بلاول بھٹو یا زرداری؟؟؟
کراچی میں مزار قائد کے بالکل ساتھ واقع جناح باغ میں پیپلز پارٹی کے جلسے میں پاکستان میں ایک سیاسی قائد کی پیدائش ہوئی ہے، یقیناً یہ سارا ماجرا دیکھ کر قائد اعظم محمد علی جناح کی روح ضرور تڑپی ہو گی کیونکہ یہ تقریب اس نوپیدا قائد کی ’سیاسی زندگی ‘کے آغاز سے زیادہ اس کی شہید والدہ کے ترکے کی تقسیم کی تقریب لگ رہی تھی۔ پہلے تو ’سیاسی چربہ اور قانون سازی‘ سے ایک زرداری کو بھٹو بنایا گیا تا کہ اس کو ’بھٹو خاندان‘ کا حقیقی سیاسی جانشین ثابت کیا جا سکے اور پھر ملک بھر میں حکومتی مشینری کا استعمال کر کے ، مفت ٹرینیں اور بسیں چلا کر لوگوں کو اکٹھا کیا گیا تاکہ لوگوں کو عملی مظاہرہ کر کے دکھایا جا سکے کہ ایک زرداری واقعی ’بھٹو‘ بن چکا ہے لہذاٰ اس کا حق حکمرانی تسلیم کیا جائے۔ اس سے قبل بھی مختلف موقعوں پر بلاول زرداری کی ’تصوراتی تشبیہہ‘میں ذوالفقار علی بھٹو کے رنگ بھرنے کے لئے کبھی تو اس کو پرجوش انداز میں تقاریر کرنے کو کہا گیااور کبھی اسے سیلاب متاثرین سے ملاقات کے لئے ’سیلابی پانی‘ میں اتر جانے کے امتحان سے گزارا گیالیکن صورتحال یہ ہے کہ بلاول آج بھی اردو پڑھنے سے قاصر اور ’رومن اردو‘ کے محتاج ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں لبرل روایات کو پروان چڑھانے کی دعوے دار جماعت نے خاندانی سیاست کو ایک’ لڑکے ‘کے ہی سپرد کر کے یہ ثابت کر دیا آج بھی ’سیاست کرنا تو صرف مردوں کا ہی حق ہے‘ ۔ حالانکہ حق حکمرانی میں ’جنس‘کو نظر انداز کیا جائے تو یہ حق بے نظیر بھٹو کی سب سے بڑی اولاد کو حاصل ہونا چاہئے مگر عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دلوانے کی داعی پیپلز پارٹی میں کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ پیپلز پارٹی کی وراثتی منتقلی کی حقدار ایک ’لڑکی‘ ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حقوق نسواں کی باتیں تو بس ’باتیں‘ ہی ہیں اور ویسے بھی یہ بات الگ ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی نے ہی اپنے باپ کی سیاسی جماعت کو پروان چڑھایا تھا مگر ’بیٹی‘ ہونے کی وجہ سے سیاسی جماعت بھٹو خاندان سے اصول وراثت کے تحت ’زرداری‘ خاندان میں چلی گئی ہے لیکن اب آصف زرداری نے ’بیٹے ‘ کو مسند پر بٹھا کر اس بات کو یقینی بنا دیا ہے اب یہ’ دولت‘ زرداری خاندان میں ہی رہے گی۔ اس طرح آصف زرداری نے کم از کم یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ ان کے اندر ’جاگیردارانہ‘ خصوصیات آج بھی موجود ہیں ۔
بلاول زرداری کو جب ’بھٹو‘ بنا کر متعارف کروایا گیا تواس سیاسی قائد نے براہ راست میڈیا سے بات چیت کرنے یا کسی بھی سیاسی مباحثے میں حصہ لینے کی بجائے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر ڈیرہ جمائے رکھا حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو کے عوای ربطوں کو تو آج بھی ان کے سیاسی مخالفین داد تحسین سے نوازتے ہیں مگر بلاول نے طالبان کو ’للکارنا‘ ہو یاکسی کو ’بزدل خان‘ کہنا ہو انہیں ہمیشہ ٹوئٹر کا ہی سہارا لینا پڑا۔ بلاول کے مطابق شاید ٹوئٹر پر طالبان کو للکارنا بہادری ہو مگر ’بھٹو کا وارث‘ بننے کے لئے تو جان کو لاحق خطرات کے باوجود بغیر ’بلٹ پروف‘ شیشے کے براہ راست عوام کے نعروں کا جواب دینا پڑتا ہے پھر چاہے کسی گولی کا نشانہ ہی کیوں نہ بننا پڑے۔ مگر بلاول کی طرف سے سانحہ کارساز کے شہداء کے لئے کی جانے والی ’فضائی فاتحہ خوانی‘ تو پوری دنیا نے دیکھی لیکن یہ بات الگ ہے کہ وہ دوسروں کو تو بزدل خان ہی کہتے ہیں۔
اپنی ڈیڑھ گھنٹہ طویل تقریر (جس کو اگر بلاول خود تحریر کرتے تو یقین جانیں ان کی اردو ہی ختم ہو جاتی)کے دوران بلاول زرداری المعروف بلاول بھٹو زرداری نے اسلا م آباد میں دھرنے دے کر بیٹھے ہوئے لوگوں کو ’کٹھ پتلیاں‘ قرار دے کر کہا کہ وہ کسی ’تھرڈایمپائر‘ کی انگلیوں پر ناچ رہے ہیں مگر یہ بات کرتے ہوئے شاید وہ ’قومی مفاہمتی آرڈیننس‘ نامی شے کو بھول گئے جو ایک نہیں دو دو ’تھرڈ ایمپائروں‘ کے اشاروں پر طے پایا تھا اور پھر جنرل پرویز مشرف کے ر یفرنڈم میں شرکت پر نالاں ہوتے وقت ان کو 1999 ء میں بے نظیر بھٹو کا بی بی سی کو دیا گیا وہ انٹر ویو بھی یاد نہیں رہا جس میں انہوں نے جنرل مشرف کا شکریہ ادا کیا تھاکہ ’شریف‘کرپٹ حکومت کا خاتمہ کیا ۔ ویسے چند ماہ قبل بھی محترمہ شہلا رضا کا کہنا یہ تھا کہ امریکہ نے ہمیں2007 ء میں یقین دہانی کروائی تھی کہ اب تین انتخابات تک پاکستان میں مارشل لاء نہیں لگے گالیکن اب یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اردو سے نا آشنا بلاول کو معلوم ہی نہ پڑا ہو کہ ’کٹھ پتلی‘ کہتے کس کو ہیں۔ انہوں نے میاں نواز شریف سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ناکامی کی وجہ ان کی ’بادشاہت‘ ہے تو ان کو اس بات کا بھی ذکر کر ہی دینا چاہئے تھا کہ کونسی طرز جمہوریت کے تحت ان کی اپنی پارٹی ایک نام نہاد ’وصیت‘ پر ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہو گئی تھی؟یا کس طرح محض نام میں ’بھٹو‘ کا اضافہ کر کے وہ ذولفقار علی بھٹوکے وارث بن بیٹھے ہیں؟
ٹوئٹر کے ذریعے میڈیا کی توجہ حاصل کرنے والے بلاول ’بھٹو‘ زردری اپنی تقریر سے قبل بھی ٹویٹر پر ہی مصروف نظر آئے اورانہوں نے جلسہ گاہ میں لگنے والے لمحہ بہ لمحہ نعروں کا جواب دینے کی بجائے ٹوئٹر پر ’پر زور نعرے‘بلند کئے اور ساتھ ہی ہر ’روایتی برگر‘ کی طرح ڈائس پر کھڑے ہو کر اپنی ’سیلفی‘ بھی لی۔گویا دشمنوں کو للکارناہو، میڈیا کو کسی واقعے پر ردعمل دینا ہو یا کسی سیاسی مخالف کو لتاڑنا ہو ، یہاں تک نعرے بھی لگانے ہوں تو بلاول کو ٹوئٹر کی ہی سوجھتی ہے مگر جس وقت وہ تقریر کر رہے تھے اس دوران وہ ٹوئٹر پر ہی سامنے آنے والے رد عمل کوبھی دیکھ لیتے تو ان کو اپنے سیاسی مستقبل کی کچھ جھلک ضرورر دکھائی دیتی کیونکہ اس وقت ٹویٹر کے ٹاپ ٹرینڈز کچھ یوں تھے:۔