عدالتی افسران عدل کی تلاش میں

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ کا ملیامیٹ وقار بحال کرنے میں بخوبی لگے ہوئے ہیں۔ اللہ کرے وہ رخصت ہوں تو تب کی عدلیہ پر ہر پاکستانی فخر کر سکے ۔ آج ایک طرف مقدمات بتدریج کم ہو رہے ہیں تو دوسری طرف سپریم کورٹ میں پڑی خوفناک دراڑ بھی بڑی حد تک مندمل ہو چکی ہے ۔ وہ سب کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ بینچوں کی تشکیل اب صوابدید سے نکل کر تین ججوں کے پاس ہے ۔ یہ عمل آمرانہ بندیالی فکر سے نکل کر اب جمہوری روایات کی داغ بیل ڈال رہا ہے ۔اسی عدلیہ کے فیصلے کبھی کتب اصول قانون میں بطور حوالہ لکھے جاتے تھے اسی عدلیہ کے لوگ عالمی عدالت انصاف کے چیف جسٹس بنے ۔ ایک یوگو سلاویہ کے جسٹس اور گیمبیا کے چیف جسٹس بھی رہے ۔ پھر پرویز مشرف کے کلہاڑے کے بعد مثلاً ہمیں وہ جج ملا جو ہسپتالوں کے متعفن سنڈاس میں سکون محسوس کرتا تھا۔ آئین شکن جرنیلوں اور معاون ججوں کے باعث آج حال یہ ہے کہ جنرل عاصم منیر یا جسٹس فائز عیسی کے لیے 10 تنقیدی جملوں کے بعد دو ستائشی کلمات لکھ دوں تو تمام سیاسی جماعتوں کے افراد بلا امتیاز مجھ پر پل پڑتے ہیں۔ تھوڑے لکھے کو بہت سمجھ لیں،21ویں صدی ہے ۔
کیا ہی اچھا ہو کہ قاضی فائز عیسیٰ ان امور پر توجہ دیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے لیے صدقہ جاریہ رہیں۔ آج سپریم کورٹ میں مقدمات گھٹ رہے ہیں تو کیا ضمانت ہے کہ ان کے بعد بندیالی فکر سپریم کورٹ کو وہیں لا کر کھڑا نہیں کر دے گی؟ چیف کے چند اہداف میں ایک یقینا یہ بھی ہوگا کہ عدلیہ کا اپنا داخلی ڈھانچہ درست ہو جو آج آئینی تقاضوں کے منافی ہے ۔ جوڈیشل کمیشن سے قبل عدلیہ مثالی نہیں تو قابل قبول ضرور تھی۔ اعلیٰ عدلیہ میں آئین کے مطابق تقرریاں ہوتی تھیں کہ ہائی کورٹ کا جج تین زمروں میں سے لیا جا سکتا ہے : وہ شخص جو 10سال ہائی کورٹ کی پریکٹس کر چکا ہو٬ وہ جو 10 سال سول سرونٹ اور 3 سال سیشن جج رہا ہو٬ اور وہ جو 10 سال سیشن جج رہا ہو. کمیشن سے قبل تینوں زمرے ایک تہائی کے تناسب سے اعلی عدلیہ میں جاتے تھے ۔ یعنی ایک سیشن جج، ایک سول سروس افسر، ایک وکیل۔
سول سروس کا زمرہ فی الوقت معدوم ہے ۔ اعلیٰ عدلیہ بڑی حد تک وہی ہونا چاہیے جو سول جج سے ہوکر سیشن جج کے راستے ہائی کورٹ جاتی ہو۔ لیکن حالت یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں آج وہ ایک جج بھی نہیں جو سول جج رہا ہو۔ لاہور ہائی کورٹ کے 60 میں صرف ایک جج باقی ہے جو سول جج سے جسٹس بنا ہے ۔ یوں ضلعی عدلیہ آج آتش فشاں کے دھانے پر ہے ۔ کیوں؟ اس لیے کہ محکمانہ نظم و ضبط کے باعث ان لوگوں کو سیشن جج سے بھی ملنے کے لیے وقت لینا پڑتا ہے ۔ اجازت کے بغیر وہ اپنا شہر نہیں چھوڑ سکتے ۔ جبکہ شتر بے مہار وکیل جب جی چاہے ، ہائی کورٹ کے جج کے کمرے میں گھس جاتا ہے ۔سیاسی مقدمات ٹی وی مباحثوں اور اخباری بیانات کے ذریعے اپنی کردار سازی کر کرکے وہ سیدھے سبھا_¶ ہائی کورٹ جا بیٹھتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ آئین کا آرٹیکل 193 ہائی کورٹ کی ججی کی محض اہلیت بتاتا ہے ۔ آرٹیکل کی روشنی میں چاہیے تو یہ تھا کہ ہر زمرے کی تعداد خود پارلیمان مقرر کرتا لیکن 75 سالہ جرنیلی مداخلت کے سبب پارلیمان کو قانون سازی کا موقع ہی نہیں ملا۔
نتیجتاً شتر بے مہار وکیلوں میں سے بننے والے ججوں نے اپنے چیمبروں کے وکلا کو ہائی کورٹوں میں لا بٹھا کر اقربا پروری کی کالی اندھیری رات بپا کر دی۔ ہاتھ پا_¶ں بندھے سیشن جج کو جب یہ امید ہی نہ ہو کہ اس کی ترقی ہوگی تو اس کا ہیجان کیا رخ اختیار کرے گا، اس کا جواب بڑا خوفناک ہے ۔ اب اس میں تساہل اور کام چوری کے جذبات پیدا ہو گئے ۔ وہ محنت کرے تو کیوں کہ جب اس کی ترقی ہوگی ہی نہیں۔ فریقین کے دونوں مخالف وکلا بھی فیسوں کی خاطر مقدمے کو خوب لٹکاتے ہیں۔ اولا وہ اپنے ہتھکنڈے اپناتے ہیں ورنہ افسردہ سیشن جج یہ سوچتے ہوئے طویل تاریخ دے کر چیمبر میں آرام کرتا ہے : "میں نے کون سا جسٹس بننا ہے "۔ یوں بظاہر معمولی سے آئینی انحراف نے کروڑوں لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔
ججوں کا ادب احترام ملاحظہ ہو. اصول یہ ہے کہ ہائی کورٹ میں کی گئی قانونی تشریح ماتحت عدلیہ کے لیے واجب الاطاعت ہوتی ہے ۔ میں نے ایک سیشن جج سے ایک فیصلے پر سوال کیا جو نظیر کے خلاف تھا۔ جواب ملاحظہ ہو: "اس افلاطون جج کو میں جانتا ہوں، آپ نہیں جانتے ۔ پروفیسر صاحب ! تیسرے درجے کا یہ وکیل میرے ساتھ سول ججی کے امتحان میں بیٹھا، فیل ہو گیا۔ ایڈیشنل سیشن ججی کے امتحان میں بیٹھا، فیل ہو گیا۔ ہر لحاظ سے آزاد اس شخص نے وہ دونوں وسائل اختیار کیے جن کا ذکر میرا اخلاق مجھے اجازت نہیں دیتا۔ یوں وہ ہائی کورٹ کا جج بن گیا اور میں بمشکل سیشن جج بن پایا۔ پروفیسر صاحب ! یہ شخص درست انگریزی کا ایک صفحہ نہیں لکھ سکتا. کیا میں نہیں جانتا کہ فیصلہ لکھ کر کس سے درست کراتا ہے ۔ تو میں اس کی تحریر کو مقدس نظیر سمجھوں،؟لعنت ہے ".
قارئین کو "درست انگریزی" والی بات شاید سچ نہ لگے ۔ میں اپنی گواہی چیف جسٹس تک بڑھاتا ہوں۔ بے شمار جان نثار والے چیف جسٹس کو ہم نے بطور مہمان خصوصی بلایا، تقریر لکھ کر دی جو انہی کو پڑھنا تھی۔ پہلا صفحہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ ڈاکٹر محمود غازی کچے سے ہو کر سر نیہوڑائے بیٹھے تھے ۔ افسردہ ہو کر وہ بیٹھے ہی رہے ، ذرا غیر سنجیدہ سامعین کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ یہ وہی جج ہیں جن کے فیصلوں کا سود بشکل ساڑھے چھ ارب ڈالر جرمانہ ہم بھگت رہے ہیں۔
روشنی کی کرن موجود ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن کے لیے ہائی کورٹوں سے تجاویز مانگی ہیں۔ توقع یہی ہے کہ چیف جسٹس ضلعی عدلیہ کو ہائی کورٹ میں ترقی کا آئینی حق یقینا دلائیں گے ۔ اس وقت سیشن ججوں کی تقرری کے لیے 60 فیصد کوٹا سینیئر سول ججوں کا ہے ۔ باقی جج وکلا سے آتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہی اصول ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ میں بھی سختی سے رائج کر دیا جائے ۔ جسٹس قاضی کے پاس یہی ایک موقع ہے ۔ آنے والا پارلیمان آئین کے آرٹیکل 193 پر یقینا قانون سازی کرے گا۔ ضروری نہیں کہ وہ قانون سپریم کورٹ میں موجود بندیالی فکر کو ہضم ہو جائے جیسا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے معاملے میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ امید ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ کو مچھلی کھلائیں گے نہیں، بعد میں آنے والوں کو مچھلی پکڑنے کا طریقہ بتا کر جائیں گے ۔ آپ کا طرز عمل بلا شبہ اچھا سہی لیکن قواعد کے بغیر کچھ دیر پا نہیں ہوگا۔