بابل کے شہرہ آفاق معلق باغات!  دنیا کے سات قدیم عجائبات میں دوسرے نمبر پر شمار ہوتے ہیں 

بابل کے شہرہ آفاق معلق باغات!  دنیا کے سات قدیم عجائبات میں دوسرے نمبر پر ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بابل کے شہرہ _¿ آفاق معلق باغات بخت نصر نے اپنی ایک ملکہ کے لیے لگوائے تھے۔ حقیقتاً یہ معلق نہیں تھے بلکہ ایک ایسی جگہ لگائے گئے تھے جو درجہ بہ درجہ بلند ہوتی ہوئی ساڑھے تین سو فٹ تک پہنچ گئی تھی۔ بنوکد نضر یا بخت نصر نے بابل میں کلدانی سلطنت کا احیا ءکیا تھا۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں اس بادشاہ نے بابل میں ایسی تعمیرات کا اہتمام کیا جن سے یہ شہر بابل قدیم اور نینویٰ دونوں پر سبقت لے گیا۔بخت نصر کے عہد میں شہر بابل 15 مربع میل پر محیط تھا۔ اس شہر کے گرد فصیل تعمیر کی گئی تھی۔ شہر کے عین وسط سے دریائے فرات گزرتا تھا۔ بابل کے زوال کے ساتھ ساتھ یہ معلق باغات بھی ختم ہو گئے، مگر آج بھی یہ دنیائے قدیم کے سات عجائبات میں شمار کیے جاتے ہیں۔بابل کے معلق باغات دنیا کے سات قدیم عجائبات میں دوسرے نمبر پر شمار ہوتے ہیں۔ یہ وہ واحد عجوبہ ہے جس کا اصل مقام ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا - چھٹی صدی قبل مسیح میں بنو کد نضر ( بخت نضر) کے عہد میں بابل ( عراق ) میں کلدائی سلطنت کا احیاءہوا تو اس نے اپنی ملکہ آمیتہ کے لئے یہ عظیم الشان باغات تعمیر کرائے جس نے اپنے وطن کے سبزہ زار اور حسین وادیاں کھودی تھیں۔ 

یہ باغات بابل (عراق) کے شہر میں واقع تھے ۔یہ شاہی باغ کے طور پر استعمال ہوتے تھے ۔ان باغات کی اونچائی 80 فٹ تھی جو حقیقتاً معلق نہیں تھے بلکہ ایسی جگہ لگائے گئے تھے جو درجہ بدرجہ بلند ہوتی ہوئی ساڑھے تین سو فٹ تک پہنچ گئی تھیں۔ ان درجوں کی تعمیر میں اس اَمر کا خیال رکھا گیا تھا کہ زمین ایسی ہو کہ درختوں کی نشوونما میں کمی آئے نہ ہی پانی کی زائد مقدار نچلے درجوں میں جا کر دیگر باغات کو خراب کرے۔ بابلی متون میں ان باغات کا کوئی لمبا چوڑا ذکر موجود نہیں اور نہ ہی آثارِ قدیمہ کے پاس ان باغات کا کوئی حتمی ثبوت موجود ہے۔ شواہد کی کمی کی وجہ سے اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ یہ باغات مکمل طور پر افسانوی تھے۔اگر یہ باغات حقیقت میں موجود تھے تو پہلی صدی عیسوی کے کچھ عرصہ بعد ہی تباہ ہو گئے تھے۔ بابل شہر کے کھنڈرات بھی موجودہ عراق میں واقع ہیں۔ اس کی بنیاد 4000 سال قبل دریائے فرات پر ایک چھوٹی سی بندرگاہ والے شہر کی حیثیت میں رکھی گئی تھی۔ یہ ہمورابی کے دور ِحکومت میں قدیم دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک تھا۔ یہ سلطنت خلیج فارس سے لے کر بحیرہ _¿روم تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس عرصے کے دوران ، بابل خوبصورت اور شاہانہ عمارتوں کا مرکز بنا۔ 

بابل کا قصبہ موجودہ عراق میں دریائے فرات کے ساتھ واقع تھا ، جو بغداد سے تقریباً 50 میل جنوب میں ہے۔ بابل اموریوں کے بادشاہ کے ماتحت ایک بڑی فوجی طاقت بنا، ہمورابی نے 1792 سے 1750 بی سی تک حکمرانی کی۔ ہمورابی پڑوسی شہروں کی ریاستوں کو فتح کرنے کے بعد ، جنوبی اور وسطی میسوپوٹیمیا کا بیشتر حصہ ایک ساتھ متحدہ بابل کے اقتدار میں لایا۔اس نے ایک سلطنت بابلونیا کی تشکیل کی۔ ہمورابی نے بابل کو ایک امیر ، طاقتور اور بااثر شہر میں تبدیل کردیا۔ اس نے دنیا کا ایک قدیم ترین اور مکمل لکھا ہوا قانونی کوڈ تشکیل دیا، جس نے بابل کو خطے کے دوسرے شہروں سے آگے نکلنے میں مدد دی۔ ہمورابی کی موت کے بعد یہ سلطنت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی اور کئی صدیوں تک ایک چھوٹی مملکت میں واپس آ گئی، بعد ازاں 612 بی سی میں نینویہ میں اسوریوں کو شکست دی جس کے بعد یہ دنیا کی سب سے طاقتور ریاست بن گئی۔نو بابل کی سلطنت قریب مشرق میں ثقافتی نشاةِ ثانیہ کا دور تھا۔ بابل کے باشندوں نے بادشاہ کے دور میں بہت ساری خوبصورت اور پروقار عمارتیں تعمیر کیں۔انہوں نے بابلی سلطنت کے مجسمے اور فن پارے بھی محفوظ رکھے تھے۔ نو بابل کی سلطنت بھی بابلونیا کی طرح قلیل المدت تھی۔ 539 بی سی میں ، اس کے قیام کے بعد ایک صدی سے بھی کم وقت میں افسانوی فارسی شاہ بادشاہ سائرس نے بابل کو فتح کیا۔ جب یہ سلطنت فارسی کے زیر اقتدار آئی تو بابل کا زوال مکمل ہوگیا۔

یہودیوں کی تاریخ کے مطابق چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کی بادشاہی یہوداہ کی فتح کے بعد ، بنو کد نضر دوم نے ہزاروں یہودیوں کو یروشلم شہر سے گرفتار کیا اور نصف صدی سے زیادہ عرصے تک انہیں بابل میں قید رکھا۔ نو بابل کی سلطنت سائرس اعظم کے پارسیائی فوج کے خاتمے کے بعد بہت سے یہودی یروشلم واپس آ گئے۔ کچھ نے یہیں پر قیام کیا اور کچھ یہودی 2000 سے زیادہ سال تک وہاں پر رہے اور معاشرے کی ترقی میں حصہ لیا۔1950ءکی دہائی میں یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد بہت سے یہودی یہاں منتقل ہو گئے۔بابل کی سلطنت خاص طور پر دارالحکومت بابل میں فن اور فنِ تعمیر کو ترقی ملی جو اپنی ناقابلِ تسخیر دیواروں کے لئے بھی مشہور ہے۔ اس کے متعلق مشہور ہے کہ ہمورابی نے پہلے شہر کو دیواروں سے گھیر لیا۔یونانی مو_¿رخ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے کہ بابل کی دیواریں اتنی موٹی تھیں کہ ان کے اوپر رتھوں کی دوڑیں لگائی جاتی تھیں۔دیواروں کے اندر شہر 200 مربع میل کے رقبے پر قائم تھا جو آج کل شکاگو کا حجم ہے۔بنو کد نضر دوم نے تین بڑے محل تعمیر کیے جن میں سے ہر ایک نیلی اور پیلے رنگ کی چمکیلی ٹائلوں سے سجا ہوا تھا۔ اس نے متعدد مساجد بھی تعمیر کرائیں۔

 ایک روایت کے مطابق بابل کے باغات بنوکدنضر نے اپنی ملکہ آمیتہ کے لئے تعمیر کروائے تھے۔وہ ایران کے بادشاہ کیاکسارہ کی بیٹی تھی اور پہاڑی علاقے ہمدان کی رہنے والی تھی۔ ہمدان کے پہاڑی نظاروں سے اسے قدرتی نسبت تھی۔بابل ہر چند کہ بہت خوبصورت تھا لیکن یہاں پہاڑ نہیں تھے۔ اس لئے آمیتہ کچھ اداس رہتی تھی۔بادشاہ نے جب اداسی کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ بابل میں وہ سر سبز پہاڑی نشیب و فراز نہیں جو میرے وطن میں تھے۔یہاں ہر طرف میدان ہی میدان نظر آتے ہیں۔یہ میدانی سطح دیکھتے دیکھتے اکتا گئی ہوں دل چاہتا ہے کہ اس سر زمین میں پہاڑ بھی ہوں۔ میدانی علاقے کو پہاڑی علاقے میں ڈھالنا تو ممکن نہیں تھا۔بنوکد نضر چاہتا تھا کہ ملکہ کی آرزو پوری ہو۔اس نے اپنے ملک کے اعلیٰ دماغوں کو ملکہ کی خواہش سے آگاہ کیا، لیکن سوچنے کی بات یہ تھی کہ اگر یہاں پہاڑ ہوتے تو ان کو کاٹ کر سبزہ زار بنائے جا سکتے تھے، لیکن میدانی علاقے میں پہاڑ بنے تو کیونکر؟اونچی اونچی چوٹیاں ان پر مہکتے پھول پودے اور بلند و بالا باغات کہاں سے آئیں؟ وہ سب حیران تھے۔ان میں سے ایک دانشمند بولا: ”ہماری قدیم کتابوں میں درج ہے کہ بابل میں بڑی بڑی چیزیں بنیں گی۔پہاڑ پر جنگل اُگیں گے اور چشمے بھی پھوٹیں گے“۔کچھ باتیں تو بادشاہ کی سمجھ میں آئیں لیکن پہاڑ کا مسئلہ بہت دشوار تھا۔ایک پروہت بولا کہ پہاڑ بنانا بھی ممکن ہے۔اس کی تدبیر یہ ہے کہ اونچی اونچی محرابیں بنائی جائیں ، ان محرابوں پر چھت ڈالی جائے پھر اس چھت پر چاروں طرف جگہ چھوڑ کر اورمحرابیں بنائی جائیں۔ان محرابوں پر بھی چھت ڈالی جائے۔اسی طرح اور محرابیں بنائی جائیں اور چھتیں ڈالی جائیں۔اس سلسلے کو اتنا اونچا لے جائیں کہ دُور سے پہاڑ نظر آئے۔

بادشاہ کو تجویز پسند آئی۔ اس منصوبے پرفوراً کام شروع کر دیا گیا۔ محرابوں کو مضبوط بنانے کے لئے ان میں سیسہ پگھلا کر ڈالا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ بوجھ سہار سکیں پھر ان چھتوں کی رشوں پر ایشیا، بھر سے پھول پودے لا کر لگائے گئے۔ یہ چھتیں تین سو پچاس فٹ اونچی اور چار سو فٹ لمبی تھیں۔ چھتوں کے نیچے محرابوں کے اندر آرام گاہیں تھیں۔ ان میں نہایت خوبصورت اورچمک دار رنگوں سے نقش ونگار بنائے گئے اور آرام و آسائش کے تمام سامان مہیا کیے گئے۔ محرابوں کے اوپر ہری ہری بیلیں چڑھائی گئیں اور ایک چھت سے دوسری چھت پرجانے کے لیے ایسی چھوٹی چھوٹی سیڑھیاں اور روشیں بنائی گئیں جیسے پہاڑ کاٹ کر پہاڑ پر راستے بنائے جاتے ہیں۔ اس طرح مصنوعی پہاڑ بھی بن گیا، درخت بھی اُگ آئے ، چمن زار کھل گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ باغوں کو سیراب کیسے کیا جائے ؟ان باغو ں کوسیراب کرنے کا طریقہ بھی بڑا دلچسپ تھا۔ سب سے اوپرکی چھت پر ایک بہت بڑا تالاب بنایا گیا۔ اس تالاب میں نلوں کے ذریعے دریائے فرات کا پانی بھرا جاتا تھا۔ پمپ مسلسل دن رات چلتے تھے اور پانی کی مقدار میں کمی نہیں آنے دی جاتی تھی۔اس طرح تالاب کے پانی سے چشمے بہتے تھے اور فوارے چھوٹتے تھے۔ باغ انہی چشموں سے سیراب ہوتا تھا۔ ان باغوں کے اونچے اونچے درخت جب ہوا کے جھونکوں سے ہلتے تو یوں محسوس ہونے لگتا جیسے پہاڑ کا پہاڑ ہل رہا ہے۔یہ نظارہ ایسا دلکش تھا کہ دیکھنے والے کو محسوس ہوتا تھا کہ آسمان سے سدا بہار باغات کو آویزاں کر کے زمین کی سطح تک پہنچا دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے یہ باغات باہل کے معلق یا آویزاں باغات کہلاتے تھے۔ فن ِتعمیر کا یہ عظیم نمونہ قدیم دنیاکے ہفت عجائبات میں شمار ہونے لگا۔ بابل کے معلق باغات تو زمانے کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے ،لیکن ان کے کھنڈارت اب بھی موجود ہیں۔

٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -