر اس وقت میرے یقین و ایمان اور  عقیدے کا یہ عالم تھا تو آج تو یہ حال ہے کہ آنحضورؐ کا نام بعد میں زبان پر آتا ہے انؐ کا خیال پہلے جب لوحِ دل پر ابھرنے لگتا ہے تو آنکھیں اگر خشک بھی ہوں تو دل کی طغیانی سنبھالی نہیں جاتی! میں کتنا گنہ گار ہوں، آپ کو نہیں بتا سکتا۔ لیکن یہ حقیقت وجہِ سکون ہے کہ غلامِ غلامانِ محمدﷺ ہوں۔ کئی برس پہلے ایک دوست نے پوچھا تھا: ”آپ کا نام غلام جیلانی ہے، غلام محمد کیوں نہیں؟“…… میرا جواب تھا: ”نام تو والدین رکھتے ہیں۔ لیکن میرا ایمان ہے کہ حضرت غوث الاعظم عبدالقادر جیلانیؒ، غلامِ محمدؐ تھے اور اس حوالے سے میں ”غلامِ غلامِ محمدؐ“ ہوں!…… تحریکِ لبیک کے کرتا دھرتاؤں سے میری گزارش ہے کہ وہ عشقِ رسولؐ کے تناظر میں اہلِ پاکستان کا زیادہ امتحان نہ لیں۔ پاکستان کا تو مطلب ہی ”لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ“ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔


بات اس آدھے پاکستان کی ہو رہی تھی جو PDM کی قیادت میں کورونا کی ’دوسری لہر‘ کی پروا نہیں کرتا۔ اپوزیشن کا اگر خیال یہ ہے کہ حکومت اس کے جلسوں سے خائف ہے اور اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں تو اس کا ثبوت 15نومبر کو جی بی کے الیکشن میں قوم کے سامنے آ چکا ہے۔ اگر دھاندلی ہوئی ہے تو الیکشن کمیشن کے پاس جائیں۔آنے والے کل میں PTI کی حکومت بن جائے گی اور آنے والے برسوں میں جی بی ایک مکمل صوبہ بھی بن جائے گا۔ یہ حقیقت نوشہ ء دیوار ہے کہ پاکستان ایک نئی ڈگر پر چل نکلا ہے۔ کس کو معلوم تھا کہ ایک کرکٹر، ملک کا وزیراعظم بن جائے گا؟…… ہم نے 30،35برس تک وراثتی خاندانوں کی حکومتیں دیکھی ہیں۔ آج بھی محترمہ مریم صفدر (ر)،محترم بلاول زرداری وراثتی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ اگر آپ نے اتنے طویل عرصے تک شخصی حکومتیں دیکھی ہیں تو ایک آدھ بار غیر شخصی حکومت کا منظر بھی برداشت کر لیں۔ ایک PDMنہیں اگر دس PDMsبھی مل کر تین نہیں، تیس جلسے کر لیں تو پھر بھی اب شخصی حکومت برسرِ اقتدار نہیں آ سکتی…… ہاں اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اپوزیشن ملک میں وہی رول ادا کرے جو مغربی حکومتیں صدہا برس سے کر رہی ہیں۔

PDM کی جگہ ایک Shadow کابینہ بنائی جائے،حکومتی پروگراموں کے علی الرغم ایک متبادل ایجنڈا پبلک کے سامنے رکھا جائے، اس پر بحث و تمحیص کی جائے، گزشتہ حکومتوں کی بہی خواہ (اور پروردہ) بیورو کریسی موجود ہے، اس سے مدد لی جائے، پولیس اور دوسرے اداروں کو سیاست سے الگ کرنے کا ڈول ڈالا جائے۔ اور وہی عمل دہرایا جائے جو دنیا کی جمہوریاؤں میں مروج ہے۔ لیکن مجھے 200% یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوگا، اپوزیشن، اقتدار کے لئے بے قرار ہے۔ ان لوگوں کو سامنے لا رہی ہے جن کو ان کے اپنے حلقہ ہائے نیابت میں ٹھکرایا جا چکا ہے۔ اپوزیشن ایک ٹیکٹیکل حل (Solution) کے پیچھے بھاگ رہی ہے اس لئے سٹرٹیجک حل سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ اس درویشِ بے نوا کی بات کو خندۂ استہزاء سے ٹھکرا دیا جائے گا۔


اپوزیشن کا ایوالانچ پہاڑ کی چوٹی سے سرک کر نیچے کی طرف لڑھک رہا ہے۔ اسے روکنا کسی کے بس کا روگ نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ PDM کے جلسے اسی ایوالانچ کی گراوٹ کے مظہر ہیں۔ اگر آپ نے کبھی ایوالانچ کو دامنِ کوہ کی طرف لڑھکتے دیکھا ہو تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جوں جوں زمین نزدیک آتی ہے، ایوالانچ کا شور خوفناک اور ازحد ڈراؤنا ہوتا جاتا ہے…… یہی خوفناک شور آپ کو  PDM کے آنے والے جلسوں میں بھی ضرور سنائی دے گا۔


پرنٹ میڈیا کے بہت سے کالم نگار جن کا مقصد ’عبادت‘ نہیں، کچھ اور ہے وہ ہر روز کالم لکھ لکھ کر ایوالانچ کے نشیبی لڑھکاؤ (Rolling down)کو تیز تر کر رہے ہیں۔آپ ان کو روک نہیں سکتے۔ کچھ یہی حال الیکٹرونک میڈیا کا بھی ہے۔ اس کے ٹاک شوز وہی ہیں جو گزشتہ حکومتوں کے دورانِ اقتدار میں تھے۔ یہ ”ٹاک شوز باہمی کشیدگی کی شدت پر پلتے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت کے باہمی فاصلے جتنے زیادہ ہوں گے یہ ٹاک شوز اتنے ہی کامیاب ہوں گے۔ ہر شام تین فریق ٹی وی کی سکرینوں پر جلوہ گر ہوتے ہیں اور اپنی اپنی ہانک کر گھر کی راہ لیتے ہیں۔ ان کے اینکرز اپنے آپ کو حکومت یا اپوزیشن کے کسی بھی رہنما سے زیادہ باخبر اور زیادہ چیخ و پکار کرنے والے (Vociferous) سمجھتے ہیں۔ تیز تیز بولنے والے (اور والیاں) ٹی وی چینل کے پروڈیوسر اور مالک کی خواہشات کے اسیر ہیں۔ وہی لوگ اس قبیلے میں سلیکٹ ہوتے ہیں جو مالک (یا مالکان) کے شنیدہ یا ناشنیدہ احکامات کے پیرو کار ہوتے ہیں۔ بہت کم ایسے اینکرز ہیں جو غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان موضوعات پر نقد و نظر کرنے کا ’خطرہ‘ مول لیتے ہیں جن کو ’سیاست زدہ‘ عوام / ناظرین/ سامعین کی ایک قلیل سی تعداد دیکھتی اور سنتی ہے۔


پاکستان کا میڈیا جب تک وابستہ مفادات سے قطع تعلق نہیں کرے گا، نئے پاکستان کا ترجمان یا نقیب نہیں کہلا سکے گا۔ پریس میڈیا کے کالم نگاروں کی اکثریت کو بھی یہی چیلنج درپیش ہے!

مزید :

رائے -کالم -