فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر541

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر541
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر541

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہماری ان سے پہلی ملاقات کراچی میں ہوئی تھی جب وہ پنا تھیں۔ یہ غالباً ۵۸۔۱۹۵۷ء کا ذکر ہے۔ اس ملاقات کا احوال ہم تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔ یہ بہت عجیب ماحول میں ہوئی تھی۔ ہمارے ایک دوست کے کہنے پر انہوں نے ہماری عینک اتارلی تھی جس پرہم بہت ناراض ہوئے۔ پنا کو یہ واقعہ تفصیل سے یاد ہے اور وہ ہمیشہ سب کو سنا کر لطف اندوز ہوتی ہیں۔ہم کئی بار لبنیٰ اور بچیوں کے ساتھ ان کے گھر گئے۔ انہوں نے لبنیٰ کو بھی یہ قصہ سنایا اور بہت ہنسیں وہ اپنے میاں کی شکایتیں ان کے سامنے ہی ہم سے کرتی رہتی تھیں اور وہ ہنستے رہتے تھے مگر جب ہم مذاق میں بھی لبنیٰ پر اعتراض کرتے تھے تو وہ فوراً ان کی طرف داری میں کھڑی ہو جاتی تھیں۔ کہا کرتی تھیں کہ آفاقی بھائی آپ کی بیوی بہت اچھی ہے۔ اس کی قدرکیا کریں۔
ہم کہتے دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔ جواب میں وہ سنجیدگی سے انکی خوبیاں گنوانا شروع کر دیتی تھیں۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر540 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان کی شخصیت میں اپنائیت خلوص اور دلکشی ہے۔ گورا رنگ، دراز قد، متناسب جسم ، کتابی چہرہ، موزوں نقش و نگار ، سیاہ چمک دار آنکھیں۔ ہم ان سے کہا کرتے تھے کہ یہ چینی جاپانیوں جیسی آنکھیں کہاں سے لے آئیں۔ سلیمان کے بچوں کی شکلیں بھی بگاڑ دیں۔ چینی جاپانی کے خطاب پر وہ بہت ہنسا کرتی تھیں۔
آج کل وہ کراچی میں ہیں اور رقص کی اکیڈمی قائم کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ پاکستانی فلم ہیروئنوں میں میرا اور نور نے ان کی باقاعدہ شاگردی اختیار کی تھی۔ روایات کے مطابق میرا نے انہیں نذرانہ پیش کیا اور انہوں نے اس کے ہاتھ پر دھاگا باندھا تھا۔ میرا کی مصروفیات کی وجہ سے تربیت کایہ سلسلہ زیادہ عرصے تک جاری نہ رہ سکا لیکن پھر بھی انہوں نے رقص کے اسرار و رموز میراکو سکھائے۔ نور کو بھی انہو ں نے رقص کی تربیت دی تھی۔ ایک زمانے میں ناہید صدیقی کی بھی انہوں نے خاصی رہنمائی کی تھی۔ بہرحال بقول ان کے زندگی ایک ریلوے پلیٹ فارم کی طرح ہے۔ یہاں مختلف ٹرینیں آتی رہتی ہیں اور جاتی رہتی ہیں۔ لوگ ملتے ہیں اور بچھڑجاتے ہیں۔ اسی کا نام زندگی ہے۔ زریں بھابی کی زندگی بھی ایسے ہی واقعات سے عبارت ہے۔ مسافروں کے ملنے اور بچھڑنے کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے ساتھ ہی سفر بھی۔ پناسے جو سفر شروع ہوا تھا وہ زریں بننے کے بعد جاری ہے۔ پنا زمرد کو کہتے ہیں اور بقول ان کے یہ پتھر ان کے لیے بہت لکی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ بعض اوقات پتھر انسانوں سے زیادہ لکی اور کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔
***
طبلہ اورہارمونیم دو ایسے ساز ہیں جن کے بغیر مشرقی موسیقی کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہارمونیم کی مدد سے سروں کو تلاش کرکے دھن میں ڈھالا جاتا ہے۔ ہم نے بچپن میں دیکھا کہ بڑے بڑے خاندانی لوگ شوقیہ ہارمونیم بجانے کا فن سیکھتے تھے۔ گھنٹوں ریاض کرتے تھے اور پھر اس سے اپنا اپنے گھر والوں کا اور دوست احباب کا دل بہلایا کرتے تھے۔ ہمارے سب سے بڑے بہنوئی اعزاز مرزا مرحوم کا تعلق دریا باد سے تھا۔ یہ ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے ایک معروف شہر ہے۔ شہر کیا ہے چھوٹا سا قصبہ ہے۔ یہ پرانے دنوں کا ذکر ہے) لیکن عبدالماجد دریا بادی جیسی عالم و فاضل ہستیوں نے اسی چھوٹے سے قصبے مین جنم لیا تھا۔ دریا باد میں جنم لینے والے فن کاروں اور اہل علم و دانش کا تذکرہ کیا جائے تو ایک طویل فہرست مرتب ہو سکتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنے چھوٹے چھوٹے قصبے اتنے بڑے بڑے لوگوں کی جنم بھومی بننے کا شرف حاصل کرتے تھے۔ 
برصغیر کے بے شمار چھوٹے چھوٹے قصبوں نے لاتعداد نامور ہستیوں کو جنم دیا جنہوں نے بعد میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں لازوال مقام حاصل کیا۔ مثال کے طور پر امروہہ کو ہی دیکھ لیجئے۔ امروہہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا لیکن یہاں پیدا ہونے والے بچوں نے کہاں کہاں اپنے نام کے جھنڈے نہیں گاڑے۔ دراصل ثقافت اور فنون کے گہوارے ہمیشہ چھوٹے قصبے ہی رہے ہیں۔ پرانے زمانے میں بھی یہی نرسری کا کام دیتے تھے۔ بڑے شہروں میں پہنچ کران پتھروں کو تراش کرہیرا بنادیا جاتا تھا یا پھر قدر دان ان بیش قیمت جواہرات کو دریافت کرکے انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ علامہ اقبال نے غالباً ایسے ہی لوگوں کے لیے فرمایا ہے کہ 
غربت میں جا کے چمکا
گمنام تھا وطن میں
دریا باد لکھأو کے نزدیک تھا۔ ریل گاڑی سے بہت مختصر وقت میں سفر طے ہو جاتا تھا۔ ہمیں دریا باد صرف ایک بارجانے کا اتفاق ہوا تھا جب قیام پاکستان کے بعد ہم پاکستان کے آنے کے لیے ’’نو آبجیکشن‘‘ سر ٹیفکیٹ کے حصول کی خاطر سارے بھارت کے شہروں میں گشت لگا رہے تھے۔ دریا باد میں اپنے بہنوئی کے پاس بھی گئے۔ یہ گھرانا نہایت معزز اور با رسوخ سمجھا جاتا تھا۔ خیال تھاکہ شاید ان کے ذریعے لکھؤ سے اجازت نامہ مل جائے ہمارے بہنوئی اعزاز مرزا ایک رشتے سے ہماری ماموں بھی تھے اس لیے ہم ہمیشہ انہیں ماموں بھائی کہاکرتے تھے۔
دریا بادکی گلیوں اور سوئے ہوئے بازاروں سے گزر کر ان کے گھر پہنچے تو سب حیران رہ گئے۔ قدیم گھرانے اس وقت تک پرانی تہذیب کے امین تھے۔ وہی رکھ رکھاؤ ، رہن سہن اور وہی طور طریقیا ور انداز وضع داری جس کی داستانیں اب تک مشہورہیںَ اور سچ تویہ ہے کہ وہ تہذیب اور وہدنیا اب ایک داستان اور خواب وخیال بن کر رہ گئی ہے بلکہ بھولی ہوئی داستان کہنا زیادہ مناسب ہوگا اس لیے کہ ہماری نئی نسل اپنے ماضی سے یکسر بے خبر اور بے پروا ہے لیکن اسکے لیے انہوں قصور وارنہیں قراردیا جاسکتا۔ماضی کے رشتوں سے تعلق قائم رکھنا زندہ قومیں اپنا فخرسمجھتی ہیں۔ سبھی ادارے اور حکومتیں اس بارے میں بڑی سرگرم رہتی ہیںَ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کسی کوان چیزوں کی پروا نہیں ہے۔ دریا باد میں ایک دن گزارکر ہم لکھۂو چلے گئے۔ بہت سرمارا، کوشش کی لیکن مقصد حاصل نہ ہوسکا۔
یہ ۱۹۴۹ء کا ذکر ہے۔ بھارت میں فسادات کی وجہ سے کشیدگی ابھی تک موجود تھی۔کیاہندو، کیا مسلمان، پاکستان آنے والوں کی مددکرتے ہوئے سبھی ہچکچاتے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ بالآخر ہمیں یہ ’’اجازت نامہ‘‘ اپنے آبائی شہر بھوپال سے حاصل ہوا تھا جو ابھی تک ایک مسلم ریاست تھا اور بھارت میں ضم نہیں ہوا تھا۔ ایک مجسٹریٹ صاحب نے بلا خوف و خطر اور بے تامل قلم اٹھایا، نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ بنوا کر اس پر مہر لگائی اور ہمارے حوالے کر دیا۔ اس طرح ہم قانونی اور جائز طریقے سے پاکستان پہنچ گئے۔ یہ داستان ہم پہلے بھی تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔
ان باتوں کا تذکرہ اعزاز ماموں کے ہارمونیم کے حوالے سے آگیا ہے۔ انہیں ہارمونیم بجانے اور گانے کا شوق تھا۔ رات کو کھانے کے بعد ہار مونیم لے کر بیٹھ جاتے۔ پرانی غزلیں، قوالیاں اور شعرا کاکلام سناتے ۔ گھر کے سب لوگ چاندنی کے فرش پران کے اردگردبیٹھ جاتے اور ان کی غزل سرائی سے رات گئے تک لطف اندوزہوتے۔ بچوں کو زیادہ دیر تک جاگنے کی اجازت نہیں تھی اسلیے انہیں سونے کے لیے بھیج دیا جاتا تھا مگر ہم چھپ کر غزلیں اور پکے گانوں کے بول سنتے رہے تھے۔
ماموں بھائی کے شوق کا یہ عالم تھا کہ جہاں کہیں بھی جاتے تھے اپنا ہارمونیم ساتھ لے جاتے تھے۔ ہمیں تو ہارمونیم کے ساتھ ان کے گانے میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی لیکن وہ بار بار کہا کرتے تھے کہ طبلے کی سنگت کے بغیر گانے کاکیا مزہ لیکن ظاہرہے کہ گھر میں طبلہ موجود نہیں تھا۔ اگر طبلہ کہیں سے تلاش کرکے مل بھی جاتا تو طبلہ بجانے والا کہاں سے آتا؟ لیکن اس وقت سے ہمیں یہ احساس ہے کہ طبلہ بھی موسیقی کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ جب باشعور ہوئے اور موسیقی سے زیادہ آگہی حاصل ہوئی تو طبلے اور طبلہ نوازکی اہمیت کا بہ خوبی احساس ہوگیا پھر جب فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے تو اس کی مزید تصدیق ہوگئی۔ (جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر542 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں