وقت نیوز کی جانب سے ملازمت سے فارغ کرنے پر سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے انتہائی حیران کن وجہ بیان کر دی ، تہلکہ برپا کر دیا
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )گزشتہ روز سینئر صحافی اینکر پرسن مطیع اللہ جان نے ٹویٹر پر وقت نیوز کی جانب سے ملازمت سے فارغ کرنے کے پیغام نے ان کے مداحوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا تھا تاہم اب انہوں نے اس کے پیچھے چھپی اصل وجہ بھی بیان کر دی ہے۔
’ وائس آف امریکہ ‘کی رپورٹ کے مطابق مطیع اللہ جان کا کہناتھا کہ مطیع اللہ جان نے کہاکہ کچھ دیر پہلے مجھے اپنے ادارے کی جانب سے برخواستگی کا پروانہ دیا گیا ہے۔ چھ سال کی رفاقت آج ختم ہوگئی۔ اس صورتحال میں میڈیا کے بارے میں کیا رائے قائم کروں۔مطیع اللہ جان نے کہا کہ یہ کسی ایک پروگرام کی بات نہیں ہے۔ کافی عرصے سے اداروں کی طرف سے بھی ایسے اشارے مل رہے تھے کہ لوگ مجھ سے خوش نہیں ہیں۔ ایک پریس کانفرنس میں میری اور کئی دوسرے صحافیوں کی تصویریں دکھا کر کہا کہ یہ لوگ فوج مخالف اور ریاست دشمن عناصر ہیں۔ اس کے بعد ’نیکٹا‘ کی طرف سے ’تھریٹ لیٹر‘ جاری کیا گیا جس میں مجھ سمیت کئی صحافیوں کے نام شامل تھے۔ اس میں کہا گیا کہ ہماری جان کو خطرہ ہے اور دہشت گرد نشانہ بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب اس طرح کی خبریں آپ کے اور ادارے کے بارے میں پھیلائی جائیں تو اثر تو پڑتا ہے۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت میڈیا کے نظریاتی اداروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ پھر نئے چینلوں کو جگہ دی جارہی ہے۔ محدود مارکیٹ میں نئے نئے چینلوں کو جگہ دی جائے تو بزنس متاثر ہوتا ہے۔ اشتہارات بھی روک دیے گئے۔ سپریم کورٹ نے بھی بہت سے ایڈورٹائزرز کی گرفتاری کے احکامات دیے اور ان کے مقدمات نہیں نمٹائے۔ ان سے جو تھوڑے بہت اشتہارات ملتے تھے، وہ سلسلہ بھی بند ہوگیا۔ اس طرح سے مختلف حربوں سے میڈیا کی صنعت کو مالی بحران کا شکار کردیا گیا۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ یہ کہنا مشکل ہے۔ اسے اتفاق کہہ لیں کہ آج ہی عمران خان کا بیان چھپا ہے اور آج ہی مجھے پروانہ تھما دیا گیا۔ بہت سے صحافیوں کی سوشل میڈیا پر موجودگی کو محدود کیا گیا ہے۔ میرے ادارے نے کبھی اس سلسلے میں دباو نہیں ڈالا تھا۔ لیکن جو کچھ بھی ہوا، وہ اچانک ہوا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ میڈیا کے خلاف اس مہم کا حصہ ہے جو عام انتخابات سے پہلے شروع کردی گئی تھی۔ اب عمران خان مجبور ہیں کہ اسے لے کر آگے چلیں۔ یہ مسئلہ ایک کمزور سیاسی حکومت کا نہیں، براہ راست طاقتور ریاستی اداروں کا ہے۔ ملک کو جس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس میں میڈیا کے لیے شاید گنجائش اور بھی کم ہوگی۔ مستقبل میں سعودی ماڈل اور چینی ماڈل کو دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ آنے والا وقت میڈیا کے لیے خوشگوار نہیں ہوگا۔
کیا آپ کے ادارے نے کبھی آپ کو آگاہ کیا تھا کہ آپ کی وجہ سے اسے دباوجھیلنا پڑتا ہے؟ کیا آپ کو آج کے فیصلے کی وجہ معلوم ہے؟ اس سوالے کے جواب پر مطیع اللہ جان نے کہا کہ کچھ وجوہات کا آپ کو پہلے سے علم ہوتا ہے۔ کچھ باتیں اشاروں میں ہوتی بھی رہی ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ کبھی کسی نے مجھ تک بات نہیں پہنچائی۔ لیکن اتنے تسلسل سے یہ چیزیں نہیں تھیں۔ اب دیکھیں، جیسے مجھ پر حملہ ہوا تھا۔ آج تک اس کی تحقیقات کا کچھ پتا نہیں۔ حامد میر کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی تھی اور انھوں نے رپورٹ تیار کی تھی۔ لیکن آج تک ہماری یونین اسے منظرعام پر نہیں لاسکی۔ بزنس کے نقطہ نظر سے میری وجہ سے ادارے پر دباو¿ تھا اور ایک بار کسی سطح پر مجھے مطلع کیا گیا تھا۔
ان کا کہناتھا کہ میں اب کیا کروں گا۔ یہ بہت مشکل سوال ہے۔ میں چند ہفتوں بعد پچاس سال کا ہونے والا ہوں۔ آدھی زندگی میں نے صحافت میں گزاری ہے۔ پہلی بار مجھے ایسی صورتحال پیش آئی ہے۔ لیکن یہ قطعی ناممکن ہے کہ میں اپنے نظریات بدل لوں۔ میں وہی کروں گا جو ایک صحافی کو کرنا چاہیے، چاہے کسی ادارے سے منسلک ہو یا نہیں۔
میں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ جس قسم کی سپورٹ مجھے صحافی دوستوں اور سوشل میڈیا پر عام لوگوں کی طرف سے مل رہی ہے، اس سے بہت حوصلہ حاصل ہوا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ابھی بھی عام لوگ ایسے ہیں جو حق اور سچ کی آواز کا ساتھ دیتے ہیں اور میڈیا کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔