”کبھی کسی سے محبت کی؟“وہ لمحہ بھر کیلئے خاموش ہوئی، آنکھیں میچ لیں، آنکھیں ٹشو پیپر سے پونچھتے ہوئے بولی”آپ نے کیوں ماضی یاد دلا دیا“

 ”کبھی کسی سے محبت کی؟“وہ لمحہ بھر کیلئے خاموش ہوئی، آنکھیں میچ لیں، آنکھیں ...
 ”کبھی کسی سے محبت کی؟“وہ لمحہ بھر کیلئے خاموش ہوئی، آنکھیں میچ لیں، آنکھیں ٹشو پیپر سے پونچھتے ہوئے بولی”آپ نے کیوں ماضی یاد دلا دیا“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف:شہزاد احمد حمید
 قسط:192
سڑک پر دوڑتی جیپ اگلی منزل کو رواں ہے۔چٹیل زمین اور سوکھی جھاڑیاں تیزی سے سڑک کے ساتھ دوڑتی پیچھے رہتی جا رہی ہیں اور ہم آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔
 میں نے نین سے پوچھا؛”کبھی کسی سے محبت کی؟“وہ لمحہ بھر کے لئے خاموش ہوئی۔ آنکھیں میچ لیں۔ مجھے اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں موتی نظر آئے۔ٹشو پیپر سے آنکھیں پونچھتے ہوئے بولی؛”آپ نے کیوں مجھے ماضی یاد دلا دیا ہے۔جو لمحات میں دل و دماغ کی یاد سے بھولنا چاہتی ہوں آپ یاد کیوں کرا دیتے ہو جی۔“ مجھے اس کی آواز کی چبھن محسوس ہوئی اور کہا؛”چلو رہنے دو دکھ کو کیا یاد کرنا۔مجھے پوچھنا ہی نہیں چاہیے تھا۔“وہ کہنے لگی؛”دکھ یاد کرنے اور بانٹنے سے کم ہوتا ہے۔سنو! وہ جوانی کے دن تھے۔ یونیورسٹی کے آخری سال میں تھی جب وہ مجھے ملا تھا۔ اکثرڈیپارٹمنٹ کے گیٹ پر کھڑا میرا انتظار کرتا رہتا تھا۔شروع میں تو میں نے توجہ نہ دی۔ پھر مجھے لگا مرے دل میں اس  کے لئے نرم گوشہ ہے۔ میں شاید اسے چاہنے لگی تھی۔ جلد ہی یہ چاہت محبت میں بدل گئی۔ قسمیں کھائیں، وعدے کئے۔ شادی ہوئی اس سے میری۔ بڑی چاہتوں اور محبتوں سے گھر بسایا۔ اللہ نے اولاد بھی دی۔ مگر ایک روز پتہ چلا اس کے معاشقے باہر ہیں۔دل ٹوٹ گیا۔ سوچا روز روز کڑھنے سے کیا فائدہ۔ ماں باپ کے گھر چلی آئی بچوں سمیت۔ اسے باہر کی چکا چوند نے اندھا کر دیا تھا اور مجھے اس کی محبت نے۔ میری محبت ہار گئی۔ روز روز رونے سے بہتر تھا کہ ایک بار رو لوں۔ سو ایسا ہی کیا ہے۔ میں مطمئن ہوں مگر اُسے شاید اب بڑا پچھتاوہ ہے۔بے وفا کا اپنا دل ٹوٹا تو وہ میری گلی میں آیا، خوب آنسو بہائے لیکن میرے دل میں اس کی محبت پھر نہ جاگ سکی۔ تب تک میرا محبت سے اور شاید خود سے بھی بھروسہ اٹھ گیا تھا۔ کسی بے قدرے شخص سے کی جانے والی محبت آپ کو ساری زندگی کے لئے ذہنی مریض بنا دیتی ہے۔ لمحوں کی خامو شی کے بعد وہ بولی؛”محبت میں تین چیزوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے؛ روٹھنا، منانا اور مان جانا۔ اس میں آخری یعنی مان جانا سب سے اہم ہے۔“
 بقول شور ش کاشمیری”عورت کی فطرت میں فولاد کی سختی، چٹان کی پختگی، سمندر کا اضطراب، شبنم کی لوچ، چاند کی چاندنی ہوتی ہے۔ وہ زندگی میں صرف ایک بار محبت کرتی ہے اور اس کے لئے جان تک قربان کر دیتی ہے۔اس کے بعد بھی کرتی ہے لیکن اس لئے نہیں کہ زندگی گزارے بلکہ اس لئے کہ زندگی اُسے گزار دے۔“ 
وہ بولے چلی جا رہی ہے؛”محبت ہمیں کمزور بنا دیتی ہے اور کبھی کبھی محبت میں ہم ایسے لوگوں کو بھی معاف کر دیتے ہیں جو خود ہمارے لئے مشکل اور مصیبت کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس جنگل نما دنیا کا بس یہی قانون بنتا جا رہا ہے۔مار دیا جائے یا ہار دیا جائے۔میں بھی مرنے مارنے پر تل گئی تھی پھراللہ کاایک نیک بندہ مل گیا اور میں سیدھی راہ پر آ گئی۔ آج آپ نے پوچھ لیا تو وہ بھولا زخم پھر رس پڑا ہے۔چلو سامنے باغ میں چلتے ہیں، دھی پاڑی کھاتے ہیں۔“ہم چلتے رہے اور بھوک بڑھتی رہی۔ وہ بولتی رہی؛ ”تمھاری محبت بھری نظر مجھے راحت دینے کے لئے کافی ہے۔ تمھارے لئے میرا پیار پہاڑوں سے اونچا اور سمندر سے گہرا ہے۔ جب کبھی بھی میں مشکل میں ہوتی ہوں تو تمھارا تصور ہی مجھے راحت، طاقت اور حوصلہ دیتا ہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اتنی خوش قسمت ہوں گی کہ آپ جیسے شخص کی محبت میں گرفتار ہوجاؤں گی۔ شاید عرصے سے مجھے آپ کی ہی تلاش تھی۔“ میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا ہے مضبوطی سے۔ ہاں خواجہ فرید ؒ کی کافی کا ایک شعر یاد آ گیا؛
دریا  برہوں  تار  بر  ہے
 ہر  موج  آدم  خور  ہے
نہ یار نہ اردو ہے۔۔
اوکھیں اڑاڑیں آ اڑی
  ترجمہ؛  ”عشق کا دریا گہرا، اونچا اور بپھرا ہے۔ ہر موج آدم خور ہے۔ نہ کوئی ساحل اور نہ وہ ساحل ہے۔“  ) جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -