مسیحی قانونِ طلاق ، سیکشن 7کی بحالی کیلئے دائر اپیل پر مسیحی رکن اسمبلی معاونت کیلئے طلب
لاہور(نامہ نگار خصوصی)لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک کی سربراہی میں قائم ڈویژن بنچ طلاق کے مسیحی قانون کے سیکشن 7کی بحالی کے لئے دائر اپیل پر پنجاب اسمبلی کے مسیحی رکن کو معاونت کے لئے طلب کرلیا ہے۔مذکورہ قانون کے تحت صرف بدچلنی کے الزام میں ہی مسیحی خاتون کو طلاق دی جاسکتی ہے ۔لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے اس قانون کو کالعدم قراردے دیا تھا،جس کے خلاف یہ اپیل دائر کی گئی ہے ۔عدالت نے آئندہ تاریخ سماعت پر اس قانون میں ترمیم سے متعلق مجوزہ مسودہ قانون کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں،دوران سماعت فاضل بنچ نے ریمارکس دیئے کہ اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث آنا چاہیے ۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت پارلیمنٹ کو ہدایت جاری نہیں کر سکتی،درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں ،جن کے تحت عدالت قانون سازی سے متعلق پارلیمنٹ کو ہدایات دے سکتی ہے۔وکیل نے مزید کہا کہ مسیحی قانون کے تحت خاتون کو صرف بدچلنی کے الزام کے تحت ہی طلاق دی جا سکتی ہے،مسیحی شریعت میں خاتون کو کسی اور الزام کے تحت طلاق نہیں دی جا سکتی،الہامی قانون کو عدالتی فیصلے سے ختم نہیں کیا جا سکتا،سنگل بنچ کا فیصلہ مسیحی قوانین کے خلاف ہے،ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بھارت میں بھی اس شق کو کالعدم قرار دیا جاچکاہے، جس پر فاضل بنچ نے کہا کہ ادھار لئے گئے قانون کی کیا حیثیت ہے؟حکومت کو اس قانون پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔درخواست گزار کے وکیل شیراز ذکاء نے کہا کہ مسیحی ممبران کی پارلیمنٹ میں تعداد کم ہے ،جس کی وجہ سے قانون سازی میں مشکلات ہیں۔عدالت نے اس کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کر دی۔
مسیحی قانون طلاق