گورنر سندھ، سرخ قالین اور تھر کے سسکتے عوام

مجھے یقین ہے جب کپتان خود تھر کے دوروے پر جائیں گے تو اُن کے لئے نہ تو ریڈ کارپٹ بچھایا جائے گا اور نہ ہی تقریب کے لئے ائرکنڈیشنڈ شامیانے کا اہتمام ہوگا، اگر ہوا بھی تو اُن افسران کی خیر نہیں ہوگی، جو اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کو جن نزاکتوں کی سمجھ ہے، افسوس اُن کے کھلاڑی اُن کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتے، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کردیتے ہیں، جو سارے حکومتی تاثر کا بیڑہ غرق کردیتی ہے۔ عمران خان اپنے جن ساتھیوں کو چن چن کر عہدے دے رہے ہیں، اُن میں سے اکثر ایسی حرکتیں کررہے ہیں، جیسی کوئی دیہاتی شہر کی روشنیاں دیکھ کر حیرانی میں کرتا ہے۔ کپتان نے جب سے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا ہے، سفید شلوار قمیض میں ملبوس نظر آتے ہیں، حتیٰ کہ غیر ملکی شخصیات سے ملاقات کے موقع پر بھی وہ لباس یورپی طرز کا نہیں پہنتے۔ کوٹ پتلون اور نیکٹائی میں اُن کی تصویریں بہت اچھی آتی ہیں، بے شمار تصویریں نیٹ پر موجود بھی ہیں، لیکن وزارتِ عظمیٰ کے بعد اُن کا محبوب ترین لباس سفید شلوار قمیض بن چکا ہے، اس میں اُن کی سادگی کا عمل دخل ہے، ویسے بھی وہ ہر معاملے میں سادگی اختیار کئے ہوئے ہیں اور حکومتی کروفر سے بے نیاز نظر آتے ہیں، جس کا عوام پر مثبت اثر پڑا ہے اور وہ عمران خان کو اپنے قریب سمجھنے لگے ہیں، مگر قصہ اُس وقت خراب ہو جاتا ہے، جب اُن کی ٹیم کا کوئی رکن سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اُس کی شان و شوکت عمران خان کی سادگی کو اپنے ساتھ بہالے جاتی ہے۔ تبدیلی کا وہ دعویٰ جو تحریک انصاف کا سب سے بڑا نعرہ ہے، دھڑام سے چاروں شانے چت زمین پر آگرتا ہے۔
یہ ساری تمہید میں نے اُس تصویر کو دیکھ کر باندھی ہے، جو سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کی سادگی کے نعرے کا جنازہ نکال رہی ہے۔ اُس تصویر میں گورنر سندھ عمران اسماعیل تھر کا دورہ کررہے ہیں۔ تھر آمد پر وہ ریڈ کارپٹ کے ذریعے مٹی اور ریت سے گزرتے ہیں، اُن کے جوتے لش لش کررہے ہیں، کیونکہ قالین کی وجہ سے مٹی تو اُن کے جوتوں پر پڑ ہی نہیں سکتی۔ سوال یہ ہے کہ گورنر سندھ وہاں کرنے کیا گئے تھے، کیا وہ صرف شو آف کرنا چاہتے تھے، یا اُن پر عمران خان کی طرف سے دباؤ تھا کہ وہ سندھ کے متاثرہ بچوں کا جائزہ لے کر انہیں مطلع کریں، کیونکہ چند روز تک وزیر اعظم عمران خان بھی تھر کے دورے پر جاسکتے ہیں۔ جن مظلوموں کو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا، دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، جن کی بیماریوں کا علاج نہیں ہوتا۔ اُن کے پاس آپ اس طرح جاتے ہیں، جیسے بادشاہ سلامت جاتا ہے۔ ایسے ریڈ کارپٹ اور اے سی والے شامیانے کے ساتھ استقبال پر جتنے پیسے خرچ ہوئے ہوں گے، اُن سے تو تھر کے کئی گھرانوں کو بھوک اور بیماریوں سے بچایا جاسکتا تھا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ سوشل میڈیا پر اتنا شور شرابہ ہونے کے باوجود گورنر سندھ کی طرف سے کوئی وضاحتی یا ندامتی بیان نہیں آیا۔ اس قسم کا دورہ کرنے کے لئے گورنر یا کسی اور حکومتی شخصیت کے آنے کی کیا ضرورت ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صرف سیاسی ضرورت کے تحت وہاں آئے ہیں، تاکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ پوائنٹ سکورنگ کرسکیں، جہاں تھر کے لاکھوں باشندے دن رات رہ رہے ہیں، وہاں صوبے کا گورنر اگر چند منٹوں کے لئے جاتا ہے اور اس کے لئے قالین بچھائے جاتے ہیں تو یہ اس کے لئے شرمندگی کا مقام ہے، فخر کا نہیں ۔
چاہئے تو یہ تھا کہ عمران اسماعیل سرخ قالینوں کو بچھے دیکھ کرسخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے، مگر وہ تو بڑے خراماں خراماں اس پر چلے جا رہے ہیں۔ میں نے تو آج تک نہیں دیکھا کہ تھر کے دورے پر اتنے وی آئی پی انتظامات کئے گئے ہوں، اب اگر لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ وہی عمران اسماعیل ہے، جو گورنر بننے سے پہلے ایک عام سے شخص تھے، کراچی کے تھڑوں پر بیٹھتے تھے، لوگوں کو احساس دلاتے تھے کہ وہ ان میں سے ہیں۔ شاید ان کی یہی ادائیں اور عادتیں دیکھ کر وزیر اعظم عمران خان نے انہیں گورنر سندھ بنا دیا۔۔۔عمران اسماعیل کو جب گورنر سندھ بنایا گیا تھا تو ان کی تعلیمی استعداد کی وجہ سے بہت اعتراضات ہوئے تھے، کہا گیا تھا کہ ایک ایف اے پاس کو گورنر بنا دیا گیا ہے، حالانکہ گورنر صوبے کی یونیورسٹیوں کا چانسلر ہوتا ہے، جو اعلیٰ تعلیم کے سب سے بڑے ادارے ہیں۔ پی ایچ ڈی، ایم فل، ایم اے اور بی اے کی ڈگریوں پر اب عمران اسماعیل کے دستخط ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے سپورٹرز اور ترجمان نے اس اعتراض کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ گورنر شپ ایک آئینی عہدہ ہے اور اس کے لئے تعلیم کی کوئی قدغن نہیں۔ عمران اسماعیل چونکہ ایک منجھے ہوئے سیاسی ورکر ہیں اور وزیر اعظم کے قابل اعتماد ساتھی بھی ہیں، اس لئے ان کا انتخاب صوبے کے مفاد میں ہے۔ ان دلائل میں بھی خاصا وزن تھا، اس لئے انہیں بطور گورنر قبول کر لیا گیا۔ گورنر بنتے ہی انہوں نے بلاول ہاؤس گرانے کا غیر ذمہ دارانہ بیان دے ڈالا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے سخت رد عمل آیا تو انہوں نے فوراً ہی ایسے کسی بیان سے انکار کر دیا، پھر کراچی میں ان کے پروٹو کول کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات پر خبریں آئیں، جس کے بعد انہوں نے سخت احکامات جاری کئے کہ ان کا پروٹوکول کم سے کم رکھا جائے۔ اب ایسے محتاط شخص سے ایسی بے احتیاطی کیونکر سرزد ہوئی؟
انہوں نے پہلے سے اپنے سٹاف کو تھر کے دورے میں سادگی پر عمل کرنے کا پیغام کیوں نہیں دیا، اگر یہ انتظامات ضلعی حکومت کی طرف سے کئے گئے تھے تو اس سے رابطہ کیوں نہیں رکھا گیا، تاکہ تھر کے مظلوم عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا یہ اہتمام نہ کیا جاتا۔ کم از کم گورنر سندھ کو بلاول بھٹو زرداری ہی سے کچھ سبق لینا چاہئے تھا۔ جو اب تھر کے دورے پر جاتے ہیں تو جھگیوں اور کچے مکانوں میں رہنے والے تھر کے غریبوں تک پہنچتے ہیں، ان کا دکھ درد سنتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سندھ حکومت تھر کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ نہیں کرسکی۔ وہ اس صورتِ حال کی ذمہ دار ہے، تاہم جو ظاہری عمل ہے کم از کم اسے تو ایسا نہیں رکھا گیا، جو صریحاً بے حسی کا حامل اور ظالمانہ نظر آتا ہے۔چند روز پہلے مسلم لیگ (ق) کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے قومی اسمبلی میں جو تقریر کی، اس میں کہا کہ انہوں نے کابینہ میں بہت سے وزرائے اعظم کے ساتھ کام کیا ہے، لیکن جو سادگی، درد مندی اور عوام کے لئے فکر مندی عمران خان میں دیکھی ہے، وہ کسی اور میں نہیں دیکھی۔ اب یہ ایک ایسے سیاسی آدمی کا تاثر ہے، جو تحریک انصاف سے نہیں صرف اس کی کابینہ کا حصہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے جو لوگ سال ہا سال تک عمران خان کے ساتھ رہے ہیں، وہ اُن کی سادگی اور کروفر سے بے نیازی کو اہمیت کیوں نہیں دیتے۔ حقائق پر نظر ڈالی جائے تو فی الوقت اقتدار تو عمران خان کے لئے کانٹوں کی سیج ہے، قدم قدم پر مشکلات ہیں، دوسری طرف اُن کے مخالفین انہیں ایک لمحے کی مہلت دینے کو تیار نہیں۔ معیشت کی بری حالت نے سب کس بل نکال دیئے ہیں اور جتنے وعدے کئے گئے تھے، وہ ایک پھانس بن کر رہ گئے ہیں، عوام معاشی ریلیف مانگ رہے ہیں، مگر حکومت ملک چلانے کے لئے ٹیکس لگانے، بجلی گیس کی قیمتیں بڑھانے پر مجبور ہے، اب ایسے میں جو چیز عوام کی نظر میں حکومت کو ایک بہتر مقام دلاسکتی ہے، وہ گڈگورننس اور حکومت کی سادگی ہے۔
عوام کو جب احساس ہو جائے گا کہ جن مشکل حالات سے ہم گزر رہے ہیں، اُن کا حکومتی شخصیات کو بھی ادراک ہے او وہ بھی اُن کے ہمرکاب ہیں تو وہ مشکلات کا عرصہ حوصلے سے گزارلیں گے، لیکن اگر مناظر ایسے دیکھنے کو ملے، جیسے تھر میں ’’بادشاہ سلامت‘‘ کی آمد پر قالین بچھا کر دکھائے گئے تو یہ توقع رکھنا کہ تھر میں بھوک اور بیماری سے بچنے والے بچوں کی ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے، والدین خوشی سے تالیاں بچائیں گے، پرلے درجے کی حماقت، بلکہ سفاکی ہوگی۔وزیر اعظم عمران خان شاید وضع داری کے حصار میں ہیں یا پھر انہیں اپنے دیرینہ ساتھیوں کے پرانے تعلقات کا احترام ہے کہ وہ اپنے گورنروں، وزرائے اعلیٰ، وزیروں اور مشیروں کو اپنے جیسا نہیں بناسکے۔ تبدیلی کا احساس صرف وزیر اعظم عمران خان اپنی اکیلی شخصیت سے نہیں دلاسکتے، اس کے لئے پوری حکومت کو جدوجہد کرنا ہوگی، روائتی حکومت کی بجائے ایک غیر روائتی اور عوام کے قریب تر رہنے والی حکومت کرنا ہوگی۔ عام حالات میں گورنر کی آمد پر تھر میں ریڈ کارپٹ استقبال کرنا شاید کوئی اچنبھے کی بات نہ ہوتی، لیکن تحریک انصاف کا گورنر اگر تھر جاکر اپنے پاؤں کو مٹی نہیں لگنے دیتا اور باتیں تھر کے عوام کی کرتا ہے تو یہ بیانیہ کسی کو بھی ہضم نہیں ہوگا۔ عمران اسماعیل سندھ میں وفاق کے نمائندے ہیں اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، گویا انہیں وہی سوچ اختیار کرنا ہے، جو عمران خان کی ہے۔ اس لئے اُن کی گورنری کا انداز، اُسی طرح عاجزانہ اور منکسرالمزاجی کا حامل ہونا چاہئے، جیسے کپتان کا ہے، وگرنہ لوگ یہی کہیں گے کہ گورنر سندھ کی کم تعلیمی قابلیت اُن کے راستے کی دیوار بن گئی۔