آسمانوں اور زمین کا نور! سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ

  آسمانوں اور زمین کا نور! سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تفہیم القرآن 

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے(62)۔ (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہُوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو،فانوس کا حال یہ ہے کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک(63)درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی(64)، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے،(اِس طرح) روشنی پرروشنی(بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں(65))۔ اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا(66) ہے۔ وہ لوگوںکو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔

(62) آسمانوں اور زمین کا لفظ قرآن مجید میں بالعموم ”کائنات“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لہٰذا دوسرے الفاظ میں آیت کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے۔

نور سے مراد وہ چیز ہے، جس کی بدولت اشیاءکا ظہور ہوتا ہے،یعنی جو آپ سے آپ ظاہر ہو اور دوسری چیزوں کو ظاہر کرے۔انسان کے ذہن میں نور اور روشنی کا اصل مفہوم یہی ہے۔کچھ نہ سوجھنے کی کیفیت کا نام انسان نے اندھیرا اور تاریکی اور ظلمت رکھا ہے،اور اس کے برعکس جب سب کچھ سجھائی دینے لگے اور ہر چیز ظاہر ہو جائے تو آدمی کہتا ہے کہ روشنی ہو گئی۔اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ ”نور“ کا استعمال اِسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے کیا گیا ہے، نہ اس معنی میں کہ معاذ اللہ وہ کوئی شعاع ہے جو ایک لاکھ 86ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے اور ہماری آنکھ کے پردے پر پڑ کر دماغ کے مرکز ِ بینائی کو متاثر کرتی ہے۔روشنی کی یہ مخصوص کیفیت اُس معنی کی حقیقت میں شامل نہیں ہے جس کے لئے انسانی ذہن نے یہ لفظ اختراع کیا ہے،بلکہ اُس پر اس لفظ کا اطلاق ہم اُن روشنیوں کے لحاظ سے کرتے ہیں،جو اِس مادی دُنیا کے اندر ہمارے تجربے میں آتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کے لئے انسانی زبان کے جتنے الفاظ بھی بولے جاتے ہیں وہ اپنے اصل بنیادی مفہوم کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں نہ کہ اُن کے مادی مدلولات کے اعتبار سے۔مثلاً ہم اس کے لئے دیکھنے کا لفظ بولتے ہیں۔اِس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ انسان اور حیوان کی طرح آنکھ نامی ایک عضو کے ذریعے سے دیکھتا ہے۔ہم اس کے لئے سننے کا لفظ بولتے ہیں۔اس کے معنی یہ نہیںہیں کہ وہ ہماری طرح کانوں کے ذریعے سے سنتا ہے۔اس کے لئے ہم پکڑ اور گرفت کے الفاظ بولتے ہیں۔یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ ہاتھ نام کے ایک آلہ سے پکڑتا ہے۔یہ سب الفاظ اس کے لئے ہمیشہ ایک اطلاقی شان میں بولے جاتے ہیں اور صرف ایک کم عقل آدمی ہی اِس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ سماعت اور بینائی اور گرفت کی کوئی دوسری صورت اُس محدود اور مخصوص قسم کی سماعت و بینائی اور گرفت کے سوا ہونی غیر ممکن ہے جو ہمارے تجربے میںآتی ہے۔اِسی طرح ”نور“ کے متعلق بھی یہ خیال کرنا محض ایک تنگ خیالی ہے کہ اس کے معنی کا مصداق صرف اُس شعاع ہی کی صورت میں پایا جا سکتا ہے جو کسی چمکنے والے جِرم سے نکل کر آنکھ کے پردے پر منعکس ہو۔اللہ تعالیٰ اس کا مصداق اِس محدود معنی میں نہیں ہے،بلکہ مطلق معنی میں ہے،یعنی اس کائنات میں وہی ایک اصل ”سبب ِ ظہور“ ہے،باقی یہاں تاریکی اور ظلمت کے سوا کچھ نہیں ہے۔دوسری روشنی دینے والی چیزیں بھی اسی کی بخشی ہوئی روشنی سے روشن اور روشن گر ہیں،ورنہ ان کے پاس اپنا کچھ نہیںجس سے وہ یہ کرشمہ دکھا سکیں۔

نور کا لفظ علم کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے برعکس جہل کو تاریکی اور ظلمت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس معنی میں بھی کائنات کا نور ہے کہ یہاں حقائق کا علم اور راہِ راست کا علم اگر مل سکتا ہے تو اسی سے مل سکتا ہے۔اس سے فیض حاصل کئے بغیر جہالت کی تاریکی اور نتیجتاً ضلالت و گمراہی کے سوا اور کچھ ممکن نہیں ہے۔

(63) مبارک، یعنی کثیر المنافع، بہت سے فائدوں کا حامل۔

(64) یعنی جو کھلے میدان میں یا اونچی جگہ واقع ہو،جہاں صبح سے شام تک اس پر دھوپ پڑتی ہو۔ کسی آڑ میں نہ ہو کہ اس پر صرف صبح کی یا صرف شام کی دھوپ پڑے۔زیتون کے ایسے درخت کا تیل زیادہ لطیف ہوتا ہے اور زیادہ تیز روشنی دیتا ہے۔ محض شرقی یا محض غربی رُخ کے درخت نسبتاً غلیظ تیل دیتے ہیں اور چراغ میں ان کی روشنی ہلکی رہتی ہے۔

(65) اس تمثیل میں چراغ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو اور طاق سے کائنات کو تشبیہہ دی گئی ہے اور فانوس سے مراد وہ پردہ ہے، جس میں حضرتِ حق نے اپنے آپ کو نگاہِ خلق سے چھپا رکھا ہے۔ گویا یہ پردہ فی الحقیقت خفا کا نہیں، شدتِ ظہور کا پردہ ہے۔نگاہِ خلق جو اس کو دیکھنے سے عاجز ہے اُس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ درمیان میں تاریکی حائل ہے، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ درمیان کا پردہ شفاف ہے اور اس شفاف پردے سے گزر کر آنے والا نور ایسا شدید اور بسیط اور محیط ہے کہ محدود طاقت رکھنے والی بینائیاں اس کا ادراک کرنے سے عاجز رہ گئی ہیں۔ یہ کمزور بینائیاں صرف اُن محدود روشنیوں کا ادراک کر سکتی ہیں،جن کے اندر کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے، جو کبھی زائل ہوتی ہیں اور کبھی پیدا ہو جاتی ہیں،جن کے مقابلے میں کوئی تاریکی موجود ہوتی ہے اور اپنی ضد کے سامنے آ کر وہ نمایاں ہوتی ہیں، لیکن نورِ مطلق جس کا کوئی مدِمقابل نہیں، جو کبھی زائل نہیں ہوتا،جو سدا ایک ہی شان سے ہر طرف چھایا رہتا ہے،اس کا ادراک اِن کے بس سے باہرہے۔

رہا یہ مضمون کہ ”چراغ ایک ایسے درخت زیتون کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی“، تو یہ صرف چراغ کی روشنی کے کمال اور اس کی شدت کا تصور دِلانے کے لئے ہے۔قدیم زمانے میں زیادہ سے زیادہ روشنی روغن ِ زیتون کے چراغوں سے حاصل کی جاتی تھی اور ان میں روشن ترین چراغ وہ ہوتا تھا جو بلند اور کھلی جگہ کے درخت سے نکالے ہوئے تیل کا ہو۔ تمثیل میں اس مضمون کا مدعا یہ نہیں ہے کہ اللہ کی ذات، جسے چراغ سے تشبیہہ دی گئی ہے، کسی اور چیز سے طاقت حاصل کر رہی ہے، بلکہ مقصود یہ کہنا ہے کہ مثال میں معمولی چراغ نہیں،بلکہ اُس روشن ترین چراغ کا تصور کرو جو تمہارے مشاہدے میں آتا ہے،جس طرح ایسا چراغ سارے مکان کو جگمگا دیتا ہے اِسی طرح اللہ کی ذات نے ساری کائنات کا بقعہ _¿ نور بنا رکھا ہے۔

اور یہ جو فرمایا کہ ” اُس کا تیل آپ سے آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کونہ لگے“، اِس سے بھی چراغ کی روشنی کے زیادہ سے زیادہ تیز ہونے کا تصور دِلانا مقصود ہے،یعنی مثال میں اس انتہائی تیز روشنی کے چراغ کا تصور کرو، جس میں ایسا لطیف اور ایسا سخت اشتعال پذیر تیل پڑا ہُوا ہو۔ یہ تینوں چیزیں، یعنی زیتون اور اس کا غیر شرقی و غربی ہونا اور اس کے تیل کا آگ لگے بغیر ہی آپ سے آپ بھڑکا پڑنا، مستقل اجزائے تمثیل نہیں ہیں،بلکہ پہلے جزءتمثیل یعنی چراغ کے ضمنی متعلقات ہیں۔ اصل اجزائے تمثیل تین ہیں، چراغ، طاق اور فانوسِ شفاف۔

آیت کا یہ فقرہ بھی لائق توجہ ہے کہ ”اس کے نور کی مثال ایسی ہے“۔ اِس سے وہ غلط فہمی رفع ہو جاتی ہے جو اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے“ کے الفاظ سے کسی کو ہو سکتی تھی۔اس سے معلوم ہُوا کہ اللہ کو ”نور“ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ اس کی حقیقت ہی بس ”نور“ ہونا ہے۔حقیقت میں تو وہ ایک ذاتِ کامل و اکمل ہے، جو صاحب ِ علم، صاحب ِ قدرت، صاحب ِ حکمت غیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب ِ نور بھی ہے،لیکن خود اس کو نور محض اس کے کمالِ نورانیت کی وجہ سے کہا گیا ہے جیسے کسی کے کمالِ فیاضی کا حال بیان کرنے کے لئے اس کو خود فیض کہہ دیا جائے، یا اس کے کمالِ خوبصورتی کا وصف بیان کرنے کے لئے خود اِسی کو حسن کے لفظ سے تعبیر کر دیا جائے۔

(66) یعنی اگرچہ اللہ کا یہ نورِ مطلق سارے جہان کو منور کر رہا ہے،مگر اس کا ادراک ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔اس کے ادراک کی توفیق، اور اس کے فیض سے مستفیض ہونے کی نعمت اللہ ہی جس کو چاہتا ہے بخشتا ہے۔ ورنہ جس طرح اندھے کے لئے دن اور رات برابر ہیں،اُسی طرح بے بصیرت انسان کے لئے بجلی اور سورج اور چاند اور تاروں کی روشنی تو روشنی ہے،مگر اللہ کا نور اس کو سجھائی نہیںدیتا۔اِس پہلو سے اس بدنصیب کے لئے کائنات میں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔ آنکھوں کا اندھا اپنے پاس کی چیز نہیں دیکھ سکتا۔ یہاں تک کہ جب اس سے ٹکرا کر چوٹ کھا جاتا ہے،تب اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ چیز یہاں موجود تھی۔اِسی طرح بصیرت کا اندھا اُن حقیقتوں کو بھی نہیں دیکھ سکتا جو عین اُس کے پہلو میں اللہ کے نور سے جگمگا رہی ہوں۔اُسے ان کا پتہ صرف اُس وقت چلتا ہے جب وہ ان سے ٹکرا کر اپنی شامت میں گرفتار ہو چکا ہوتا ہے۔

final

مزید :

ایڈیشن 1 -