آرمی چیف سے علمائے کرام کی ملاقات
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے جمعتہ المبارک کو تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام اور مشائخ سے ملاقات کے دوران کہا کہ ریاست کے سوا کسی بھی ادارے یا گروہ کی طرف سے طاقت کا استعمال اور مسلح کارروائی ناقابل قبول ہے۔ ا_±ن کا کہنا تھا کہ مذہبی، صوبائی، قبائلی، لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ یا کسی اور امتیاز کے بغیر یہ ملک تمام پاکستانیوں کا ہے، بالخصوص اقلیتوں اور کمزور طبقوں کے خلاف عدم برداشت اور انتہاءپسند رویے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ا_±نہوں نے انتہاءپسندوں اور دہشت گردوں کے ذریعے پھیلائے جانے والے گمراہ کن پروپیگنڈے کے خاتمے کے لیے مذہبی علماءکی طرف سے جاری کیے گئے فتوے ”پیغام پاکستان“ کو سراہا اورعلماءو مشائخ سے گمراہ کن پراپیگنڈے کی تشہیر روکنے، اِس کے تدارک اور اندرونی اختلافات کو دور کرنے پر زور دیا۔ آرمی چیف نے فکری اور تکنیکی علوم کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی تفہیم اور کردار سازی کے لیے نوجوانوں کو راغب کرنے میں علمائے کرام کے کردار کی نشاندہی بھی کی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیرسے علماءکرام نے جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں ملاقات کی اور متفقہ طور پر انتہاءپسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کی مذمت کی۔ ا_±نہوں نے ملک میں رواداری، امن اور استحکام لانے کے لیے ریاستی اور سیکیورٹی فورسز کی انتھک کوششوں کی بھرپور حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ علماءکرام کا کہنا تھا کہ اسلام امن اور ہم آہنگی کا مذہب ہے اور بعض عناصر کی طرف سے مذہب کی مسخ شدہ تشریحات صرف ا_±ن کے ذاتی مفادات کے لیے ہیں جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فورم نے متفقہ طور پر حکومت پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی، ایک دستاویزی نظام (پاسپورٹ) کے نفاذ، انسداد سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور بجلی چوری کے خلاف اقدامات کی حمایت کی۔ اس کے علاوہ افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی پر پاکستان کے موقف اور تحفظات کی مکمل تائید کرتے ہوئے اِنہیں دور کرنے کے لیے افغانستان کی طرف سے سنجیدگی پر بھی زور دیا۔ فورم نے غزہ میں جاری جنگ اور غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر غم و غصے کا اظہار کیا اور اِنہیں انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا ہے۔
پاکستان میں اِس وقت دہشت گردی دوبارہ سے سر اٹھاتی نظر آ رہی ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں رواں سال کی پہلی ششماہی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور خودکش حملوں میں گزشتہ برس (2021ئ) کے مقابلے میں 79 فیصد اضافہ ہوا، 271 حملوں میں 389 افراد شہید جبکہ 656 افراد زخمی ہوئے۔گزشتہ برس اِسی عرصے کے دوران 151 حملے کے گئے تھے جس کے نتیجے میں 293 افراد شہید اور 487 افراد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا یہ رجحان تاحال برقرار ہے خصوصاً سکیورٹی فورسز پر حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اِسی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق 2021ءمیں پاکستان میں 207 دہشت گرد حملے ہوئے تھے جن میں 335 شہادتیں ہوئیں جبکہ 555 افراد زخمی ہوئے، شہید ہونے والے افراد میں سے 177 سکیورٹی فورسز کے اہلکار جبکہ 126 عام شہری تھے ،اِس طرح 2020ءکے مقابلے میں 2021ءکے دوران دہشت گردی کے واقعات میں قریباً 42 فیصد اضافہ ہوا۔
دہشت گردی کے واقعات میں 2017ءکے بعد بتدریج کمی آنا شروع ہو گئی تھی تاہم 2020ءکے بعد اِن میں اچانک اضافہ شروع ہو گیا۔ ساو_¿تھ ایشیا ٹیریرزم پورٹل کے مطابق 2013ءمیں پاکستان میں دہشت گردی کے لگ بھگ چار ہزار واقعات ہوئے تھے جو 2020ءمیں کم ہو کر صرف 319 رہ گئے تھے۔ اُس وقت ماہرین کا خیال تھا کہ ملک میں موجود دہشت گردوں کی کارروائیوں کا دائرہ کار انتہائی محدود ہو چکا ہے اور دہشت گرد گروہ ملک بدر کر دیے گئے ہیں۔ اِسی دوران ایسی خبریں بھی آتی رہیں کہ کالعدم تحریک طالبان کے زیادہ تر اراکین افغانستان فرار ہو چکے ہیں اور بعض جیلوں میں قید ہیں جس کی وجہ سے 2017ءسے 2020ءکے دوران تین برسوں میں پاکستان میں اَمن کی واپسی ہوئی جسے عالمی طور پر تسلیم کیا گیا ،پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی بھی ہو گئی۔ اگست 2021ءمیں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاءاور اِس کے نتیجے میں حکومت کی اچانک تبدیلی کے بعد بعض ماہرین کا خیال تھا کہ طالبان کی حکومت کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی جبکہ کئی ایک کا ماننا تھا کہ اِس تبدیلی سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سمیت ملک مخالف گروہ تقویت پکڑ سکتے ہیں۔ ایسے میں افغانستان کی جیلوں میں قید تحریک طالبان پاکستان کے اراکین کی رہائی کی خبریں سامنے آئیں جن کے بعد پاکستان کے شمالی مغربی سرحدی علاقوں میں دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔
واضح رہے کہ 2017ءمیں کہا جا رہا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت چکا ہے تاہم افغانستان میں تبدیلی آنے کے بعد تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت نے ہزاروں افراد کو پاکستان میں دوبارہ آ کر بسنے کی اجازت دے دی، بعض ناقدین کا خیال ہے کہ اِس پالیسی کی وجہ سے دہشت گردی نے دوبارہ سے سر ا_±ٹھایا کیونکہ دہشت گردی کے مختلف واقعات میں اِن لوگوں کے براہ راست یا بالواسطہ ملوث ہونے کے شواہد ملے۔ پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت کے اوائل میں ہونے والی نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ کے بعد دہشت گردی کے خلاف ”زیرو ٹالرینس“ پالیسی کا اعلان کیاگیا، پاکستان اب تک اس پالیسی پر عمل پیرا ہے، اِسی کے تحت ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کے لیے آپریشن جاری ہے، سکیورٹی فورسز کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ مذکورہ افراد سمگلنگ اور اجناس کی ذخیرہ اندوزی سمیت دوسرے کئی جرائم میں ملوث تھے اِسی لئے غیر قانونی طور پرمقیم افراد کی واپسی کا فیصلہ کیا گیا۔ اِس آپریشن کے خلاف افغان حکومت نے اگرچہ اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اِسے افغان مہاجرین کے خلاف قرار دیا تاہم حکومت کا موقف ہے کہ اِس کا مقصد افغان مہاجرین نہیں بلکہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنا ہے۔
اِس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملوث کسی بھی شخص یا تنظیم کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جا سکتی تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی باعزت طریقے سے ہونی چاہئے۔ پاکستان کو اِس وقت ہر قدم سوچ سمجھ اور سنبھل کر اُٹھانے کی ضرورت ہے، انتخابات کا دور دورہ ہے، سیاسی درجہ ءحرارت بھی بڑھ رہا ہے، ایسے میں ملک میں حالات سازگار بنائے رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آرمی چیف نے علماءکرام و مشائخ سے ملاقات میں بھی ملک سے انتہاءپسندی کے خاتمے پر زور دیا ہے اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت کی مذمت کرتے ہوئے ملک میں رواداری، اَمن اور استحکام لانے کے لیے ریاستی اور سیکیورٹی فورسز کی انتھک کوششوں کے لیے اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا ہے۔ ہمارے ہاں معاشرے کی فلاح اور ترقی میں علمائے کرام کے کردار سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، گلی محلے میں موجود مساجد کے امام اور مختلف مکاتب فکر کے علماءکرام اور مشائخ بطور “اوپینین لیڈرز” معاشرے میں روا داری کی ترویج کر سکتے ہیں۔ اُن کے پاس کوئی بھی پیغام موثر طریقے سے عوام تک پہنچانے کی طاقت موجود ہے اور ہمیں اِس طاقت سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہیے۔