ازبیکستان سے رشتے مضبوط بنائیے
ازبیکستان اور پاکستان کی مشترکہ تاریخ ہے اور اگر جینیاتی طو رپر جائزہ لیا جائے تو دونوں قوموں کی ایک جیسی خاندانی قدر ہوگی۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں ازبیکستان میں پچھلے 39 سال سے رہ رہا ہوں اور دونوں قوموں کی رسمیں، عادات و اطوار بلکہ اٹھنا بیٹھنا، سوچنا سمجھنا، کھانا پینا، غم و خوشی سے کچھ ایک جیسا ہے۔ بعض اوقات تو میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ دونوں قومیں شاید ماضی میں کسی ایک ہی سرچشمہ حیات سے نکلی ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔
تیمور سمر قند سے چلا اور کوئٹہ، ملتان، لاہور سے ہوتا ہوا دہلی جا پہنچا اور یوں اس نے ہندوستان کے مرکز دہلی تک حکومت پھیلادی۔ پھر آپ ظہیرالدین بابر کو دیکھیں کہ جس نے کابل اور درہ خیبر سے گزر کر دہلی میں حکومت قائم کی اور اس حکومت کا اثر و رسوخ ہندوستان بھر میں جا پہنچا۔ ادھر عرب سے مسلمان نکلے تو انہوں نے خوارزم، سمرقند، بخارا فتح کیا تو ادھر یہ لوگ محمد بن قاسم کی سربراہی میں سندھ آپہنچے ، پھر کشمیر کا رخ کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے سے محبت و الفت کے باوجود پچھلے 27 سال گزرجانے کے باوجود یہ لوگ اپنے لئے، اپنے کاروبار کے لئے، اپنے مستقبل کے لئے کوئی خاطر خواہ راستہ نہیں اپنا سکے۔
یہاں اسلام آباد میں ازبیک سفارتخانہ بہت سرگرم ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سفیر ازبیکستان جناب فرقت بیگ احمد صدیق دونوں ممالک کے تعلقات کو تقویت دینے کے لئے غیر معمولی طور پر سرگرم ہیں لیکن شاید کہیں کچھ گڑ بڑ ہے، کہیں کچھ سستی ہے اور یہ شاید ہماری طرف سے زیادہ ہے۔ ہم پچھلے 27 سال سے نعرے لگارہے ہیں کہ ہم وسطی ایشیا کا گیٹ وے ہیں لیکن ہم نے عملی طور پر گیٹ وے بننے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ پچھلے ایک سال سے نئی ازبیک قیادت نے پاکستان سے معاشی، سیاسی، دفاعی، مذہبی و تاریخی تعلقات بڑھانے کے لئے بہت غیر معمولی اقدمات کئے ہیں لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ پھر بھی وہ نتائج نہیں بن پائے جو کہ ازبیکستان نے بھارت، جنوبی کوریا، ترکی، چین، روس، فرانس، جرمنی بلکہ قریبی ہمسایوں تاجکستان، کرغستان، ترکمانستان، قزاقستان اور آذربائیجان سے دوستی کے باب میں حاصل کئے ہیں۔
ہمیں اس سلسلے میں تابانی گروپ آف کمپنیز کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے جو کہ پچھلے پچاس سال سے اس علاقہ میں سرگرم ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ پچھلے وفد نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو اس کی قیادت غیر ملکی تجارت کے ازبیک وزیر جناب جمشید اے خجائیو کررہے تھے اور وفد میں تمام اہم وزارتوں کے ڈپٹی منسٹرلیول کی شخصیتیں شامل تھیں۔ وفد میں ازبیک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر پروفیسر ادہام اکرام موف بھی شامل تھے۔ جو پاکستان کے لئے نہایت دوستانہ جذبات رکھتے ہیں۔ اس موقع پر اسلام آباد کی ازبیک ایمبیسی میں تابانی گروپ اور ازبیک وزارت کے درمیان تعاون کا ایک میمورنڈم طے پایا جس میں مختلف شعبوں میں ابتدائی تعاون کا اظہار کیا گیا ۔نتیجتاً تابانی گروپ کے دو رکنی وفد نے اندے جان، قشقہ دریا، شیر بز اور یکا باغ کا دورہ کیا اور نئے حالات میں ٹیکسٹائل کے شعبے میں ازبیک کاروباری امکانات کا جائزہ لیا۔ اس وفد میں کراچی کے ماہر ٹیکسٹائل جناب یوسف قدواوی نے ازبیک ٹیکسٹائل کی صنعت کی تعریف کی اور اس شعبے میں ازبیک ترقی کو سراہا۔ حال ہی میں تابانی گروپ کے ڈائریکٹر نے تین رکنی وفد کی سربراہی میں تاشقند سمر قند کا دورہ کیا۔ گروپ کے جنرل منیجر ماجد نصیر نے انجینئرنگ، صنعت اور آئل و گیس کے شعبے میں ازبیکستان کی ترقی اور کاروباری ممکنات کا جائزہ لیا۔ وفد نے نہ صرف ازبیک اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں اور کاروباری تعاون کے راستے متعین کیے بلکہ ازبیکستان کے پرائیویٹ سیکٹر سے بھی کاروباری ملاقاتیں کیں اور خوشی سے اس یقین کا اظہار کیا کہ یہاں اب پرائیویٹ ادارے تیزی سے ترقی کررہے ہیں۔
ہوٹل بالا حوض میں مشرقیات کے ماہرین اور ازبیک اوردو دانوں کے اعزاز میں ڈنر کا انتظام کیا گیا جس میں ازبیکستان کے پروفیسر طاش مرزا نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے پاکستانی حکومت سے اردو کے لئے اور پاکستان ازبیک تعلقات کی بہتری کے لئے تمغہ امتیاز حاصل کیا ہوا ہے۔ پروفیسر صاحب ازبیکستان کے ان اولین سفارتکاروں میں سے ہیں جنہوں نے ان دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے تیس سال کے کام سے اردو، روسی اردو تیار کی جو کہ آج کے جدید اردو اور روسی الفاظ کی ترتیب و تشریح پیش کرتی ہے۔ مذکورہ ڈنر میں ازبیکستان کے اردو دانوں نے دونوں ممالک کے آپسی تعلقات پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تقریب سے حاتم یعقوب تابانی صاحب نے خطاب کیا۔ حاضرین نے قرار داد پیش کی کہ اسلام آباد میں ازبیکستان پاکستان فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لانا چاہیے اور اس سلسلے میں تابانی گروپ کو اپنا تاریخی کردار اد اکرنا چاہیے۔
جو کچھ بھی ماضی میں ہوتا رہا ہے یا یہ کہ شروع میں دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی تیزی سے آگے بڑھے لیکن بعد میں طالبان کے وجود میں آنے کے بعد یہ سردی اور بخار کا شکار ہوگئے ۔اب ہمیں موجودہ حالات کے امکانات سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ازبیکستان کے ساتھ اپنے تعلقات ہر میدان عمل میں تیزی سے آگے بڑھنا چاہیے۔ یہاں ازبیک شہریوں کو پاکستان کے کاروباری لوگوں اور سیاحوں کی آمد کا وہ دور نہیں بھولا جب تاشقند میں ہر طرف پاکستانی نظر آتے تھے اور ہر ایک کی زبان پر تابانی کا نام ہوتا تھا۔ شادی کی تقریبات میں خاص طور پر تابانی شرٹس لازمی تحفتاً دی جاتی تھیں۔
زیادہ کچھ نہیں کرنا۔ صرف وسطی ایشیائی ریاستوں کے لئے ویزا آسان یا مفت کرنا ہوگا جیسے کہ ترکی نے تمام وسطی ایشیائی ریاستوں کے باشندوں کو اپنے ہاں آنے اور دو ماہ تک بغیر ویزا کے رہنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر کوئی ناپسندیدہ شخص ادھر آتا جاتا ہے تو وہ ائیرپورٹ سے نہیں بلکہ غیر قانونی طور پر زمینی راستے سے آتا جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ خود ازبیکستان اور دوسری وسطی ایشیائی ریاستوں کا امیگریشن نظام کافی سخت ہے اور وہ کسی غلط شخص کو ممالک غیر جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ مثلاً ہر وہ شخص جو ملک غیر میں جاتا ہے اسے پہلے اپنے ہاں وزارت داخلہ سے آؤٹ ویزا لینا پڑتا ہے اور وہیں سکریننگ ہوجاتی ہے۔ تیسری خاص بات یہ ہے کہ تمام وسطی ایشیائی ریاستوں میں عمومی طور پر ٹیچنگ، میڈیکل، کاروبار اور دفتری امور نیز دکانداری کے کام عورتیں سرانجام دیتی ہیں۔ اس لئے اگر ہم وسطی ایشیائی خواتین کا داخلہ ہمارے ہاں آسان بنائیں تو ہزاروں لاکھوں سوٹ کیس بزنس مین یعنی بزنس ویمن ہمارے ہاں آسکتی ہیں او رہر ایسی خاتون کم از کم ایک چکر میں دس لاکھ روپے کا لائٹ انڈسٹری کا سامان یہاں سے خرید کر لے جاسکتی ہے۔ یوں پاکستان کی ٹیکسٹائل، چمڑے کی اشیاء، اون کی اشیاء، لیڈیز و جینٹس گارمنٹس، سرجری انسٹرومنٹس، سپورٹس کی اشیاء بلکہ فرنیچر تک یہاں سے ہاں جاسکتا ہے۔ اسی طرح وہاں سے بہت ساری اشیاء یہاں آسکتی ہیں۔
ایک ملاقات میں سفیر ازبیکستان نے بتایا کہ 2017ء میں ایک ریکارڈ تجارت بڑی ہے ہمارے لئے یہ ایک حوصلہ افزا بات تھی۔ ہمارا مطالبہ عام سا ہے۔ ویزا اور راستہ آپ آسان بنادیجئے۔ معاشی تعلقات خود بخود بڑھ جائیں گے۔ ہمارے پرائیویٹ سیکٹر میں ابھی بھی اتنا دم ہے کہ وہ قدم اٹھالیتا ہے بس اسے حکومتی سطح پر آنے جانے کی آزادی اور پروازوں کی سہولت دستیاب ہو اورپھر افغانستان و چین کے راستوں سے سرکاری مسئلے حل کرنا ہوں گے۔ اب تو عملی طور پر سڑکیں بھی میسر ہیں۔ آئیے وسطی ایشیا خاص کر ازبیکستان سے تعلقات کو مضبوط بنائیں کہ یہ ہم اپنے گھر سے رشتے مضبوط کریں گے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔