مخالفین کا گروہ بن گیا جو بھٹو کا شدید مخالف تھا، سب پی این اے میں اکٹھے ہو گئے۔ بھٹو 1977ء کا الیکشن جیتنے کے باوجود بے اثر ہو گئے، مذاکرات کو طویل کر دیا گیا

Nov 19, 2024 | 10:56 PM

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:89
دوسری طرف بنگلہ دیش میں دوبارہ عام انتخابات کرائے گئے اور شیخ مجیب الرحمن دوبارہ منتخب ہو کر بنگلہ دیش کے وزیراعظم بن گئے۔
پاکستان میں جنرل یحییٰ خان نے ایوب خان کے بعد فوجی حکومت بنائی تھی تو اُن کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ جس کا فیصلہ جسٹس حمود الرحمن چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اس وقت کیا جب یحییٰ خان اقتدار میں نہیں تھے۔
مسٹر جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں فاضل سپریم کورٹ نے جنرل یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا کہ انہیں 1962ء کا آئین توڑنے اور فوجی حکومت قائم کرنے کا کوئی اختیار نہ تھا۔ فاضل عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس سے قبل دوسو (Dosso) کیس میں جو اصول طے کیا گیا تھا وہ غلط تھا اور آئندہ کے حکمرانوں کو متنبہ کیا کہ اگر انہوں نے حکومت میں آنے کا یہ راستہ اختیار کیا تو وہ بھی غاصب قرار پائیں گے جس سے سپریم کورٹ کا جوڈیشل ریویو کا دائرہ وسیع ہو گیا۔ اگر یہ فیصلہ جنرل یحییٰ خان کے اقتدار کے دوران سامنے آتا تو یقینا پاکستان کے عوام کے لئے یہ ایک انقلابی فیصلہ قرار پاتا مگر عدلیہ نے جنرل یحییٰ کے ساڑھے تین برس اقتدار کے عرصہ میں فیصلہ کرنے کی بجائے ان کی معزولی کے بعد یہ فیصلہ صادر فرمایا۔
بھٹو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کے حامل تھے۔ اُنہیں عدلیہ کے یہ وسیع اختیارات پسند نہیں تھے یا شاید وہ سمجھتے ہوں کہ اس سے اُن کے کام میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ انہوں نے آئین میں پانچویں اور ساتویں ترامیم بھی کیں۔ چھٹی ترمیم قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی ایک متفقہ ترمیم تھی۔ اگرچہ بھٹو 21 دسمبر 1971ء کو اقتدار میں آئے تھے مگر آئین ساز اسمبلی میں آئین منظور ہو جانے کے بعد اُن کا سیاسی اقتدار شمار کیا جاتا ہے۔ اس دوران بھٹو صاحب نے مسلم ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس بھی لاہور میں منعقد کی۔ جس میں بنگلہ دیش کے شیخ مجیب الرحمن بھی شامل ہوئے اور اس موقع پر پاکستان اور بیشتر مسلمان ممالک نے بنگلہ دیش کو ایک خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کر لیا اور پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سفارتی تعلقات کا رشتہ بھی قائم ہو گیا۔ پاکستان میں سیاسی حلقوں کی ایک موثر تعداد اس کی مخالف تھی۔ جن کا مؤقف تھا کہ بنگلہ دیش کو مشرقی پاکستان ہی سمجھا جائے جو کہ جدید سیاسی دنیا میں اب ممکن نہیں رہا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو سیاسی دُنیا کے ایک مؤثر اور قابل ذکر لیڈر تھے۔ اُن کے خلاف پاکستان میں ایک بہت طاقتور طبقہ متحد و منظم تھا جس میں بھٹو دور میں بدعنوانی کے الزام میں نکالے گئے ہزاروں سرکاری ملازم ہزاروں ایسے صنعت کار اور چھوٹے چھوٹے کارخانوں اور صنعتوں کے مالک، کھڈیوں کے مالک، چاول چھڑنے کی مشینوں کے مالک۔ یہ سب لوگ متحد ہو گئے تھے اور دینی جماعتوں کے لیڈر بھٹو کے برائے نام اسلامی سوشلزم کی مخالفت کے نام پر کھڑے تھے۔ اور تو اور بھٹو مرحوم نے خود اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض اہم لیڈروں مثلاً ملک غلام مصطفی کھر، محمد حنیف رامے، معراج محمد خان، جے اے رحیم، مختار رانا اور بے شمار دیگر کو پارٹی سے نکال دیا اور قید و بند میں ڈال دیا۔ بعض کو آزاد کشمیر میں نظر بند کیا۔ پٹھان اور بلوچ لیڈروں کے خلاف بھی سخت اقدامات کئے گئے تھے۔ یہ سب کچھ مل جل کر بہت بڑا مخالفین کا گروہ بن گیا جو بھٹو کا شدید مخالف تھا۔ یہ سب مفتی محمود کی زیر صدارت پی این اے کی صورت میں اکٹھے ہو گئے۔ بھٹو 1977ء کا الیکشن جیتنے کے باوجود بے اثر ہو گئے۔ انہوں نے اپوزیشن پارٹیوں سے مذاکرات شروع کئے۔ جنہیں بے جا حد تک طویل کر دیا گیا۔ اس دوران بھٹو صاحب کے اپنے ہاتھوں سے چنے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ بھٹو اور دیگر لوگوں کو قید کر دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے آئین کو ختم نہیں کیا بلکہ اسے تعطل میں ڈال دیا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں