مسلم لیگ کا دردِسر
لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ 122کا ضمنی انتخاب گزر گیا مگر اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گیا اور بہت سے سبق بھی، سوالات کے جوابات بھی تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ(ن) ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو دینا ہوں گے اور اسباق بھی ان تینوں کو لینا ہوں گے۔ تحریک انصاف کو کیا سوچنا ہے؟ کیا سبق حاصل کرنا ہے؟ اس بارے میں اس کے چیئر مین عمران خان نے اپنے تئیس کہہ دیا ہے کہ انہوں نے سیکھ لیا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے انتخابی دھاندلیوں سے متعلق حربے ان کے علم سے باہر تھے اور آئندہ حکمتِ عملی کے طور پر وہ ان حربوں کو زیادہ کامیابی سے ناکام بنانے کی کوشش کریں گے۔
اصولی بات تو یہ ہے کہ 11اکتوبر کو حلقہ این اے 122میں ہونے والی پولنگ کے نتائج کو فراخ دلی سے تسلیم کر لیا جائے تا ہم عمران خان کا یہ احساس بجا ہو سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف سے بہت سینئر جماعت ہے اور وہ انتخابات لڑنا اور جیتنا جانتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک بھی بہت بڑا ہے جو اس کے قائدین کے طویل عرصہ سے میدانِ سیاست خصوصاً اقتدار میں ہونے کا پھل ہے۔ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کا نہ تو تنظیمی ڈھانچہ ابھی تک مکمل ہو سکا ہے نہ ووٹر ابھی پوری طرح اس کی طرف مائل ہو سکے ہیں اور نہ ہی اس کی قیادت سیاست کے وہ داؤ پیج سیکھ سکی ہے جو دیگر جماعتوں کے قائدین کا خاصا ہیں جن میں میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن خاص طور پر شامل ہیں۔ یہ تینوں اپنی سیاسی جادوگری کسی بھی وقت دکھا سکتے ہیں اور انہوں نے عام طور پر گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کیا، یہ جادوگری عمران خان بھی جب سیکھ جائیں گے تو انہیں یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ وہ انتخابی دھاندلی کے متعلق مسلم لیگ (ن) کے حربے نہیں سمجھ سکے۔
حلقہ این اے 122میں مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق کی کامیابی کے اسباب کو سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ انتخابی دھاندلی یا انتخابی بے ضابطگیوں کی وجہ سے قومی اسمبلی میں اپنی نشست برقرار نہیں رکھ سکے تھے جو کہ ایوان میں سب سے بڑی نشست ہے یعنی سپیکر کی کرسی۔ مسلم لیگ(ن) نے عدالتی لڑائی لڑنے کی بجائے عوام سے مینڈیٹ کی تجدید کو مناسب سمجھا اس لیے اس کے پاس سیاسی ساکھ بچانے کی غرض سے سر دھڑکی بازی لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، اسی وجہ سے اس نے حلقہ این اے 122پر پوری توجہ دی۔ سعد رفیق، عابد شیر علی، ماروی میمن اور طلال چودھری کی کمک بھی حاصل کی جبکہ جلسوں اور ریلیوں کو کامیاب بنانے کے لیے صرف اسی حلقے کے کارکنوں پر انحصار کرنے کی بجائے پورے لاہور سے اپنے حامیوں کو اکٹھا کیا، سیاسی لحاظ سے یہ کوئی بُری بات نہیں لیکن اس سے تحریک انصاف کے مقابلے کے حوالے سے مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں کے اندر چھپا خوف ضرور ظاہر ہوا۔
اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف ایک جونیئر جماعت ہے مگر اس نے ملک کی سب سے بڑی جماعت کو للکار کر عوام کو متبادل قیات مہیا کی ہے جو کہ اس وقت پیپلز پارٹی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی تو اگلے برسوں میں نہ اقتدار میں آتی معلوم ہوتی ہے اور نہ اسے اپوزیشن کی قیادت نصیب ہوتی نظر آتی ہے۔ لاہور کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے جس طرح ڈٹ کر مسلم لیگ(ن) کا مقابلہ کیا ہے اس سے اس کی قیادت کا حوصلہ بڑھا ہے۔ عمران خان اپنے حریف سردار ایاز صادق کے مقابلے میں عبدالعلیم خان کو لائے جس کی وجہ سے مقابلہ یکطرفہ نہیں رہ سکا اور مسلم لیگ(ن) کو سارا دن دھڑکا لگا رہا کہ کہیں ایاز صادق ہار نہ جائیں، عبدالعلیم خان نے انہیں ٹف ٹائم دیا اور مسلم لیگی امیدوار کوئی زیادہ برتری حاصل نہیں کر سکے، آجا کے اپنا احترام اور نشست بچانے میں کامیاب ہو سکے۔مسلم لیگ(ن) کی قیادت سوچے گی کہ اسے حاصل کیا ہوا؟ اپنے گڑھ لاہور میں تحریک انصاف کے امیدوار پر محض دو ہزار چار سو تینتالیس ووٹوں کی برتری؟
ضمنی انتخابات کے حوالے سے اور اس کے بعد کے دنوں میں عمران خان نے مسلم لیگ(ن) کی قیادت پر پے درپے الزامات عائد کیے جبکہ حکومتی نمائندے دفاع کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ظاہرہے الزام لگانا آسان اور اس کا جواب دینا یا دفاع کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس طرح تحریک انصاف حکومت اور مسلم لیگ(ن) کے لیے دردِ سربن گئی ہے اور نواز شریف کی ساری توجہ اور پالیسیوں کا مرکز اب پیپلز پارٹی کی بجائے تحریک انصاف ہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین کا حالیہ دنوں میں بلاول بھٹو زرداری یا آصف علی زرداری کے خلاف کوئی بیان پڑھنے سننے کو نہیں ملا، ان کی توپوں کا رخ عمران خان ہی کی طرف ہے۔ اس طرح تحریک انصاف اصل اپوزیشن محسوس ہوتی ہے، پیپلز پارٹی ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہی۔
لاہور کے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے بیرسٹر عامر حسن کو قومی اسمبلی کی نشست کے لئے ٹکٹ دیا، اعتزاز احسن اور دیگر رہنماؤں نے ان کی انتخابی مہم میں جلسے بھی کیے لیکن نتائج نے ثابت کر دیا کہ پیپلز پارٹی کاووٹر تحریک انصاف کی طرف جا چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھلے وقتوں میں پیپلز پارٹی کو اپنی نظریاتی حلیف قرار دیتی رہی ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت نے سیاسی مصلحت کے تحت نواز شریف کے اس نقطۂ نظر کو قبول کیا مگر پیپلز پارٹی کے کارکن اس غیر حقیقی فلسفے کو نہیں مانے اور اپنی پارٹی کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ(ن) کی طرف جانے کی بجائے تحریک انصاف کے کیمپ میں چلے گئے۔ ایسا نہ ہوتا تو بیرسٹر عامر حسن کی پوزیشن چھٹی ساتویں تو نہ آتی ، وہ مقابلے کی دوڑ میں تو ہوتے، یہ دوڑ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے درمیان رہی، اس وقت تو سردار ایاز صادق معمولی برتری سے جیت گئے مگر ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کا کوئی امید وار کبھی انہیں جا لینے میں کامیاب ہو جائے۔