محنت کریں کامیابی پائیں
کلاس دہم کے طلبا بہت پریشان تھے۔پریشانی کی وجہ سائنس مضامین کے اساتذہ کرام کا رویہ تھا۔یہ نہیں تھا کہ وہ جان بوجھ کر طلباء کو مارتے تھے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ مستقبل کے معمار اپنی پڑھائی کو سنجیدگی سے لیں اور سالانہ امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کریں لیکن طلبا یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہمیں جان بوجھ کر پیٹتے ہیں خاص طور پر سر حفیظ جو میتھ پڑھاتے تھے ان کو اللہ واسطے کا بیر تھا۔
پڑھانے میں نہایت ماہر‘ مزاج میں بہت سنجیدگی مگر کسی بچے کی غلطی کو معاف نہیں کرتے تھے۔پوری کلاس میں انجم ہی واحد لڑکا تھا جوان اساتذہ کرام کی مارپیٹ کے آگے مزاحمت کرنے کی جرأت کرتا اور اسی طرح اس نے اپنے کچھ ہمنوا بھی بنا لئے جو آنے والے ہر اساتذہ کو موقع ملتے ہی تنگ کرنے سے باز نہ آتے۔
کبھی انجم الماری میں ایلفی ڈال دیتا کہ نہ الماری کھلے اور نہ مولا بخش استاد کے ہاتھ میں آئے۔کبھی مولابخش کو چھپا دیتا۔ایک روز سر حفیظ نے میتھ کا ٹیسٹ لیا جس میں چند طلبا نے تو کچھ نہ کچھ کر لیا مگر انجم فیل ہوگیا تو سر حفیظ نے مولابخش کی مدد سے انجم کو پیٹ ڈالا کہ اچانک انجم نے آگے بڑھ کر سر حفیظ کی کلائی کو زور سے مروڑ دیا اور درد کی شدت سے انہوں نے مارنا چھوڑدیا۔
ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے کہا کچھ نہیں مگر خاموشی سے رجسٹر اٹھایا اور کلاس روم سے چلے گئے۔بجائے اس کے کہ انجم شرمندگی محسوس کرتا اس نے نہایت ڈھٹائی سے بڑے فخر سے ہر ایک طالب علم کو بتا نا شروع کردیا۔سکول میں کلاس دہم کے طلبا شرارتی ٹولے کے نام سے مشہور ہو چکے تھے۔
ہر استاد کے ساتھ مذاق کرنا‘آوازیں کسناان کا معمول بن چکا تھا اور کئی بارہیڈ ماسٹر نے بھی پیار اور سختی کے ساتھ کئی بار تنبیہ کی مگر چند دنوں بعد دوبارہ اسی طرح ہوجاتے۔گرمیوں کی چھٹیاں بالکل قریب تھیں اور ہر استاد کی کوشش تھی کہ کم وقت میں اپنے طلباء کو زیادہ سے زیادہ علم دیں کہ انہی دنوں میں ابتدائی تربیت پانے والے اساتذہ کرام بھی آگئے اور سب اساتذہ نے اپنے اپنے کمرے ملتے ہی اسے سجانا شروع کردیا۔
ہر کمرہ جماعت خوبصورت ورنگین تصویری چارٹ سے بہت دلکش منظر پیش کررہا تھا۔جماعت دہم کے طلباء کو پڑھانے کی ذمہ داری سر امین کے حصہ میں آئی۔یہ اسلامیات کے استا دتھے مگر حسب معمول ان طلباء نے بھی ان کو ستانا شروع کردیا۔خود بھی اور دوسروں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر کمرہئ جماعت میں اتنا شور برپا کرتے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔اور استاد محترم بار بار خاموش ہونے کا کہہ کہہ کر ہلکان ہو جا تے تھے مگر انہوں نے نہایت صبر کے ساتھ یہ سلوک برداشت کیا۔یہ تربیتی اساتذہ کرام پندرہ یوم کے لئے اس سکول میں آئے تھے تو انہوں نے سوچا کہ چلو کوئی بات نہیں ابھی شروع کے دن ہیں۔آہستہ آہستہ یہ طلبا ہمارے ساتھ مانوس ہو جائیں گے مگر طلباء کا ہتک آمیز رویہ دن بدن بڑھتا جارہا تھا۔پندرہ یوم بعدان تربیتی اساتذہ کی جانچ پڑتال کے لئے ٹیم نے آنا تھا جو ان کی کارکردگی کو دیکھنے کے بعد انہیں مستقبل کا استاد بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
استاد امین کو پڑھانے کے لئے ”استاد ایک عظیم شخصیت“کا موضوع ملا تھا جس پر وہ روزانہ سیر حاصل گفتگو کرتے۔انہوں نے بتایا کہ عزیز طلبا استاد کو معاشرے میں ایک بلند مقام حاصل ہے۔اسے وہ فرض سونپا ہے جو اللہ نے رسولوں اور پیغمبروں کو سو نپا تھا یعنی لوگوں کو تعلیم اورعلم کی روشنی سے منور کرنا، وہ آپ کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔
حدیث قدسی ہے کہ استاد کی حیثیت روحانی باپ کی ہے۔ اس کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے جتنا کہ باپ کا اپنی اولاد پر ہے۔آپ کے گھر والے آپ کو یہاں اس لئے بھیجتے ہیں کہ آپ پڑھ لکھ کر اچھے انسان بن جائیں۔اگر کھیل تماشے میں وقت گزاردیا تو یہاں آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
آپ استاد کی دل سے عزت واحترام کریں۔استاد امین نے طلبا کو بتایا کہ جب معزز مہمان کمرہئ جماعت میں آئیں تو آپ نے کس طرح کا انداز اپنانا ہے۔انہوں نے چیدہ چیدہ طلبا کو سوال وجواب بھی سمجھادئے تھے۔استاد امین نے سوال پوچھا تو ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر جواب دینے لگا تو انجم نے آواز لگائی ابے اوہکلے کیوں استاد کا وقت ضائع کررہا ہے۔چل بیٹھ آرام سے۔استاد امین کو یہ بات ناگوارگزری مگر خاموش رہ گئے۔انہوں نے ایک اور سوال کا جواب طالب علم سے پوچھا تو وہ ابھی جواب دے رہا تھا کہ ا س کی بات سے انجم نے زوردار قہقہہ لگا یا تو دیگر طلبا بھی ہنسنے لگے۔اب استاد امین نے اسے کان پکڑ کر ڈیسک سے باہر نکالا اور ایک زناٹے دار تھپڑ جڑدیا تو اچانک کمرہ ئجماعت کا ماحول یکسر تبدیل ہو گیا۔
طلبا کو تربیتی استاد سے اس طرح کے رویہ کی ہر گز توقع نہ تھی۔استاد امین نے کہا مجھے تمہارے بارے میں استاد حفیظ بھی بتا رہے تھے۔میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ نوبت آئے مگر تم نے بالکل مجبور کر دیا۔اس نے ہمت کرکے با اعتماد ہو کر سوال کا جواب دیااور کیا آپ میں ہمت تھی‘ابھی استاد امین انجم کو مزید سمجھانا چاہ رہے تھے کہ اچانک کمرہئ جماعت میں مہمان اساتذہ آنا شروع ہو گئے۔
تمام طلبا نے کھڑے ہو کر السلام علیکم کے الفاظ ادا کئے۔جواب میں انہوں نے بھی وعلیکم السلام اور بالکل پیچھے کے ڈیسکوں میں جاکر بیٹھ گئے اور اشارہ کرکے استاد کو پڑھانے کا حکم دیا تو استاد امین نے لہجے کو نرم اور شائستہ بناتے ہوئے کہا عزیز طلبا جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ چند دنوں سے استاد کی عظمت کے بارے میں پڑھ رہے ہیں،میں نے آپ کو بتایا کہ استاد علم کی شمع روشن کرتا اور جہالت کے اندھیرے دور کرتا ہے۔
دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو استاد کو استاد سمجھتے ہیں۔اس کی قدر کرتے ہیں۔اس کی عظمت وبڑائی کو مانتے ہیں۔اس کے پڑھائے ہوئے سبق کو اچھی طرح ذہن نشین کرتے ہیں۔وقت پر پڑھنا اور وقت پر کھیلنا ہی اچھے طالب علموں کی نشانی ہے۔
یاد رکھنا گیا وقت کبھی ہاتھ نہیں آتا۔ اگر آپ نے یہ وقت گزار دیا تو آپ ساری زندگی ایک ناکام انسان کی طرح گزار دیں گے اور اللہ نہ کرے کہ آپ بازار میں ریڑھیاں لگائیں۔اگر استاد آپ کو مارتا ہے تو آپ کے بھلے اور فائدے کے لئے ہی،ہر استاد ہر طالب علم کو اپنا بیٹا سمجھتا ہے۔
استاد آپ کو معاشرے میں ایک بلند مقام پہ فائز ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔عزیز طلبا آپ خوب پڑھو، اس کی قدر کرو، انجم شرمندگی سے سر جھکائے بیٹھا تھا مگر دل میں اس نے یہ عہد کر لیا تھا کہ آج سے وہ دل لگا کر پڑھے گا اور استاد کی قدر کرے گا۔اس نے دل میں یہ ارادہ بھی کیاکہ استاد کی عزت کرنے میں ہی کامیابی کا راز چھپا ہے۔