فنڈز میں خورد بُرد کرنے والے پولیس افسر

فنڈز میں خورد بُرد کرنے والے پولیس افسر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس(آئی جی) کلیم امام نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں تعینات پولیس افسران فنڈز میں خوردبُرد کرتے ہیں۔ پولیس افسروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آئی جی کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے صوبے کی پولیس کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا تو آئی جی سندھ جا چکے تھے اور مجھے بہت سے چیلنج درپیش تھے تاہم ایک بہترین حکمت ِ عملی اور مثبت سوچ کے ساتھ چلے اور کراچی سمیت سندھ بھر میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کو تقریباً ختم کر دیا۔آئی جی نے پولیس افسروں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تعیناتی کے بعد پولیس افسر اپنا کاروبار کرتے ہیں،اور کچھ تو جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ایک ایڈیشنل آئی جی اور پانچ ایس ایس پیز کے خلاف کارروائی کی گئی۔
آئی جی کلیم امام نے سندھ پولیس کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اور اُن کی سرگرمیوں کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ اگرچہ چونکا دینے والا ہے،لیکن یہ انکشاف ہر گز نہیں ہے،کیونکہ وقتاً فوقتاً ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ فلاں کاروبار فلاں پولیس افسر کا ہے اور اسے اُن کے ”کارِ خاص“ چلاتے ہیں،”فرنٹ مین“ کی بجائے پولیس میں کارِ خاص کی اصطلاح زیادہ معروف ہے، ایسے ہی لوگوں کے ذریعے پولیس کے افسر رشوت لیتے ہیں اور پھر اس کے بدلے میں ضرورت مندوں کو سہولتیں دیتے ہیں،پولیس افسروں کے کاروبار کی نوعیت بڑی متنوع ہے جو اُن کی براہِ راست سرپرستی میں ہوتا ہے۔ اگرچہ کوئی بھی سرکاری ملازم اپنے منصب پر رہتے ہوئے کاروبار نہیں کر سکتا،لیکن پولیس افسروں کے پاس چونکہ ”اوپر کی آمدنی“ وافر ہوتی ہے،اِس لئے وہ اس کا کوئی نہ کوئی مصرف تو ڈھونڈتے ہی ہیں اور پھر اسے مختلف کاروباروں میں انوسٹ کر دیتے ہیں۔اگرچہ کوئی افسر قانوناً کاروبار نہیں کر سکتا،لیکن پولیس کے افسروں کے ہر قسم کے کاروبار اعلیٰ افسروں سے چھپے ہوئے نہیں ہوتے،آئی جی نے بھی یہ جو انکشاف کیا ہے یہ بھی حیران کر دینے والا نہیں ہے،سب کو پتہ ہے کہ پولیس والے ذاتی کاروبار کرتے ہیں اور اپنی پوزیشن کو اس کاروبار کی ترقی،پھیلاؤ اور حفاظت کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور کسی بڑے افسر میں اتنی جرأت نہیں کہ غیر قانونی طور پر کاروبار کرنے والوں کو اس سرگرمی سے روک سکے۔آئی جی کلیم امام نے بھی بطور امر واقعہ اس کا ذکر کر دیا ہے اب اگر کوئی اُن سے پوچھے کہ کیا آپ اپنے ماتحتوں کے کاروبار بند کرا سکتے ہیں تو شاید اُن کے پاس شافی جواب نہ ہو۔
کاروبار تو رہے ایک طرف،پولیس افسروں کے جرائم پیشہ افراد سے رابطے تشویش کی بات ہیں اور یہ پولیس افسران جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل کر جرائم کو فروغ بھی دیتے ہیں اور ساتھی اور دوست جرائم پیشہ لوگوں کی مجرمانہ سرگرمیوں کو تحفظ بھی دیتے ہیں،اِس لئے اب اگر کلیم امام نے یہ انکشاف کر دیا ہے تو اُن کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس سلسلے کو روکنے کے لئے بھی کردار ادا کریں،پولیس افسر اگر اپنے محکمے کے فنڈز کی خوردبُرد کرتے ہیں تو یہ بھی اچنبھے والی بات نہیں،حیران کن بات یہ ہے کہ پولیس اہلکار وردیاں پہن کر ڈاکے تک ڈالتے ہیں اور بعض اوقات پکڑے بھی جاتے ہیں،اُن کے خلاف مقدمات بھی قائم ہوتے ہیں،لیکن یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آتا،اور غالباً ایسی وارداتیں سندھ تک محدود نہیں ہیں،پنجاب پولیس بھی اس معاملے میں کوئی زیادہ نیک نام نہیں اور ایسی وارداتیں سامنے آتی رہی ہیں کہ رات کو کسی واردات کی اطلاع متاثرہ فریق صبح کو تھانے میں درج کرانے گیا تو اس کی آنکھیں اُس وقت کھلی کی کھلی رہ گئیں جب انہیں معلوم ہوا کہ صبح کو جو پولیس اہلکار وردی پہن کر تھانے میں بیٹھا ہوا ہے، وہی رات کو ڈاکو بن کر لوگوں کو لوٹ رہا تھا، یہ سلسلہ عرصے سے جاری رہے، شکایتیں بھی ہوتی ہیں، مقدمات بھی درج کرائے جاتے ہیں،لیکن رکنے میں نہیں آ رہا،یعنی پولیس کے بعض اہلکار بیک وقت عوام کے محافظ اور ڈاکو کا کردار ادا کر رہے ہیں اور دیکھنے ولے اُنہیں دیکھتے ہیں اور دم بخود رہ جاتے ہیں،کچھ کر نہیں پاتے،کسی کے خلاف اگر مقدمہ وغیرہ درج ہوتا ہے تو مناسب وقت پر داخل دفتر ہو جاتا ہے اور پولیس اہلکاروں کی ایسی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔
سندھ،خصوصاً کراچی پولیس پر سیاسی اثرات بہت زیادہ ہیں اور ان کے خاتمے کی کوششوں میں اگر کامیابی ہوئی ہے تو و صرف جزوی نوعیت کی ہے اب بھی پولیس پر سیاسی اثرات اتنے گہرے ہیں کہ پولیس اہلکاروں کی وفا داریاں اپنے ادارے سے زیادہ اُن سرپرستوں کے لئے وقف ہیں،جنہیں انہوں نے پولیس میں ملازمت دلوانے کی ”نیکی“ کی ہوئی ہے،چنانچہ جب کسی بھی معاملے میں آپشن پولیس کے ادارہ اور سرپرست کے درمیان آ پڑتا ہے تو ہر پولیس اہلکار پہلے اپنے سرپرست سے اظہارِ وفا داری کرتا ہے،یہ سرپرست کوئی تنظیم بھی ہو سکتی ہے اور کوئی ایسا بااثر فرد بھی جس نے اپنے اثرو رسوخ کے ذریعے کسی کو پولیس میں بھرتی کرایا ہو، سندھ میں آئی جی کے عہدے پر تقرر کے سلسلے میں جو کھینچا تانی حالیہ برسوں میں دیکھنے میں آئی وہ بھی اسی وجہ سے ہوئی کہ پولیس میں دس ہزار ملازمتوں کی گنجائش پیدا ہوئی تھی اور حکومت چاہتی تھی کہ ان بھرتیوں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرے،ایم این ایز اور ایم پی ایز کا کوٹہ بھی رکھا جائے جو اپنے من پسند افراد کو پولیس میں بھرتی کرائیں،ظاہر ہے ایسے لوگ جب ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے تو انہیں قانون کی عملداری سے کیا دلچسپی ہو گی، وہ تو چاہیں گے کہ پولیس کی اس سروس کے ذریعے اپنی اور اپنے سرپرستوں کی خواہشات پوری کریں اور عملاً بھی وہ ایسا ہی کرتے ہیں،اگر پولیس سربراہ اِس بات پر ڈٹ جائے کہ وہ میرٹ پر بھرتیاں کرے گا تو وہ حکومت کی نظر میں پسندیدہ نہیں رہتا،تحریک انصاف میرٹ کا بڑا ڈھنڈورا پیٹتی رہی ہے اور دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اس نے خیبرپختونخوا پولیس کو ”غیر سیاسی“ بنا دیا ہے اس مقصد کے لئے ایک آئی جی کو بڑی شہرت حاصل ہوئی،چنانچہ خیبرپختونخوا پولیس کی سربراہی سے ریٹائر ہونے والے اس افسر کو پنجاب میں پولیس کی اصلاح کی ذمہ داری سونپی گئی،لیکن جب اس افسر نے ایمانداری کے ساتھ اصلاح کا بیڑہ اٹھایا تو اُسے اندازہ ہوا کہ پنجاب کے تلوں میں تیل نہیں ہے،چنانچہ انہوں نے اصلاح کی ذمے داری کا بھاری پتھر چوم کر رکھ دیا اور ایک ماہ بعد ہی استعفا دے کر گھر چلے گئے،اس کے بعد تحریک انصاف کے کسی چھوٹے بڑے نے اس افسر کا ذکرکر ناگوارا نہیں کیا اور پنجاب پولیس وہیں کھڑی ہے،جہاں نو آبادیاتی دور میں کھڑی تھی ان حالات میں سندھ کے آئی جی کے انکشاف نے ایک حقیقت کی نشاندہی تو کی ہے،لیکن کیا اصلاحِ احوال بھی ہو گیا۔یہ سوالیہ نشان ہے جس کا جواب سندھ حکومت سمیت ہر بڑے کے ذمے ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -