چھوٹے سرمایہ کاروں کی بقاء اسٹاک مارکیٹ کی شفافیت سے مشروط
کراچی (رپورٹ /غلام مرتضیٰ) جب تک پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں شفافیت نہیں آئے گی اس وقت تک چھوٹے سرمایہ کاروں کا سرمایہ ڈوبتا رہے گا ۔بلیو چپس کمپنیوں کے پاس ہزاروں ارب روپے کا سرمایہ موجود ہے اس لیے ان کا ڈوبنا خارج از امکان ہے ۔آئندہ سال جون تک معیشت اور خصوصاً اسٹاک مارکیٹ دباؤ کا شکار رہے گی ۔اقتصادی ماہرین کے مطابق اس وقت بنیادی طور پر ملکی معیشت کی صورت حال خراب ہے جیسا کہ ہمارے علم میں ہے کہ پہلے ااسٹاک مارکیٹ میں بحران پیدا کیاجاتا ہے اور مطالبات تسلیم ہونے کے بعد قیمتیں بڑھا کر اس مصنوعی بحران کو ختم کردیا جاتا ہے لیکن اس بار گیم ان قوتوں کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے کیونکہ عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کے باعث دنیا بھر کی معیشتیں زبوں حالی کا شکار ہیں ۔اس کھینچاؤ کی کیفیت میں سعودی صحافی کے قتل کے بعد مزید اضافہ ہوگیا ہے اور یہ کیفیت آئندہ 6تا 8ماہ تک برقرار رہ سکتی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ 2007کے اکنامک سروے کی رپورٹ کے مطابق اسٹاک ایکس چینج سے 112ارب روپے کا ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے اور اس وقت پی ایس ایکس کا حجم 2007کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوچکا ہے لہذا اسٹاک ایکس چینج سے 112ارب سے بھی زیادہ ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے لیکن بروکرز کی جانب سے پرانے ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے باعث اس بات کا قوی امکان ہے کہ نئی حکومت بھی انہیں کھلی چھوٹ دے دی گی انہوں نے کہا کہ میوچل فنڈز کے پاس لوگوں کے ہزاروں ارب روپے ہیں جن کی مدد سے وہ صارفین کو ڈیوڈنٹ دے کر ان کا اعتماد بآسانی حاصل کرلیتے ہیں جبکہ ان فنڈز میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی تعداد کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتی ہے ۔یہ اس قدر طاقت ور اور توانا ہوچکے ہیں کہ ان کی بات کو رد کرنا کسی بھی حکومت کے لیے ناممکن امر بنتاجارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے لیکن محسوس یوں ہورہا ہے کہ وہ بھی عوام کو 50لاکھ مکانوں کے کے گورکھ دھندے میں لگاکر دوسرے اصل مسائل جن میں تعلیم اور صحت سب سے اہم ہیں سے پہلوتہی کرنا چاہتے ہیں ۔