اک نظر ادھر بھی
پرانے وقتوں میں ایک کہانی سنا کرتے تھے کہ ایک شخص جنگل سے گزررہا تھا تو اس کا پالتو بندر پیاس سے بے حال ہورہا تھا اس کے آقا کو ترس آیا اور اس نے درخت سے ناریل توڑ کر اس درخت پر پھوڑا جس کے نیچے بندر تھا اور اس کا پانی بندر کو پلایا۔ بندر کی جان میں جان آئی وہ اپنے آقا کے اس احسان کا بدلہ چکانے کی فکر میں تھا۔ خدا کی کرنی بندر اور اس کے آقا چلتے چلتے تھک گئے آقا درخت تلے لیٹ کر سوگیا، بندر کیا دیکھتا ہے کہ ایک مکھی آقا کو تنگ کررہی ہے اور بار بار ماتھے پر آکر بیٹھتی ہے۔ بندر نے اینٹ اٹھائی اور مکھی کو دے ماری، مکھی تو اُڑ گئی ،لیکن آقا خونم خون ہوگیا۔
یہی آج کل ہمارے تعلیمی نظام کے ساتھ ہورہا ہے۔ حکومتیں جب عوام کو معیاری تعلیمی درسگاہیں دینے میں ناکام رہیں تو نجی شعبہ سامنے آیا اور چند عشروں میں گھاس پھوس کی طرح ہر طرف سکول نظر آنے لگے۔ ظاہر ہے یہ سکول کاروباری نقطہ نظر سے قائم کئے گئے، لیکن ایک فائدہ تو ہوا کہ تعلیم سب کو دستیاب ہوگئی۔ اب یہ آپ کی جیب پر منحصر ہے کہ آپ بچے کو کتنی فیس والے سکول میں داخل کرواتے ہیں۔ کوئی زور زبردستی نہیں بلکہ فیصلہ والدین نے خود کرنا ہے۔ حکومت تو مجرمانہ حد تک غافل رہی اور ایک نصاب اور قواعد تک مرتب نہ کرسکی۔ ان سکولوں میں سے بعض کی کارکردگی قابل رشک رہی اور ان کے طلبانے بیرون ملک کی جامعات کے امتحانات میں (کیمبرج اولیول، اے لیول) میں دنیا بھر اور خطے میں پوزیشنیں لے کر مُلک و قوم کا سر فخر سے بلند کیا اور دنیا بھر کی جامعات میں یہ پاکستانی طلبا نمایاں کارکردگی دکھارہے ہیں۔ ظاہر ہے اس میں کچھ ہاتھ ان نجی تعلیمی اداروں کا بھی ہے۔ ان اساتذہ کا بھی ہے جو رشوت، سفارش نہ ہونے اور ملازمتوں پر طویل پابندی کے باعث نجی تعلیمی اداروں میں آئے اور شب و روز محنت سے یہ چراغ روشن کئے۔ ’’ہمارا لہو بھی شامل ہے تزئین گلستان میں‘‘، لیکن حکومت کی نظر میں ان لاکھوں اساتذہ کی حیثیت سوتیلی اولاد کی سی ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں حکومت سرکاری اساتذہ کو 10 تا 15 فیصد اضافہ تو ہر بجٹ میں دیتی ہے، جن کی کارکردگی سے مایوس ہوکر والدین نجی تعلیمی اداروں کا رُخ کرتے ہیں، لیکن نجی اداروں کے اساتذہ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ کاش ان کا بھی کوئی پرسان حال ہوتا،جب گورنمنٹ اساتذہ پرچے چیک کرنے اور امتحانات پر ممتحن کی ڈیوٹیاں لگوا کر جیبیں بھر رہے ہوتے ہیں، نجی سکولوں کے اساتذہ یہی کام اپنے اداروں کے لئے مفت کررہے ہوتے ہیں۔ ان کی چھٹیاں مختصر اور اوقات کار طویل ہوتے ہیں۔ حالیہ دِنوں میں جو فیسوں کا غلغلہ بلند ہوا اور مٹھی بھر بااثر والدین کی خوشنودی کے لئے حکومت نے احمق بندر والا کام کیا، یعنی اپنے ہی آقا کا سر پھوڑ دیا۔ فیسوں کے اضافے میں فوری واپسی کا نوٹیفکیشن جاری کرکے واہ واہ تو کروا لی، لیکن یہ نہ سوچا کہ اس کا نزلہ بچارے نجی سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہوں پر گرے گا۔ مُلک میں یہ رواج ہے کہ پٹرول مہنگا ہو تو سبزی تک مہنگی ہو جاتی ہے، یعنی ہر کوئی خسارہ عوام پر ڈالتا ہے۔ یہی حال نجی تعلیمی اداروں کا ہوگا۔ وہ اپنے منافع کو کم نہیں کریں گے، بلکہ اساتذہ کی تنخواہوں میں سالانہ اضافہ نہیں کریں گے نتیجتاً مجبور اساتذہ پڑھائیں گے، تو لیکن بے دلی کے ساتھ، ان کی سال بھر کی امید ختم ہوجائے گی، ان کو ملازمت جبری مشقت لگے گی اور نتیجتاً ان کی کارکردگی بھی سرکاری سکولوں کے اساتذہ جیسی ہو جائے گی۔
گدھے گھوڑے میں فرق ہونا چاہئے، حکومت کو سکولوں کو سہولیات کے حوالے سے اور اساتذہ کی تعلیم اور قابلیت کے حوالے سے مختلف گروہوں میں بانٹنا چاہئے اور اس کے مطابق فیس کا حق ہونا چاہئے۔ اگر ایک سکول پانچ مرلے میں میٹرک پاس اساتذہ اور ایک ایک پنکھے کے ساتھ موجود ہے، وہ دس بارہ ہزار تنخواہ دیتا ہے توا سے جنریٹر، اے سی، لائبریر، سائنس اور کمپیوٹر لیب سے آراستہ، سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ ایم اے ایم فل اساتذہ والے سکول جتنی فیس لینے کا حق نہیں ہونا چاہئے۔ قدغن ضرور لگائیں، لیکن لاکھوں نجی سکولوں کے اساتذہ کا معاشی قتل مت کریں، وہ بھی پاکستانی ہیں اور ٹیکس دیتے ہیں۔ سوچنا چاہئے کہ کہیں عجلت میں کیا گیا فیصلہ بندر کے آقا کی طرح قوم کے محسن اساتذہ کا معاشی قتل کرنے کا باعث نہ ہو۔