شیخ رشید کیا کریں؟

فرزند راولپنڈی لال حویلی والے شیخ رشید بھی زبردست چیز ہیں وہ تیلی رے تیلی تیرے سر پر کولہو کے وزن پر بات کرتے رہتے ہیں چاہے شعر پورا ہو یا نہ ہو۔ آج تک ان کے دس روز تو پورے نہیں ہوئے اور شاید اسی لئے انہوں نے ایسے دعوے چھوڑ دیئے لیکن انداز مختلف اختیار کر لیا ہے بقول شخصے اگر آپ نے مشہور ہونا ہے تو پھر آپ کو بڑا کام ہی کرنا چاہئے وہ اس کے عادی ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا سیاست دان ہو جو گیٹ نمبر 4 کے حوالے سے ایسے دعوے کرے جو آج وہ کر رہے ہیں ان کی یہ بات قابل غور ہے کہ میں نے کبھی عدلیہ اور گیٹ نمبر4 سے بگاڑی نہیں پھر نہ معلوم کیوں ناراضی ہو گئی ہے وہ بھولے بنتے ہیں حالانکہ چلہ کشی کے دوران ان پر منکشف ہو چکا ہوا ہے کہ یہ ”محبت“ کیوں ہو رہی ہے۔ ویسے چلہ کا کوئی اور فائدہ ہوا ہو یا نہ ،اتنا ضرور ہوا ہے کہ وہ اپنے نئے دوست کا نام نہیں لیتے اور شرما کر رہ جاتے ہیں جب انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ دشمنی اور دوستی کھل کر کرتے ہیں تب بھی ان کا جواب واضح نہیں تھا ویسا ہی ابہام موجود تھا جیسا ان کی پیشگوئیوں میں ہوتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے کسی کالم میں اپنے زمانہ طالب علمی میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ سے ایک ملاقات کا ذکر کیا تھا یہ غالباً 52-51 کا دور ہوگاکہ تب ہم ہائی سکول میں آخری کلاسوں میں تھے اور ہمیں پنجاب اسمبلی کی کارروائی دیکھنے کا موقع دیا گیا تھا وہاں میاں ممتاز دولتانہ کی تقریر سنی اور پھر اساتذہ کرام کی ہدائت پر پاکستان ٹائمز پڑھنا لازم تھا اس لئے اس اخبار میں یہ خبر بھی دیکھی ہوئی تھی۔
(Best Speech Delivered by doltana) یہ بڑی سرخی بھی ذہن میں تھی چنانچہ والا محترم چودھری احمد الدین (مرحوم) سے فرمائش کی کہ ان کا مسلم لیگ میں تعلق اسی گروپ سے تھا۔ ان کی وساطت سے وقت مل گیا اور ہم چند دوست ان کی کوٹھی چلے گئے ان سے یہ ملاقات دولتانہ ہاﺅس کی لائبریری میں ہوئی جو یقیناً ایک بڑی لائبریری تھی۔ میاں صاحب نے ہماری تواضع چائے بسکٹ سے کی اور تمام سوالات کے جواب خندہ پیشانی سے دیئے ہم نے ان سے یہ سوال بھی کیا کہ لیڈر کیسے بنتے ہیں۔ تو انہوں نے پہلے تو بتایا کہ یہ سب محنت اور وقت سے ہوتا ہے تاہم ضمنی سوالات کے باعث وہ یہ بھی بتاتے چلے گئے کہ کسی غیر معروف شخصیت کو بھی نمایاں کیا جا سکتا ہے وہ یوں کہ ایسے شخص کی طرف سے کسی بڑے لیڈر کی مخالفت شروع کرا دی جائے۔ چھوٹے موٹے بیانات سے لے کر بڑی باتیں کرائی جائیں اور دوسری طرف سے اپنے ہی لوگوں سے اس کی مخالفت کرائی جائے اور یہ شدید ہو پھر یوں اختتام کیا جائے کہ مذکورہ شخصیت عوام میں نکل آئے اور مخالفت کم ہوتی جائے یوں غیر معروف مشہور ہو جائے گا اس حوالے سے جب یہ سوال کیا گیا کہ جب ایسا شخص کسی بڑے معروف سے ماتھا لگائے گا تو اسے گھاس کون ڈالے گا۔ جواب دیا گیا یہی تو حکمت عملی ہے مشہور ہونے کی۔
اب میں یہ تو نہیں کہتاکہ فرزند راولپنڈی بھی اسی طرح مشہور ہوئے وہ تو زمانہ طالب علمی ہی سے چلتے پرزے تھے اور بہت پھرتیلے بھی تھے۔ بہر حال ابھی تک انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ گیٹ نمبر 4 سے ان کا تعلق کب ہوا کیونکہ اس برکت سے تو وہ کئی بار الیکشن جیتے اور وزیر بھی رہے حتی کہ آخری بار وزارت داخلہ کی حسرت بھی پوری کرلی۔ میں گیٹ نمبر 4 والے یا ان جیسے جن حضرات کو ذاتی طور پر جانتا ہوں وہ تو زمانہ طالب علمی ہی سے بذریعہ ضلعی انتظامیہ اور سپیشل برانچ سے ترقی کر کے آئی بی سے ہوتے ہوئے گیٹ نمبر 4 کی رسائی کے اہل ہوئے تھے یہ تاریخ تو خود شیخ رشید ہی بتا سکتے ہیں ویسے ان سے کوئی بعید نہیں کہ وہ کھل کر اس دروازے کی بات کر رہے ہیں۔ بہر حال ایک بات تو اب بھی ثابت ہو رہی ہے کہ متھا لگانا ہے تو پھر اپنے سے بڑے کے ساتھ لگاﺅ شاید اسی فارمولے کے تحت انہوں نے ایسا فرمایا ”نواز شریف بولنے لگے ہیں تو اب میں بھی بولوں گا“ وہ بولے تو یہ کہا میں الیکشن ضرور لڑوں گا چاہے جیل ہی سے کیوں نہ لڑوں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چلہ کشی کے فیوض و برکات سے انکار کر رہے ہیں۔ ورنہ ان کو تو اب جیل کا خوف نہیں ہونا چاہئے کہ اگر دروازہ نہیں کھلا تو امکان پیدا ہو گیا کہ چلہ کشی کے بعدان کے لب و لہجہ میں تبدیلی ضرور آئی ہے۔
ہمارے بعض دوست تو محترم کو تو بیرومیٹر بھی سمجھتے ہیں اور ان کے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا اعلان اس امر کا مظہر ہے کہ ان کو یقین ہو گیا ہے، لہٰذا سب حضرات غلط فہمیاں دور کرلیں، اس سلسلے میں میری اپنی خواہش بھی یہی ہے کہ یہ سب ہو جائے کہ جو ہونا ہے وہ ہواگرچہ تاحال عوامی سطحی پر بات چیت تو شروع ہوئی ہے لیکن انتخابی گہما گہمی مفقود ہے اگرچہ مالدار حضرات میں سے کئی ایک نے ملاقاتوں کے بعد انتخابی کیمپ لگا کر کھلانے پلانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ابھی تک کسی جماعت نے ٹکٹوں کا اعلان نہیں کیالیکن معتبر حضرات تو ایک ہی وقت میں دو قومی اور دوصوبائی کی نشستوںپر خود اور اپنے بیٹوں کو نامزد بھی کر چکے ہیں۔ یقینا ان کو یقین دلا دیا گیا ہو گا، اسی طرح شیخ رشید (ون میں آرمی) نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف خود بلکہ ان کے بھتیجے اور اڈاپٹڈ صاحبزادے راشد بھی الیکشن لڑیں گے۔راشد کے لئے بھی انہوں نے بظاہر قومی اسمبلی چنی ہے تاہم اس سے یہ الجھن پیدا ہوئی ہے کہ خود شیخ رشید صرف ایک ہی حلقہ سے امیدوار ہوں گے یا ماضی کی طرح دو حلقوں سے انتخابی عمل میں حصہ لیں، جیسا وہ ماضی میں کرچکے۔یہ بھی یادگار ہے کہ شیخ صاحب کو مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ٹکٹ نہ دیا گیا کہ وہ مصیبت میں پرویز مشرف کے ہو گئے تھے۔ انہوں نے یہ اعلان کرکے دونوں ملحقہ حلقوں سے الیکشن میں حصہ لیا کہ یہ نشستیں نوازشریف کی ہیں اور میں جیت کر ان کے قدموں پر نثار کر دوں گا۔ پھر دنیا نے دیکھا وہ جیت تو گئے اعلان پر عمل نہ ہوا، اب تو وہ خود اکلوتی مسلم لیگ کے مالک ہیں اور جانے والے ایوان میں اس جماعت کے اکیلے رکن تھے اب انہوں نے آزاد حیثیت کا اعلان کیا اور اپنی جماعت کو بھول گئے ہیں،اب جانے ارادے کیا ہیں، ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔