اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے!
غزہ میں انسانی بے حسی تاریخ کی بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ہر طرف چیخ پکار ہے،ہسپتال قبرستان بن چکے ہیں، خوراک ، ایندھن ،کھانے پینے کی اشیاء، بجلی ،پانی کچھ بھی نہیں ہے، اس پر مستزاد اسرائیل بے دردی سے نہتے فلسطینیوں پر بمباری کر رہا ہے اور امت مسلمہ سمیت مغربی ممالک کی بدترین خاموشی عالمی بے حسی کی بدترین مثالیں قائم کر رہی ہے۔گزشتہ دنوں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کے مشترکہ غیر معمولی ہنگامی سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ یہ اجلاس نہ صرف اسرائیل کے حق ِ دفاع کے دعوے بلکہ غزہ کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کے کسی بھی سیاسی حل کو مسترد کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ اسرائیلی قابض حکومت کی جارحیت اور غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے، صیہونی ریاست کو ہتھیاروں کی فروخت روکنے کے ساتھ ساتھ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔اجلاس میں اسرائیل کے جنگی جرائم اور غیرانسانی قتل عام کی بھی شدید مذمت کی گئی۔
سعودی عرب کی میزبانی میں مقبوضہ فلسطین کے علاقے غزہ کی صورت حال پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کا مشترکہ غیر معمولی ہنگامی سربراہی اجلاس ریاض میں ہوا جس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، فلسطین کے صدر محمود عباس، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان، امیرِ قطر، شام کے صدر بشار الاسد اور نگران وزیراعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ سمیت دیگر اسلامی ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس میں اسلامی ممالک کے سربراہان نے غزہ کی صورت حال پر تفصیلی گفتگو کی ،تاہم اسرائیل کے خلاف کسی قسم کے اقدام سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا ،اسرائیل اسلامی ممالک کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اگر اسرائیل اور امریکہ کو معمولی بھنک بھی پڑ گئی کہ اسلامی ممالک متحد ہو کر اسرائیل پر حملہ کر سکتے ہیں تو وہ فوری طور پر جنگ بندی پر راضی ہو جائے گا ،لیکن بدقسمتی ہے کہ امت مسلمہ روایتی بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ او آئی سی اجلاس کی سب سے اہم بات ایرانی صدرابراہیم رئیسی اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان پہلی بار ملاقات تھی، نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اسرائیل نے غزہ کو جہنم بنا دیا ہے، غزہ میں قتل ِ عام فوراً روک کر انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ 70 سال پہلے اقوام متحدہ نے اپنی منظور کردہ قرار داد کے ذریعے اِس مسئلے کو حل کرنے کا فیصلہ کیا تھا، ہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جنگ بندی کی کوششوں کو سراہتے ہیں، لیکن اس کا پائیدار حل ہر صورت میں ہونا چاہئے۔ دراصل الگ فلسطینی ریاست کا قیام ہی مسئلے کا واحد حل ہے، غزہ میں قتل ِ عام رکوانے کی ذمہ داری سلامتی کونسل کی ہے۔
انڈونیشیا کے صدر جوکوودودو کا کہنا تھا کہ اسرائیل سے عالمی قوانین کی پاسداری کا مطالبہ کرتے ہیں، انڈونیشیا مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل چاہتا ہے۔ اپنے خطاب میں فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا کہ اسرائیل کو اپنی فوج پر گھمنڈ ہے،وہ سمجھتا ہے کہ فلسطینیوں کو ختم کر دے گا، لیکن فلسطین کے عوام اسرائیل کی بدترین جارحیت کا بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں، اُن کا دل ہزاروں معصوم بچوں کے قتل عام پر بے حد افسردہ ہے، لیکن اِس سے بھی زیادہ افسوس عالمی برادری کی بے حسی پر ہے، غزہ سے انخلاءقبول نہیں، فلسطینیوں کی نسل کشی پر اسرائیلی افواج کو جنگی جرائم کی عدالت میں لایا جائے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے غزہ پر جنگ کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ غزہ کا قبضہ و محاصرہ اور اسرائیلی بستیاں ختم کی جائیں جبکہ انسانی امداد کی رسائی دی جائے، غزہ میں جرائم کا ذمہ دار اسرائیل ہے، یرغمالیوں کی رہائی چاہتے ہیں،جبکہ غزہ کی ناخوشگوار صورت حال پر مربوط اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی ریڈ لائن ہے اور اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، صہیونی فوج کو دہشت گرد قرار دیا جائے، غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنادیا گیا ہے، عالمی برادری سے سوال ہے کہ غزہ کے شہداءکا کیا قصور ہے، بچوں اور خواتین کا کیا قصور ہے؟ اسرائیل غزہ پر سات ایٹم بموں کے برابر بمباری کرچکا ہے اور امریکہ اس کا ساتھ دے رہا ہے، اسرائیل کو بڑے پیمانے پر جنگی ہتھیار اور رقوم فراہم کر رہا ہے، اسرائیلی جارحیت روکنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل بنانا ہو گا۔ ترکیہ کے صدر طیب اردوان کا کہنا تھا کہ پیرس میں چند افراد کے مرنے پر عالمی برادری متحد ہوگئی تھی، لیکن غزہ میں اسرائیلی بمباری اور اتنے بڑے قتل ِ عام پر مغرب اور دنیا بھر کی خاموشی شرم ناک ہے، اسرائیلی مظالم کبھی نہیں بھولیں گے۔ امیرِ قطر تمیم بن حمد الثانی کا کہنا تھا کہ دنیا اسرائیلی مظالم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، کیا اسرائیل ہر قانون سے بالاتر ہے؟ اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے کہا کہ مشکل صورت حال میں اپنے فلسطینی بھائیوں کی امداد اور مکمل حمایت جاری رکھیں گے۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کا کہنا تھا کہ عالمی برداری کو مسئلے کے حل کے لئے سیاسی اور سفارتی کردار ادا کرنا چاہئے۔ اردن کے شاہ عبداللہ دوم کا مزید کہنا تھا کہ جنگ بندی کے لئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے، دنیا کے کسی بھی مذہب میں معصوم شہریوں کا قتل عام سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا کہ وہ قیام امن کے لئے کی جانے والی تمام کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ نے کہا کہ معصوم فلسطینیوں کا قتل عام بند کیا جائے، غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کر کے اسرائیلی فوج غزہ کا محاصرہ ختم کرے۔
یاد رہے کہ عرب لیگ میں فلسطین، شام، الجزائر، تیونس، عراق، لبنان، کویت، قطر، عمان، لیبیا اور یمن کی طرف سے تجویز کیے گئے پانچ نکات پیش کئے گئے تھے کہ اسرائیل کو اسلحہ اور گولہ بارود کی فراہمی کے لئے عرب ممالک میں امریکی اور دیگر فوجی اڈوں کے استعمال کو روکا جائے، اسرائیل کے ساتھ عرب سفارتی، اقتصادی، سیکیورٹی اور فوجی تعلقات کو منجمد کیا جائے، جارحیت کے خلاف دباو_¿ ڈالنے کے لئے تیل اور عرب اقتصادی صلاحیتوں کا استعمال کیا جائے اور اسرائیلی سویلین پروازوں کو عرب فضائی حدود استعمال کرنے سے روکا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ عرب سربراہی اجلاس کا اسرائیلی جارحیت سے متعلق موقف نیویارک، واشنگٹن،برسلز، جنیوا، لندن اور پیرس تک پہنچانے کے لئے ایک عرب وزارتی کمیٹی تشکیل دی جائے جو اِن ممالک کا سفر کرے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف مذکورہ سخت اقدامات پر عرب ممالک میں عدم اتفاق رہا، چار ممالک نے مخالفت، جبکہ 11 ملکوں نے اِن کی حمایت کی۔او آئی سی اجلاس میں ایران نے اسرائیلی فوج کو ”دہشت گرد“ قرار دینے اور شام نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک کو تیل کی سپلائی روکنے کی تجویز بھی سامنے آئی، تاہم اِن تجاویز پر اتفاق نہیں ہو سکا۔اطلاعات کے مطابق اِن تجاویز کو مسترد کرنے والے ممالک میں سعودی عرب، مراکش، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے نام شامل ہیں۔
او آئی سی اور عرب لیگ کے اس مشترکہ اجلاس سے مسلم ا_±مہ کی بہت سی ا_±میدیں وابستہ تھیں جو بر نہ آ سکیں۔اب اعلامیہ سامنے آ چکا ہے اور تقسیم کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل کے خلاف سخت اقدامات کی تجاویز پر اتفاق نہیں ہو سکا، تاہم اِس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک کی طرف سے ایک مشترکہ اعلامیہ سامنے آ گیا ہے۔ اگر اِس طرح کی بیٹھک جاری رہی تو آنے والے وقت میں یہ تقسیم بھی ختم ہو سکتی ہے۔ اسرائیل کے خلاف سخت اقدامات کی مخالفت کرنے والے ممالک کے ساتھ بات چیت جاری رکھنی چاہئے اور انہیں اِس بات کا ادراک کرانے کی ضرورت ہے کہ یہ مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں ہے،بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اگر اسرائیل کے بڑھتے قدم روکے نہ گئے تو اس کا حوصلہ مزید بلند ہو گا اور کل کو کوئی بھی ملک اِس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔یہ گریٹر اسرائیل کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے۔
دنیا بھر کے کئی ممالک میں ملین مارچ ہو رہے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل کر اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز ا_±ٹھا رہے ہیں۔ گزشتہ جمعے کو لندن میں ہونے والا بے مثال مظاہرہ ہو یا امریکی صدر کے گھر کے باہر ہونے والا احتجاج، اسرائیل کی پشت پر کھڑے ممالک خصوصاً امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے اپنے اندر سے اُٹھنے والی آوازیں اور ہونے والے مظاہرے اِس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیلی مظالم کے خلاف عوامی نفرت بڑھتی جا رہی ہے، مستقبل قریب میں یہاں کے حکمرانوں کو عوام کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں بسنے والے انسان کسی بھی مذہب، رنگ و نسل کی تمیز اور فرق کے بغیر فلسطین پر ہونے والے ظلم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں،دنیا بھر میں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے اسے معاشی نقصان پہنچانے کی کوشش بھی جاری ہے،ہر باشعور شخص اپنے تئیں فلسطین کا ساتھ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔یہی جذبہ مسلم ممالک کے سربراہان کے دِل میں بھی جاگنا چاہئے،اِس وقت ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ تمام مفادات کو بالائے طاق رکھ کر فلسطین کے حق میں آواز اٹھائی جائے،اِس ظلم کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اگر چند دن کے لئے سخت فیصلے کرنے سے امن قائم ہونے کی ا_±مید پیدا ہو سکتی ہے تو ایسے اقدامات سے ہر گز گریز نہیں کرنا چاہئے۔ہر معصوم فلسطینی کی جان قیمتی ہے اور ان پر ہر دن بھاری ہے۔ ٭٭٭
٭٭٭