فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 246

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 246
 فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 246

  

ڈار صاحب اپنے گھر کی الاٹمنٹ کے سلسلے میں ایک بار محکمہ آباد کاری کے ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے۔ ہم بھی ساتھ تھے۔ آباد کاری کا ڈپٹی کمشنر اس زمانے میں کافی توپ چیز سمجھا جاتا تھا۔ ڈار صاحب اپنی جائز شکایت لے کر ان کے پاس گئے تھے۔ انہوں نے پہلے تو کافی دیر تک ہمیں کمرے کے اندر ہی نہیں بلایا۔ جب اندر گئے تو بڑی رکھائی سے پیش آئے۔ ڈار صاحب نے اس طرز عمل کے خلاف احتجاج کیا تو وہ خالص افسر بن گئے۔ کہنے لگے ”آپ صحافی ہوں گے تو اپنے دفتر میں ہوں گے۔ آپ کو تو بات کرنے کی بھی تمیز نہیں ہے“۔

بس پھر کیا تھا۔ ڈار صاحب ایک دم مارے غصّے کے آپے سے باہر ہوگئے۔ کہا ”آپ نے ابھی میری بدتمیزی دیکھی نہیں ہے اور شکایت کرنے لگے۔“

وہ بولے ”آپ اس سے زیادہ اور کیا بدتمیزی کریں گے؟“

ڈارصاحب کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور بولے ”ابھی دیکھ لیجئے میں آپ کو کرسی سے اٹھا کر باہر پھینک دوں گا“ یہ کہہ کر انہوں نے انہیں کھینچ کرسی سے اٹھایا اور سچ مچ کمرے سے باہر لے جا کر پھینک دیا۔ دفتر میں ہلچل سی مچ گئی۔ ان کا کمرہ فرید کوٹ ہاﺅس کی دوسری منزل پر تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دفتری اہلکار اور درخواست گزار سبھی کمرے کے باہر اکٹھے ہوگئے مگر کسی کی جرات نہ پڑی کہ ڈار صاحب کو کچھ کہتا۔ وہ آستین چڑھائے کھڑے دہائی دے رہے تھے۔ بڑی مشکل سے لوگوں نے بیچ بچاﺅ کرایا اور ڈپٹی کمشنر صاحب کو دوبارہ ان کی کرسی پر بٹھایا۔ ڈار صاحب انہیں دھمکی دے کر آگئے کہ اگر اس کے بعد بھی میرا کام نہ ہوا تو اس سے بھی بُرا سلوک کروں گا۔

کچھ دیر بعد جب ان کاغصہ اترا اور چائے وائے پی کر ان کا مزاج خوشگوار ہوا تو ہم نے کہا ”ڈار صاحب یہ شریفوں کا شیوہ تو نہیں ہے۔“

کہنے لگے ”آفاقی شریف سے بڑھ کر کوئی بدمعاش نہیں ہوتا۔ جب شریف بدمعاشی پر اُتر آئے تو بڑے بڑے بدمعاش کانپنے لگتے ہیں۔ کبھی کبھی ہاتھاپائی کرنا بھی ضرور ہوتا ہے۔ تم بھی یہ سبق سیکھ لو۔“

ہم نے کہا ”بھائی آپ ہاتھاپائی کر سکتے ہیں‘ ہمارے لئے تو یہ گھاٹے کا سودا ہی ہوگا۔ ہم دبلے پتلے‘ مریل سے آدمی ہیں۔ کسی سے کیا ہاتھا پائی کریں گے؟“

ہنس کر کہنے لگے ”یاد رکھو غصے کی طاقت اضافی ہوتی ہے۔ اگر سچ مچ غصہ آ جائے تو انسان کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ کبھی آزما کر دیکھ لینا۔“

ڈارصاحب کی ایک ٹانگ میں ہلکا سا لنگ تھا مگر انہیں اس کا کوئی کامپلیکس نہ تھا۔ ہاتھ پیروں کے مضبوط تھے لیکن عموماً غصے میں نہیں آتے تھے۔

ایک دن ڈار صاحب سے ملے تو انہوں نے دیکھتے ہی کہا ”اخاہ.... یار اچھا ہوا تم آگئے۔ ایک سلسلے میں‘ میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔“

”اخاہ“ ان کا تکیہ کلام تھا۔ اچھے موڈ میں ہوتے تو ”اخاہ“ ضرور کہتے تھے۔ اقبال کوثر ان کے ہمراہ تھے۔ وہ ہمزاد کے مانند ڈار صاحب کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ ورہ بہت اچھے شاعر تھے مگر اس سے زیادہ اچھے شعر شناس اور شاعر پرست تھے۔ حافظہ غضب کا تھا خصوصاً اشعار کے معاملے میں۔ ہر شاعر کا کلام انہیں زبانی یاد تھا۔ اور بڑی خوش الحانی سے سنایا کرتے تھے۔ ڈار صاحب ان سے کہا کرتے تھے کہ اقبال کوثر‘ اگر تم شاعر نہ ہوتے تو قوال ضرور ہوتے۔ اقبال کوثر اس پر زبردست احتجاج کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ قوال کی جگہ گلوکار کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔

ڈار صاحب نے کہا ”آفاقی“ تم آج کل بے کار ہو؟“ ہم نے سر ہلایا۔

”بس تو پھر تمہارے کام کا بندوبست ہوگیا۔“

ہم چوکنّا ہوگئے۔

اقبال کوثر ہنسنے لگے۔ بولے ”گھبرائیے مت۔ آپ کے مطلب کا کام ہے۔“

ڈار صاحب نے پہلے تو ہمارے لئے چائے کی پیالی منگائی۔ پھر ایک سگریٹ بھی پیش کی۔ ہم اس وقت تک پائپ وغیرہ سے بچے ہوئے تھے۔ دوسروں کی پیش کی ہوئی سگریٹ البتہ پی لیا کرتے تھے۔

اپنی بڑی بڑی پُراثر آنکھوں سے ڈار صاحب نے ہمیں گھورا اور پھر کہا ”آفاقی‘ زمیندار اخبار میں کام کرو گے؟“

ہم نے چونک کر انہیں دیکھا۔ ”زمیندار“ کے بارے میں ہماری رائے کا ڈار صاحب کو علم تھا۔ خود ان کی رائے بھی اس سے مختلف نہ تھی۔

روزنامہ ”زمیندار“ کسی زمانے میںبرّصغیر کا بہت اہم اور قابل ذکر اخبار تھا۔ اس کے مالک اور مدیر جناب ظفر علی خان کا نام ملک کے چاروں کونوںمیں مشہور تھا۔ وہ اعلیٰ پائے کے نثرنگار‘ بہترین شاعر اور ممتاز صحافی تھے۔ ان کو نظم و نثر دونوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ انتہائی خوبصورت زبان لکھتے تھے اور برجستہ‘ حسب موقع اور حسب حال اشعار لکھنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ طنزیہ نظمیں بھی لکھتے تھے اور سیاسی بھی۔ ان کے قلم سے لکھا ہوا ہر حرف معتبر سمجھا جاتا تھا اور سارے ملک میں پھیل جاتا تھا۔ وہ انگریزی سے اردو میں ترجمہ اس قدر سلیس‘ رواں اور خوبصورت کرتے تھے کہ اس پر طبع زاد کا گمان گزرتا تھا۔ سیاسی بصیرت اور شعور بھی اس درجہ تھا کہ سارے ہندوستان کے سیاسی زعماءان کے مشورے کو اہمیت دیتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک ادارہ تھے۔ ان کا اخبار ”زمیندار“ اس زمانے میں بھی ہندوستان کا سب سے کثیرالاشاعت روزنامہ تھا اور پاکستان کے قیام کے بعد بھی وہ سب سے زیادہ شائع ہونے والا اخبار تھا۔ مولانا ظفر علی خان کو ہندوستان کے سیاسی رہنماﺅں کی صف میں بھی ایک بلند مقام حاصل تھا۔ مختصر یہ کہ وہ ہزار پہلو شخصیت تھے اور ان کی شخصیت کا ہر رخ انوکھا‘ نرالا اور عظیم تھا۔ طبع کی روانی کا یہ عالم تھا کہ حقے کی نے منہ سے لگائی اور برجستہ اشعار دریا کے مانند زبان سے رواں ہوگئے۔

مولانا ظفر علی خان ایک نادر روزگار اور یکتائے زمانہ شخصیت تھے۔ وہ پرانے وقتوں کے بی اے تھے جب کہ میٹرک تک تعلیم ہی بہت کافی تصوّر کی جاتی تھی۔ اس پر ان کا مطالعہ اس قدر وسیع تھا کہ ہر زبان ان کے گھر کی باندی تھی لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ وہ شخص جس کو زبان اور قلم پر مطلق العنان حکمرانی حاصل تھی اس کا اکلوتا بیٹا‘ اختر علی خان‘ ان تمام اوصاف سے عاری تھا ۔ انہوں نے نہ تو زیادہ تعلیم حاصل کی اور نہ ہی انہیں مطالعے کا شوق تھا۔ غالباً اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے لاڈلے بھی تھے۔ اس لئے انکی تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ نہ دی جا سکی تھی۔ اختر علی خان ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی اپنے والد کے پاسنگ نہ تھے۔ والد کو زبان و بیان اور تحریر پر مکمل دسترس حاصل تھی جب کہ اختر علی خان جب ”زمیندار“ کے ایڈیٹر بنے تو اخبار کے اداریے دوسرے لوگوں کو لکھنے پڑتے تھے۔ نثر کے علاوہ نظم میں بھی وہ قابل ذکر صلاحیتوں کے مالک نہ تھے ذہنی صلاحیتوں کے لحاظ سے ان کا اپنے والد سے کوئی مقابلہ ہی نہ تھا۔ جب تک مولانا ظفر علی خان کے حواس اور اعضا کام کرتے رہے وہی ”زمیندار“ کو چلاتے رہے۔ مگر آخریِ عمر میں جب بیماریوں نے انہیں گھیرا اور فالج کے مرض نے انہیں ناتواں اور معذور بنا دیا تو وہ صاحبِ فراش ہوگئے اور ”زمیندار“ کی ادارت کا بوجھ ان کے اکلوتے صاحب زادے اختر علی خان پر آن پڑا۔ وقت کے دستور اور رواج کے مطابق وہ بھی مولانا کہلائے اور یہ لفظ ان کے نام کا لازمی حصہ بن کر رہ گیا۔

ایک اور المیّہ یہ بھی تھا کہ مولانا اختر علی خان کے دو صاحب زادوں منصور علی خان اور مسعود علی خان میں سے کسی ایک کو بھی ادب و صحافت اور نظم و نثر پر عبور حاصل نہ تھا۔

مولانا ظفر علی خان اپنے عہد کی ایک بہت ممتاز اور نمایاں شخصیت تھے۔ وہ ایک اعلیٰ مقام اور انتہائی قابل احترام شخصیت تھے۔ اردو صحافت اور علم و ادب سے معمولی دلچسپی رکھنے والا بھی ان کے نام نامی اور کارناموں سے واقف تھا۔ ہم جن دنوں سکول میں پڑھا کرتے تھے اس وقت بھی مولانا ظفر علی خان کے نام اور کام سے واقف تھے اور ان کی عظمت ہم پر پوری طرح واضح تھی۔ جب ہم پاکستان آ کر لاہور میں مقیم ہوئے تو لاہور کی قابل دید چیزوں میں مولانا ظفر علی خان کا نام بھی ہماری فہرست میں شامل تھا۔ لیکن کوئی ذریعہ ان سے ملاقات کا نہ تھا۔ ان سے پہلی بار ملاقات کا شرف ہمیں 1951ءمیں حاصل ہوا اور اس کا ذریعہ آغا شورش کاشمیری بنے۔ آغا صاحب مولانا ظفر علی خان کے بہت بڑے معتقد تھے اور نظم و نثر اور ایسی شعور و بصیرت کے اعتبار سے انہیں اپنا رہنما تسلیم کرتے تھے۔ ان کا ذکر وہ بہت محبت اور احترام سے کیا کرتے تھے۔ اکثر مولانا کی زندگی کے واقعات بیان کرتے تھے۔ ان کی فی البدیہہ گوئی کے معترف تھے۔ مولانا کے اشعار ان کو ازبرتھے۔ یہاں تک کہ ان کے تحریر کردہ اداریے تک آغا شورش کو زبانی یاد تھے۔ ان کے سیاسی اور طنزیہ اشعار وہ اکثر موقع و محل کے لحاظ سے سنایا کرتے تھے۔

ہم ہفت روزہ ”چٹان“ میں کام کر رہے تھے اور مولانا ظفر علی کا تذکرہ اکثر سنا کرتے تھے۔ ایک دن ہم نے آغا صاحب سے عرض کی ”شورش صاحب آپ کبھی مولانا ظفر علی خان سے ملاقات کے لئے نہیں جاتے؟“

انہوں نے کہا ”مولانا ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ پھر بھی کبھی کبھی سلام کے لئے خدمت میں حاضر ہو جاتا ہوں۔“

ہم نے کہا ”کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اب کی مرتبہ آپ ان کے پاس جائیں تو ہمیں بھی ہمراہ لے چلیں۔“

وہ مسکرائے ”کیوں نہیں ہو سکتا۔ ہم کل ہی چلیںگے۔ مولانا اختر علی خان سے مجھے کچھ باتیں بھی کرنی ہیں“۔

دوسرے دن ہم آغا شورش کاشمیری کے ساتھ تانگے میں سوار ہوئے اور ”زمیندار“ کے دفتر کی جانب روانہ ہوگئے۔ حسب دستور آغا صاحب اگلی نشست پر تانگے والے کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ ہم پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ ”چٹان“ کے دفتر سے ”زمیندار“ کے دفتر کا فاصلہ کچھ زیادہ نہ تھا۔ موسم سرما کی آمد آمد تھی اور لاہور کا موسم بے انتہا خوشگوار تھا۔ اس زمانے میں لاہور میں نہ تو اتنی زیادہ آبادی تھی‘ نہ کاروں اور رکشوں کا دھواں اور ماحولیاتی کثافت تھی۔ ہر طرف درختوں کی بہتات تھی۔

فضا صاف شفاف رہتی تھی۔ ہم لوگ پیدل بھی جا سکتے تھے مگر آغا صاحب غالباً پیدل چلنے کے قائل نہ تھے اس لئے مختصر فاصلے پر بھی تانگے کے ذریعے جاتے تھے ۔غالباً ایک مصلحت یہ بھی ہوگی کہ راہ میں لوگ انہیں پہچان کر گھیر لیتے تھے اور ہر ایک سے مصافحہ و معانقہ کرنا پڑتا تھا۔ تانگے میں محض سلام اور ہاتھ ہلانے سے کام چل جاتا تھا۔ (جاری ہے)

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 247 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

فلمی الف لیلیٰ -