سیاست دانوں کو آرام کی ضرورت ہے
جب سے عمران خان کا اقتدار ختم ہوا ہے تب سے سیاسی ماحول اتنا گرم ہے، لگتا ہے کہ جہنم سے کوئی کھڑکی پاکستان کی طرف کھول دی گئی ہے جس چیز کو ہاتھ لگاتے ہیں اس میں اتنی تپش ہے کہ ہاتھ جل جاتے ہیں اس لئے سارے شہر کے لوگوں نے دستانے پہن لئے ہیں ”اب کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں“ والا معاملہ نہیں رہا خون تو دستانوں سے بھی نچڑنے لگا ہے۔ عام آدمی مہنگائی اور دیگر مسائل کی وجہ سے اس تشدد زدہ انسانی ڈھانچے کی طرح ہو چکا ہے جس میں بات کرنے کی سکت نہیں ہوتی جو ضروری بات بھی صرف اشاروں میں کرتا ہے جب ملک میں سیاسی فضا بے یقینی اور امن و امان کی صورت بے بسی کا شکار ہو تو سرمایہ دار خونخوار بھیڑیئے کی طرح عوام کا خون چوسنے کے لئے اپنے نوکیلے دانتوں کو مزید تیز کر دیتا ہے اور ایسے لوٹ مار کے حصول میں غریب اور مجبور انسانوں کے ننگے بھوکے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والا دُور دُور تک نظر نہیں آتا۔ جو صورت حال آج ہے یہی عمران خان کے چار سالہ دور میں بھی تھی۔ وہ تو ویسے ہی ”ون مین“ شو تھا اس کی ساری”کوشش“ صرف اپنے مخالفین کو بزور بازو زیر کرنے پر صرف ہو گئی لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود یعنی آسمان سے زمین پر گرنے کے بعد بھی ان کا ”ون مین شو“ ختم نہیں ہوا۔ ہر روز ایک بیانیہ بنا تے اور ہم نوا اس کو دہراتے رہتے ہیں۔
تازہ بیانیہ بھی اب تیزی سے پرانا ہو رہا ہے کہ وہ ایک سابق وزیراعظم ہونے کے باوجود اپنی مرضی کی ایف آئی آر نہیں کٹوا سکے۔ ظاہر ہے کوئی بیانیہ جتنا زیادہ استعمال کیا جائے گا وہ اتنی جلدی ہی پھٹا پرانا ہو کر دم توڑ دے گا۔ جب سے وزیراعظم نے عمران خان پر حملے کی تحقیقات کے لئے چیف جسٹس کو یکے بعد دیگرے دو خط ارسال کئے ہیں تب سے عمران خان اور ان کے ساتھی یہ گھسا پٹا بیانیہ دہرانے سے بھی گریزاں ہیں تو جناب کبھی کبھی سانپ کو اس کے زہر سے بھی مارنا پڑتا ہے آپ سوچتے ہوں گے کہ میں عمران خان کا اتنا زکر کیوں کرتا ہوں دراصل مجھے ان کی حالیہ زندگی پر ترس آ رہا ہے۔ چھ ماہ سے اس کی تقاریر میں ایک اور دکھ جو سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ ان کی حکومت ختم کرنے کے بعد شہباز شریف کو وزیراعظم کیوں بنایا گیا ہے اور اب گزشتہ دنوں اگر وہ لندن میں اپنے بڑے بھائی اور قائد مسلم لیگ (ن) جناب نواز شریف سے ملنے گئے اور وہاں موجودہ اور آنے والے سیاسی حالات پر مشورے کئے تو اس پر ان کو وزیراعظم شہباز شریف پر اور بھی زیادہ غصہ آنے لگا ہے اور اس غصے کے عالم میں وزیراعظم کے ساتھ ساتھ نوازشریف کے بارے میں پھر وہی زبان استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں نہ صرف حق حکمرانی سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ وہ ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں پڑے سسک رہے ہیں لیکن کوئی دست شفقت ان کی طرف بڑھنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ اس ملک کا وہ کون سا شخص ہے جو اس بات سے آگاہ نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے آشیانے کو خود آگ کے حوالے کیا تھا۔ اب یہ کہنا کہ فوج سے میرا مسئلہ احتساب کے معاملے پر خراب ہوا تھا یعنی کہ فوج نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے سمجھا کہ بٹیرا اب میرے ہاتھ آ گیا ہے اب کہاں جائے گا؟ لیکن اس نے دیکھ لیا کہ بٹیرا بھی ہاتھ سے نکل گیا۔
گزشتہ دنوں انہوں نے کتنے پاپڑ بیلے کہ کسی طرح فوج سے اس کے تعلقات پہلے کی طرح ہوجائیں اور شیخ رشید جیسے جوتشی کو بھی استعمال کیا۔ کچھ اور بھی ممکنہ ذرائع سے کام لیا گیا لیکن بات نہ بنی۔ اپنے ہم نواؤں کی طرف سے اس قسم کے بیانات دلوائے گئے کہ نئے آرمی چیف کا تقرر باہمی مشاورت سے کیا جائے لیکن پی ڈی ایم کی حکومت نے دوٹوک جواب دے کر خاموش کروا دیا کہ یہ ایک طے شدہ آئینی معاملہ ہے اور اس کا مکمل اختیار وزیراعظم کا ہے جو آئینی طریق کار کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا تب عمران خان نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ آرمی چیف کا تقرر ان کا مسئلہ نہیں ہے کسی کا بھی تقرر کر دیا جائے ان کو قبول ہو گا، یعنی یوٹرن میں یہ اضافہ اس وقت سامنے آیا جب احساس ہوا کہ پی ڈی ایم کی حکومت اپنے آئینی حق سے پیچھے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ عمران خان کے سارے بیانیے ایک ایک کرکے پٹ چکے ہیں ان کی اسٹیبلشمنٹ کو ”ہم نوالہ“ بنانے کی ساری کوششیں دم توڑ چکی ہیں اور وہ سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ کوئی نیا بیانیہ کہاں سے لائیں جو ان کو پھر سے اپنے قدموں پر کھڑا کر سکے۔ اس قابل عبرت صورت حال میں بھی ان کی طرف سے کسی سیاسی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا اور ناکامی کے باجود اپنے لانگ مارچ کو پہلے راولپنڈی لے کر جانے کا کہہ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ تخریبی سیاست سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔اب ان کے حامی مبصرین نے بھی ان کو یہ مشورہ دینا شروع کر دیا ہے کہ خان صاحب اب آئندہ انتخابات میں وقت ہی کتنا رہ گیا ہے اس لئے اس پر فوکس کرو اور لوگوں کو اپنے خطاب میں بتاؤ کہ ان کے پاس مستقبل میں قوم کی بہتری اور ملک کی ترقی کے لئے کون سا ایجنڈا ہے کیونکہ اگر آپ نے اپنی سوچ کو تبدیل نہ کیا تو جمہوریت کو وہ خطرہ لاحق ہو سکتا ہے جس کا تذکرہ امیر جماعت اسلامی کی طرف سے کیا گیا ہے۔ ماضی ہو یا حال ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سیاست دانوں کی اکثریت اس وقت ٹی وی پروگرامز میں بآواز بلند یہ کہتی ہوئی نظر آ رہی ہے کہ سیاست میں آلودگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ سانس لینا بھی دشوار دکھائی دیتا ہے۔