ساموگڑھ کی لڑائی میں اس بات کا فیصلہ ہو گیا کہ اگلا حکمران کون ہوگا!

  ساموگڑھ کی لڑائی میں اس بات کا فیصلہ ہو گیا کہ اگلا حکمران کون ہوگا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اپنے باپ کی وفات کی غلط خبر سن کر مراد نے دسمبر 1657ءمیں گجرات میں بطور بادشاہ، اپنی تخت نشینی کا اعلان کر دیا۔ اورنگزیب کے لئے مراد کی یہ حرکت کہ اس نے خود کو شہنشاہ ہند ڈکلیئر کر دیا تھا، اتنی خطرناک نہ تھی کہ جتنی مراد کی وہ مضبوط پوزیشن تھی کہ جو مغل ایمپائر کے سب سے زیادہ مالدار صوبے کا حاکم ہونے کی صورت میں تھی اور اس کی کمانڈ میں ہزاروں ٹروپس الگ تھے۔ ایسے میں اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو گجرات سے باہر نکالنے کی ایک ترکیب اورنگزیب کو سوجھی۔ اس نے مراد سے ایک ایسا وعدہ کیا جس کی تکمیل شاید اس کا کبھی منشاءنہ تھی۔ اس نے مراد کو کہا کہ دارا شکوہ اور شاہ شجاع کو شکست دینے کے بعد وہ مغل ایمپائر کا شمالی اور شمال مغربی حصہ مراد کے کنٹرول میں دے دے گا۔ ایک ہندوستانی مورخ ایشورداس لکھتا ہے کہ اورنگزیب نے مراد کو فارسی زبان کی ایک ضرب المثل بھی یاد دلائی جو یہ تھی کہ : ”اگر دو دل اکٹھے ہو جائیں تو وہ پہاڑ کو بھی چیر ڈالتے ہیں“۔ یہ جھانسا کام کر گیا اور مراد اپنی فوج کے ساتھ گجرات سے باہر نکل آیا۔ اپریل 1658ءمیں دھرمت (نزد اجین)کے مقام پر اورنگزیب اور مراد کی مشترکہ افواج نے شاہی افواج پر غلبہ حاصل کر لیا۔ان دونوں بھائیوں نے دھرمت کی اس لڑائی میں فتح یاب ہونے کے بعد دہلی کا رخ کیا تاکہ مغل ایمپائر کے قلب کو مسخر کیا جائے۔

اورنگزیب اور مراد کی مشترکہ افواج نے آگرہ کے مشرق میں دارا شکوہ کے 50000ٹروپس پر مشتمل لشکرِ جرّار کا سامنا کیااور مئی 1658ءمیں ساموگڑھ کی لڑائی میں اس بات کا فیصلہ ہو گیا کہ تختِ دہلی پر اگلا حکمران کون ہوگا۔ اس لڑائی کے آغاز سے ایک روز پہلے اورنگزیب نے اپنی اور مراد کی سپاہ کو مکمل آرام کرنے کا حکم دیا۔ مئی کا مہینہ تھا اور گرمی غضب کی تھی۔ دوسری طرف دارا کی سپاہ نے چلچلاتی دھوپ میں بکتربند لباس پہن کر حملہ آوروں کی یورش کا انتظار کیا۔ اس طرح دارا کی فوج کی قوتِ مدافعت بہت گھٹ گئی۔ بہت سے ٹروپس گرمی کی شدت کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو گئے، یعنی دشمن کے حملے کی ضرورت ہی باقی نہ رہی!

اگلے دن علی الصبح لڑائی کا آغاز ہوا۔ طرفین پوری طرح مسلح تھے۔ توپ خانہ، گھڑ سوار فوج ، تیر انداز، بکتر بند ہاتھی اور انفنٹری دستے دونوں طرفین کے پاس تھے۔اورنگزیب اور دارا شکوہ ایک ہاتھی پر سوار اپنی اپنی فوج کی کمانڈ کررہے تھے۔ دونوں افواج جان توڑ کر لڑ رہی تھیں۔ اٹھارہویں صدی کے ایک مورخ کے مطابق ’لڑائی کابے پناہ شور وغل (Din)میدانِ کارزار پر طاری تھا‘۔ جب دن ڈھلنے لگا تو اورنگزیب کی سپاہ نے ایک بہت زور دار ہلّہ بولا اور داراشکوہ کے ہاتھی پر چھوٹی توپوں اور راکٹوں کی بوچھاڑ کر دی۔ دارا نے جان بچانے کی کوشش کی، ہاتھی سے نیچے اترا اور گھوڑے پر سوار ہو کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ اس طرح اس نے اپنے پیچھے ایک غیر منظم اور بددل فوج چھوڑی جو بہت جلد تتر بتر ہو گئی۔

داراشکوہ بھاگ کر آگرہ پہنچا جہاں لال قلعہ میں شاہجہان بھی چھپ کے بیٹھا تھا ۔پھر دارا وہاں سے براستہ دہلی، لاہور بھاگ گیا۔ جب اورنگزیب اور مراد نے دیکھا کہ ان کا بڑا بھائی فرار ہو کر آگرہ کی طرف بھاگا جا رہا ہے تو انہوں نے بھی لال قلعہ کا رخ کیا اور اپنے والد سے نمٹنے کی ٹھانی جو اب مغل ایمپائر کا برائے نام شہنشاہ رہ گیا تھا۔

........................

شاہجہان نے اورنگزیب سے ملاقات کرنے کی کوشش کی۔ اسے قرآن کا وہ قصہ یاد دلایا جس میں حضرت یوسف کا ملاپ برسو ںکی جدائی کے بعد اپنے والد حضرت یعقوب سے ہو گیا تھا۔ بادشاہ نے چاپلوسی (Cajole) اور لجاجت سے کام لیتے ہوئے بیٹے کو منانے کی کوشش کی۔ لیکن اورنگزیب نے اس حیلہ گری کو بھانپ لیا اور ملنے سے انکار کر دیا۔ ملاقات کی بجائے یہ کیاکہ اوائل جون 1658ءمیں مراد سے مل کر قلعہ آگرہ کا محاصرہ کر لیا اور پانی کی سپلائی کاٹ دی۔ چند روز بعد شاہجہان نے قلعہ کے دروازے کھول دیئے اور اس میں موجود خزانہ اور اسلحہ خانہ اپنے سب سے چھوٹے دو بیٹوں (اورنگزیب اور مراد)کے سپرد کر دیا۔ پھر شاہ جہاں نے اپنی سب سے بڑی بیٹی جہاں آراءکو ایلچی بنا کر اورنگزیب کے پاس بھیجا اور اسے یقین دلانے کی آخری کوشش کی۔ پیغام یہ بھیجا کہ سلطنت کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ تین حصے تینوں بھائیوں کے قبضے میں دے دیئے جائیں، چوتھا حصہ اورنگزیب کے بڑے بیٹے محمد سلطان (متوفی 1676ئ) کو دے دیا جائے اور پانچواں خود شاہجہان کے پاس رہے۔ امرائے سلطنت میں جو لوگ شاہجہان کے سپورٹر تھے انہوں نے یہ منصوبہ مان لینے میں دیر نہ لگائی۔ لیکن اورنگزیب کی مکمل فتح اور شہزادے کی کامیابی تو قلعہ آگرہ کے محاصرے سے پہلے ہی مکمل ہو چکی تھی۔ چنانچہ اس کو اس نئے معاہدے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اس کے بعد چند ہی ہفتے گزرے ہوں گے کہ اورنگزیب اور مراد کے درمیان کشیدگی کے آثار پیدا ہونے لگے۔ مراد نے اپنے سولجرز کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا اور انہیں عاجل (Rapid) ترقیوں کی نوید بھی سنا دی۔ اس نے اورنگزیب کے بعض ٹروپس کو بھی اس جال میں پھنسانے کی سعی کی تاکہ وہ وفاداریاں تبدیل کرلیں۔اورنگزیب نے مراد کو یہ تجویز بھی دی کہ دارا شکوہ کا تعاقب کیا جائے لیکن مراد اس پر بھی آمادہ نہ ہوا۔ وہ اورنگزیب سے ملاقات کرنے میں بھی لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر اورنگزیب نے فیصلہ کیا کہ اب مراد کی مزید ضرورت باقی نہیں رہی!

اورنگزیب نے اپنی بیماری کا بہانہ بنایا اور 1658ءکے موسم گرما میں مراد سے ایک نجی ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ مراد راضی ہو گیا۔ کھانا کھانے کے بعد مراد نے کچھ دیر تک آرام کرنے کا تقاضا کیا اور اپنے ذاتی ہتھیار جسم سے الگ کرکے رکھ دیئے اور اس طرح اپنے آپ کو غیر مسلح کر لیا۔ اس داستان کے بعض حصوں میں یہ تذکرہ بھی کیا جاتا ہے کہ مراد نے شراب بھی پی اور جسم دبانے والی ایک خوبرو کنیز (Masseuse) کو کہا کہ اس کی ”مٹھی چاپی“ کی جائے۔ (دریں اثناءاورنگزیب سنجیدہ ہو کر الگ بیٹھا رہا) جلد ہی نوجوان شہزادے کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور وہ گہری نیند سو گیا۔ اورنگزیب نے موقع غنیمت جانا اور اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ مراد کو گرفتار کر لیا جائے اور اسے پابندِ سلاسل بھی کر دیا جائے۔ اس کے بعد اورنگزیب نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے چھوٹے بھائی کی فوج جو 20000لشکریوں پر مشتمل تھی اس کو نہتا کر دیا۔

........................

ہندوستان کا بادشاہ

جب کوئی جشن اس طرح منایا جائے کہ جیسے بہشت معلوم ہو تو آسمان بھی اٹھ کر رقص کرنے لگتے ہیں۔

....اورنگزیب کی پہلی تاجپوشی پر اٹھارہویں صدی کے ایک مورخ خافی خان کا تبصرہ

جب مراد کو جیل بھیج دیا گیا، شاہجہان نظر بند کر دیا گیا اور دارا شکوہ مفرور ہو کر مارا مارا پھرنے لگا تو اورنگزیب نے کچھ دیر توقف کے بعد اپنی تاجپوشی کا اعلان کر دیا۔ اورنگزیب کی تاجپوشی دوبار کی گئی۔ یہ پہلی تاجپوشی 31جولائی 1658ءکو کی گئی۔ جوتشیوں نے حساب کتاب لگا کر اس تقریب کے لئے یہ روزِ سعید (Propitious)طے کیا تھا۔ تاجپوشی کی رسومات دہلی کے شالامار باغ میں ادا کی گئیں اور اورنگزیب نے خود اپنا لقب ”عالمگیر“ رکھا جس کا لغوی معنی ہے ”دنیا کو گھیرنے والا“....

مغل رواج کے مطابق اورنگزیب نے بینڈ باجے اور موسیقاروں کو گانے بجانے کی اجازت بھی دے دی اور لوگوں میں تحفے تحائف بھی تقسیم کئے۔لیکن نہ تو اپنے نام کے سکے ڈھالے اور نہ جمعہ کی نماز میں اپنے نام کا خطبہ پڑھنے کی روایت کا اعادہ کیا۔ یہ تقریب اگرچہ دورانیے کے اعتبار سے زیادہ طویل نہ تھی لیکن یہ اورنگزیب کے طویل دور کا آغاز ثابت ہوئی۔ اس پہلی تاجپوشی کی قلمی تصاویر جو چند سال بعد پینٹ کی گئیں، اس تقریب کی سادگی اور تمکنت (Momentousness) کی عکاس ہیں۔ اس تصویر میں اورنگزیب ابھی جوان نظر آتا ہے، اس کی داڑھی سیاہ ہے اور وہ زمین پر سجدہ ریز ہے۔ ایک اور قلمی تصویر میں بھی شہنشاہ کی نمایاں ناک اور اس کے جسم (جِلد) کا زیتونی رنگ اور نقوشِ رخ جو ایک اور درباری پینٹر نے پینٹ کئے، وہ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس پینٹنگ میں وہ سیدھا بیٹھا ہوا ہے۔ بعد کی تصاویر میں اس کے جھکے ہوئے کاندھوں کو جو دکھایا جاتا ہے وہ اس امیج میں نظر نہیں آتے۔ لیکن اس تصویر کے شاہد صرف دولوگ تھے۔ یہ بات اس تقریبِ تاجپوشی کے زمانی اختصار کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ اس پینٹنگ میں ایک اور بات بھی نمایاں ہے۔ ایک متحدہ مغل سلطنت کی خوش حالی اور فارغ البالی کی شعاعِ امید کالی گھٹاﺅں کو کو چیرتی ہوئی آسمان سے زمین پر جلوہ فگن ہو رہی ہے اور اورنگزیب کی تاجپوشی کو گویا افلاکی قبولیت عطا کر رہی ہے۔

....................

اپنی اس پہلی تاجپوشی کے بعد اورنگزیب اپنے دو مفرور بھائیوں، داراشکوہ اور شاہ شجاع کو بے اثر کرنے کی طرف متوجہ ہوا۔

کئی ماہ تک اورنگزیب نے دارا کا تعاقب کیا۔ اپنے بڑے بھائی کا پہلے لاہور میں، پھر ملتان میں اور پھر دریائے سندھ کے کناروں پر جنوبی سمت میں جگہ جگہ اس کا پیچھا کیا۔ پکڑے جانے کے خوف سے دارا شکوہ اپنی گھٹتی ہوئی فوجی نفری کو دشوار گزار قطعاتِ اراضی، گھنے جنگلوں اور بے آب و گیاہ بیابانوں کی طرف لے جاتا رہا اور آخر کار گجرات میں جا رکا۔درایں اثناءاس کے بہت سے حمائتی اس کا ساتھ چھوڑ گئے یا مشکل سفروں کی وجہ سے دم توڑ گئے۔آخر ستمبر 1658ءکے اواخر میں اورنگزیب نے دارا کے تعاقب سے ہاتھ کھینچ لیا اور اپنے چند وفادار افسروں کو اس کی گرفتاری پر مامور کرکے واپس دہلی چلا گیا تاکہ شاہ شجاع سے دو دو ہاتھ کر سکے۔

شاہ شجاع نے پچھلے ایک برس سے اپنے آپ کو ’مصروفِ کار‘ کر رکھا تھا۔ 1657ءمیں جب اس نے شاہجہان کی بیماری کی خبر سنی تھی تو اپنے آپ کو بادشاہِ ہندوستان ڈکلیئر کر دیا تھا اور اپنے نام کے ساتھ بہت سے نمائشی القابات بھی اضافہ کر لئے تھے مثلاً.... ابوالفوذ (فتح کا باپ)، نصرالدین (دین کا دفاع کنندہ)، محمد تیمور سوئم، اسکندر دوئم، شاہ شجاع ، بہادر، غازی.... لیکن شاہ شجاع کے ہندوستان پر حکمرانی کرنے کے یہ خواب چند روزہ ثابت ہوئے۔فروری 1658ءمیں ساموگڑھ کی لڑائی (مئی 1658ئ) سے پہلے کہ جس میں اورنگزیب اور مراد کی مشترکہ افواج نے دارا کو لاہور بھاگ جانے پر مجبور کر دیا تھا، شاہ شجاع نے داراشکوہ کی ایک فوج سے لڑائی مول لی تھی جو دارا کے بڑے بیٹے سلیمان شکوہ کے زیرِ کمانڈ تھی۔ یہ لڑائی بنارس کے نواح میں لڑی گئی جس میں شاہ شجاع کو منہ کی کھانا پڑی تھی۔

یہ لڑائی البتہ نہائت خونریز تھی۔ بعض رپورٹوں کے مطابق میدانِ کارزار میں اتنا خون خرابہ ہوا تھا کہ زمین لالہ رنگ ہو گئی تھی۔ مئی 1658ءمیں اورنگزیب نے شجاع کو ایک خط لکھا جس میں وعدہ کیا کہ اورنگزیب کی ایمپائر میں، اس کے مشرقی حصے (بنگال) کا انتظامی کنٹرول شجاع کو دے دیا جائے گا بشرطیکہ شجاع مزید کشت و خون سے ہاتھ روک لے۔ شجاع نے نہائت حقارت سے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور جنگ کی تیاریاں کرنے لگا۔

جنوری 1659ءمیں خاجوا (Khajwa) کے مقام پر اورنگزیب کا مقابلہ شاہ شجاع سے ہوا۔(یہ جگہ الٰہ آباد کے قرب و جوار میں واقع ہے)۔ اس کے باوجود کہ جسونت سنگھ جو ایک راجپوت سردار تھا اور شاہجہان کا وفادار کمانڈر تھا وہ اورنگزیب کی فوج کو چھوڑ کر شاہ شجاع سے جا ملا تھا، پھر بھی اورنگزیب کی فوج تعداد میں شجاع کی فوج سے دگنی تھی۔ تاہم یہ لڑائی بہت شدید تھی اور گھمسان کا رن پڑ رہا تھا۔ ان لمحات میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اورنگزیب نے اپنے اس ہاتھی کی دونوں ٹانگوں کو پابہ زنجیر کرنے کاحکم دیا جس پر وہ سوار تھا۔ خدشہ پیدا ہوچلا تھا کہ یہ ہاتھی شوروغل سن کر کہیں پیچھے کی طرف نہ بھاگ کھڑا ہو ....تاہم اورنگزیب کی پامردی اوراستقلال نے ٹروپس کو میدان جنگ میں جم کر لڑنے کا حوصلہ دیا اور اس طرح شاہ شجاع کے لشکرکو شکست دے دی اور وہ میدان سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اورنگزیب کی آرمی نے اس کاتعاقب کیا اور ڈیڑھ سال تک اس کو آگے لگائے رکھا حتیٰ کہ وہ ہندوستان کی سرحد عبور کر گیا۔ مئی 1660ءمیں شا ہ شجاع اپنے افرادِ خانہ کے ہمراہ کشتیوں پر سوار ہو کر ڈھاکہ سے برما چلا گیا جہاں اراکان (Arakan) کے حکمران نے اس مغل شہزادے کو اس خدشہ کے پیش نظر قتل کر دیا کہ وہ کہیں اس کے آدمیوں کو ساتھ ملا کر اورنگزیب کا مقابلہ کرنے برما سے نکل کر ہندوستان جا پہنچے( اس سانحہءقتل کی واقعاتی شہادت دھند میں لپٹی ہوئی ہے)

اورنگزیب جب خاجوا سے واپس دہلی گیا تو تخت نشینی کی اس جنگ کی آخری لڑائی، مارچ 1659ءکے تین دنوں میں لڑی گئی۔ داراشکوہ کے زیرکمانڈ 20,000 ٹروپس تھے (جن میں زیادہ تر گجرات سے بھرتی کئے گئے تھے) دارا نے خندقیں کھدوا کر سپاہ کو ان میں صف بند کر دیا۔یہ جگہ اجمیر شہر کے باہر پہاڑیوں کے ایک سلسلہ کے طور پر دارا کی دفاعی جنگ کا گویا قلب لشکر تھی۔ دارا کی یہ فوج اگرچہ اورنگزیب کی فوج سے تعداد میں کم تھی لیکن دارا کویقین تھا کہ ٹیرین کی دشوار گزاری ،دفاعی دیواریں اور خندقیں اس کمی کا مداوا ثابت ہوں گی۔ اورنگزیب نے جنگ کا آغاز توپخانے کی بوچھاڑ (Barrage) سے کیا۔ یہ سلسلہ دو دن تک جاری رہا اور یہ تمام علاقہ سیاہ دھوئیں کی گہری گرد میں چھپ گیا۔ اورنگزیب کے ایک درباری مورخ نے لکھا ہے: ”سیاہ بارود کا دھواں میدانِ جنگ پر اس طرح مسلط تھا جیسے کالی گھٹائیں امڈ آتی ہیں اور ان میں جب توپوں کے گولے فائر ہوتے تھے تو لگتا تھا سیاہ بادلوں میں آسمانی بجلی کے کوندے لپک رہے ہیں۔ یہ چمک اتنی تیز اور آنکھوں کو چندھیا دینے والی تھی کہ جیسے کسی جادوگر نے جادو کے ہیرے اور پتھر (Stones) دھوئیں میں بکھیر دیئے ہوں ۔“شاہی فورسز کا بیشتر حصہ تو سامنائی حملے (Frontal Attacks) کرتا رہا جبکہ ایک دستہ چپکے سے عقب میں جا گھسا۔ اس ایکشن نے لڑائی کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔ دارا عقب میں بیٹھا لڑائی کا احوال دیکھ رہا تھا۔ اس نے جب بازی ہرتی ہوئی دیکھی تو ایک دفعہ پھر جان بچا کر بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔

دارا شکوہ تین ماہ تک اِدھر اُدھر بھاگتا رہا اور اس کے بعد ایک افغان سردار کے ہاں جا کر پناہ کا طالب ہوا۔اس کا نام ملک جیون تھا۔ یہ وہی سردار تھا جس کی جان کئی برس پہلے دارا نے اپنے باپ شاہجہان کے غیض و غضب سے بچائی تھی۔ لیکن ملک جیون نے کوئی لمحہ ضائع نہ کیا اور دارا کو گرفتار کرکے اورنگزیب کے قیدی کی حیثیت سے دہلی روانہ کر دیا۔(جاری ہے)

مزید :

ایڈیشن 1 -