فیصل آباد،گوجرانوالہ میں، ہائی کورٹ بینچز ضروری 

Nov 19, 2024

مقبول احمد قریشی، ایڈووکیٹ

 عام لوگوں کو، اپنی زندگی کے دوران،مسائل اور تنازعات کے حل کے لئے، جلد اور سستے انصاف کے حصول میں، تاحال بعض علاقوں میں   کوئی قابل ذکر ریلیف،دستیاب نہیں ہے۔ اس امر پر بھی، وفاقی اور پنجاب حکومتوں کو، فوری توجہ دے کر، عملی کاروائی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 

اس ضمن میں فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں ہائی کورٹ بینچز کے قیام کا مطالبہ، گزشتہ تین دہائیوں سے پڑھنے اور سننے میں آ رہا ہے۔ مقدمات میں ملوث لوگوں کی اکثریت کے علاوہ ان علاقوں کے وکلاء صاحبان بھی، ذاتی لحاظ سے متاثر ہونے کی بنا، پر احتجاج کے طور پر، ہفتہ کے دو دنوں میں عدالتوں میں، پیش نہ ہونے کی ہڑتال بھی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کاروائی سے نقصان، مقدمات باز لوگوں اور وکلاء کا بھی ہوتا ہے۔ یوں مقدمات کی پیش رفت کم ہونے سے، حتمی فیصلوں میں، تاخیر ہوتی ہے۔ حکومتی وزراء اور اعلیٰ وضلعی عدالتوں کے جج صاحبان، اس بات کا تذکرہ کر کے، وکلاء کو ہڑتال سے اجتناب کرنے کی گاہے بگاہے تلقین اور اپیل بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جب تک، اس جائز مطالبہ پر عمل درآمد نہ کیا جائے تو ظاہر ہے کہ متعلقہ علاقوں کے لوگوں کی مشکلات میں کمی نہیں آ سکے گی، کیونکہ انہیں اپنے لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمات کی پیروی کے لئے وہاں کی متعلقہ عدالتوں میں جانا پڑتا ہے جو فیصل آباد اور گوجرانوالہ ڈویژن کے کم و بیش چار کروڑ لوگوں کو محض چند دنوں کے وقفوں کے بعد عدالتوں میں پیش ہونا ضروری ہوتا ہے۔ 

گزشتہ چند سال سے ملک بھر میں اشیائے ضرورت اور دیگر سہولتوں کے بارے میں خاصی مصنوعی مہنگائی کے اثرات کے باعث مقدمات میں عدالتوں کی سماعت کے لئے ان علاقوں سے لاہور جانے کے اخراجات بھی کافی بڑھ گئے ہیں۔ جو بیشتر افراد بمشکل ادا کر سکتے ہیں،کیونکہ وطن عزیز میں کوئی 80 فیصد لوگ،غربت اور مفلسی کے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ متعلقہ عدالتوں کی کاز لسٹوں میں اکثر اوقات 100سے 150 فریقین کو ایک دن کی تاریخ میں پیش ہونا مطلوب ہوتا ہے۔ نیز 50سے 100 میل یا زائد فاصلوں سے آنے والے حضرات و خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ یا ذاتی گاڑیوں میں عدالتوں میں بروقت پہنچنے کی بھی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ چار سے چھ سات گھنٹوں کی آمدورفت سے ان لوگوں کو جسمانی مشقت، تھکاوٹ اور ذہنی کوفت سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے۔جو ان کی صحت پر بھی منفی اثرات ڈالنے کا سبب بنتا ہے۔زیادہ مقدمات کی بنا پر ایک دن میں متعلقہ جج صاحبان بہت کم تعداد میں فریقین یا ان کے وکلاء کے دلائل اور بحث کی سماعت کر سکتے ہیں۔یوں 80 فیصد سے زائد مقدمات کو آئندہ تاریخوں پر التواء میں ڈالنے کی کاروائی، وقوع پذیر ہوتی ہے کیونکہ زیادہ مقدمات ہونے کی بنا پر ایک دن میں محض چند فریقین کو سماعت کا وقت دینا ہی ممکن ہوتا ہے۔ 

مذکورہ بالا حقائق سے متعلقہ حکومتیں اور اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان، بخوبی آگاہ ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز بھی عوامی مشکلات حل کرنے کے بارے میں جلد اقدامات کی بابت آئے روز، ذرائع ابلاغ میں بڑے واضح الفاظ میں بیانات جاری کرتے ہیں۔ جو بلا شبہ ایک مثبت اور قابل قدر، لائحہ عمل ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو جلد اور سستا انصاف فراہم کرنے کے لئے فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں لاہور ہائی کورٹ کے تحت جلد الگ بینچز قائم کئے جائیں۔ 

مزیدخبریں