بھارت میں کام مانگنے والوں کو شرم کرنی چاہئے

بھارت میں کام مانگنے والوں کو شرم کرنی چاہئے
 بھارت میں کام مانگنے والوں کو شرم کرنی چاہئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک طرف کیبل سے بھارتی چینل ختم کر دیئے گئے ہیں۔جواب میں بھارت میں بھی کیبل نیٹ ورک سے پاکستانی چینل بند کر دئے گئے ہیں ۔ دوسری طرف یہ دہائی کہ پاکستانی اداکاروں کو بھارت میں کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے۔ یہ کیسی دہائی ہے کہ بھارت اپنی فلموں میں پاکستانی فنکاروں کو کام نہیں کر نے دے رہا۔ ہم کیوں یہ چاہتے ہیں کہ بھارت کی فلم اور شو بز انڈسٹری پاکستانی فنکاروں کوکام کرنے دے، یہ کیسا احتجاج ہے ؟


سوال یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ایسے فنکاروں کی خود کیوں مذمت کرنے کو تیار نہیں جو بھارت کے اس جنگی جنون کے بعد بھی بھارت میں کام کرنے کے خواہاں ہیں۔ یہ کیسے پاکستانی ہیں جو اس وقت بھی بھارت سے کام کی بھیک مانگ رہے ہیں ۔ کیا ہمیں ایسے فنکاروں کی مذمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔


یہ درست ہے کہ اس قدر جنگی جنون کے ماحول میں بھی بھارت میں چند آوازیں پاکستان اور پاکستانی فنکاروں کے حق میں اٹھ رہی ہیں اور ہمارے ملک کا میڈیا ان چند آوازوں کو بطور ہیرو پیش کر رہا ہے۔ ہم ان لوگوں کو بھارت کی آواز بناکر پیش کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کیوں ان آوازوں کے محتاج بن گئے ہیں، ہم کیوں سمجھ رہے ہیں کہ ہمیں ان آوازوں کی ضرورت ہے ۔


بھارت کے نیوز چینلز کو تو بہت سال پہلے ہی پاکستان میں بند کر دیا گیا تھا۔دوسری طرف بھارت نے بھی بھارت میں پاکستان کے نیوز چینلز کو دکھانے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ اب پاکستان نے بھارت کے تفریحی چینلز پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ ان تفریحی چینلز میں بھارتی ڈراموں ، گانوں اور فلموں کے چینل شامل ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انہی چینلز کو غیر قانونی ( یا قانونی ) طور پر دکھائے جانے کی وجہ سے اربوں روپے بھارت جا رہے تھے۔ انہی اربوں روپے کی باز گشت آجکل خوب سنی جارہی تھی۔ اسی حوالہ سے حکمرانوں پر انگلیاں بھی اٹھ رہی تھیں۔ جیسے کہ حکمران یہ اربوں روپے خود بھارت بھیج رہے ہیں۔
ویسے تو پاکستان کی شو بز انڈسٹری ایک بے ہنگم انڈسٹری ہے۔ کہنے کو یہ لوگ خود کو آرٹسٹ فنکار اور پروفیشنل کہتے ہیں ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان فنکاروں کی کوئی ایسی تنظیم نہیں جو ان کی نمائندگی کرتی ہو۔ یہ کسی تنظیمی ڈسپلن میں نہیں ہیں۔ جیسے ڈاکٹر ، انجینئر اور دیگر پروفیشنل اپنی اپنی تنظیموں کے کسی حد تک ڈسپلن میں موجود ہیں۔ لیکن شو بز ایک ایسی انڈسٹری ہے جس کو نہ تو حکومت کنٹرول کرتی ہے اور نہ ہی فنکاروں نے خود کوئی ایسی تنظیم یا میکانزم بنایا ہو ا ہے جو ان کو کنٹرول کر سکے۔


جس کا دل چاہتا ہے وہ خود کو آرٹسٹ کہہ دیتا ہے۔ فنکار بننے کے لئے نہ تو کسی لائسنس کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کے کوئی پیشہ وارانہ قواعد ہیں۔ اسی لئے قندیل بلوچ بھی چند دن میں نمبر ون بن سکتی ہے اور میرا کئی سال تک نمبر ون رہ سکتی ہیں۔ اگر فنکاروں کی کوئی متفقہ تنظیم ہو تی تو اس تنظیم سے مطالبہ کیا جا سکتا تھا کہ وہ اپنے تمام ممبران کو بھارت میں کام نہ کرنے کا پابند کرے۔ اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرے تو اس کا لائسنس معطل کر دے تا کہ اس کو پاکستان کے اندر بھی کام ملنا بند ہو جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس کی یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ ایسا پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ لہذا اگر پاکستان میں نہیں ہے تو کوئی خاص بات نہیں ۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا کوئی فنکار ملکی وقار اور عزت کااس طرح سودا بھی کرتے ہیں کہ ہم سب کے سر شرم سے جھک جائیں۔


کیوں راحت فتح علی خان جن سے ان سے پہلے بھی بھارت کے ائیر پورٹ پر ناروا سلوک ہو چکا ہے ۔ اب بھی ان کو کام کرنے سے روکا جا رہا ہے ۔ وہ کیوں اعلان نہیں کرتے کہ اب وہ بھارت میں کام نہیں کریں گے۔ کیوں فواد خان اور دیگر خود اعلان کر رہے کہ وہ اب بھارت میں خود ہی کام نہیں کریں گے۔ یہ نہ صرف اپنی عزت خراب کر رہے ہیں بلکہ ملک و قوم کی عزت بھی خراب کر رہے ہیں۔


اگر فورتھ شیڈیول میں شامل مشتبہ افراد کے شناختی کارڈ بلاک کئے جا سکتے ہیں تو جو فنکار اس وقت بھارت میں کام کی بھیک مانگ رہے ہیں ان کو یہ الٹی میٹم کیوں نہیں دیا جا سکتا ہے کہ اگر وہ فورا پاکستان واپس نہیں آئے توان کی پاکستانی شہریت بھی معطل کر دی جائے۔ پھر ان کی حالت دھوبی کے اس کتے جیسی ہو جائے گی جو نہ گھر کا رہتا نہ گھاٹ کا۔


ہم توبھارت میں کام کی بھیک مانگنے والے فنکاروں کا سماجی بائیکاٹ بھی نہیں کر رہے۔ ہمارا میڈیا ان کو ولن کی بجائے مجبور بے کس اور مظلوم بنا کر پیش کر ہا ہے جیسے ان بیچاروں کے ساتھ بہت ظلم ہو رہا ہے۔ چند ٹکوں کی خاطر ملکی وقار کا سودا کرنے والے کسی رعایت اور مدد کے قابل نہیں ہیں۔ اسی کے ساتھ پاکستان میں ایسے تمام اشتہا رات کو دکھانے پر بھی مکمل پابندی ہونی چاہئے جس میں کسی بھی بھارتی فنکار ماڈل یا کسی اور سپر سٹار نے کام کیا ہو۔ پیمرا کو اس حوالہ سے بھی واضع احکامات دینے چاہئے کہ بھارت فنکار ماڈل والا کوئی بھی اشتہار پاکستان میں نہیں چل سکتا۔ تمام اشہتاری ایجنسیوں کو بھی اس ضمن میں ایک واضح پالیسی کے ساتھ سامنے آنا چاہئے۔

مزید :

کالم -