ترکی کا شام پر حملہ

ترکی کا شام پر حملہ
ترکی کا شام پر حملہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ترکی نے کرد مسلح گروپوں کے زیر کنٹرول شام کے شمال میں با قا عدہ حملہ کردیا ہے۔جس پر جرمنی ناراض ہے مگر امریکہ خوش ہے، ترکی کی اس جنگ کا مقصد یہ ہے کہ شمالی شام کے اندر30کلومیٹرتک کے علاقے کو اپنے کنٹرول میں لا یا جا ئے اورکرد مسلح گروپوں کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ ترکی کی یہ خواہش بھی ہے کہ شمالی شام کے علاقے میں 1سے2 ملین شامی مہا جرین کو اس علاقے میں زبردستی بسا دیا جائے۔یہ مہا جرین شام میں خانہ جنگی کے باعث 8سال سے ترکی میں پناہ گزین ہیں۔”شامی ڈیمو کریٹک فورسز“میں شامل کرد مسلح گروپس نے اعلان کیا ہے کہ وہ ترکی کے اس حملے کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کر یں گے،جبکہ ترکی کو اس حملے کے لئے جواز فراہم کرنے پرشامی ڈیمو کریٹک فورسز کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ نے کردوں کی پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے۔ترجمان کے مطابق امریکہ نے کردوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ترکی کو اس علاقے میں آپریشن کرنے کی اجا زت نہیں دے گا۔ترکی کی 402,000 مسلح افواج کے مقابلے میں شامی ڈیمو کریٹک فورسز میں شامل جنگجوں کی تعداد 60000 بتائی جا رہی ہے۔ ”شامی ڈیمو کریٹک فورسز“ کو امریکہ اور نیٹو نے شام کی خانہ جنگی کے دوران امداد فراہم کی تھی تا کہ شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے الگ کیا جا سکے۔

ایک طرف جہاں امریکہ، کردوں کے خلاف جنگ کے لئے ترکی کی مدد کر رہا ہے تو وہیں پر ٹرمپ اس بارے میں منا فقت پر مبنی پا لیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ اگر ترکی نے کسی قسم کا تجاوز کرنے کی کوشش کی تو ترکی کی معیشت کو تباہ کر دیا جائے گا۔ترکی کے کردوں پر حملے کے اس خطے پر انتہائی بھیا نک نتا ئج سامنے آئیں گے۔یہ خطہ پہلے ہی 1991ء اور2003ء کی عراق جنگ اور پھر2011ء میں نیٹو کے لیبیا اور شام پر حملوں کے با عث تباہی دیکھ چکا ہے۔ شامی حکومت جس کو ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے،اس کا ترکی کے اس حملے پر واضح موقف یہ ہے کہ یہ حملہ شام کی سا لمیت پر حملہ ہے۔ یوں اس حملے سے بڑی طا قتوں کے ما بین بھی تعلقات مزید متا ثر ہو سکتے ہیں۔شام میں امریکہ اور نیٹو کے عزائم کو پو را کرنے کے لئے شامی ڈیمو کریٹک فورسزکو2015ء سے بھر پو طریقے سے استعمال کیا گیا، مگر اب ان کوجنگ کے دہانے پر چھوڑ دیا گیا۔ اس سب سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ قوم پرستانہ تحریکوں کو سامراجی مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئے۔


کرد قوم، تر کی، شام، عراق اور ایران کے علاقوں میں تقسیم ہے۔ دنیا کی ہر مظلوم قوم کی طرح کرد قوم کے پاس بھی آزادی یا خود مختاری کا حق ہونا چاہئے،مگر کرد سیاسی جما عتوں کا المیہ یہ رہا ہے کہ انہوں نے اپنی حمایت کے لئے کبھی امریکی ”سی آئی اے“ پر انحصا ر کیا، کبھی اسرا ئیل اور کبھی شاہ ایران،بلکہ سرد جنگ کے دوران تو کئی کرد مسلح جماعتوں نے سوویت یو نین سے بھی حمایت حاصل کی،مگر ہرسامراجی طا قت نے کردوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور اپنا مطلب پورا ہونے پر ان کو پھر سے بے یا رو مدد گا ر چھوڑ دیا گیا۔ اب امریکہ اس کی تا زہ مثال ہے، جب ٹرمپ کو اس با ت کا یقین ہو گیا کہ امریکہ یا نیٹو کو اب کردوں کی مزید ضرورت نہیں تو پھر ان کو ترکی کے آگے جنگ میں جھونک دیا گیا۔2003ء میں عراق پر امریکی قبضے کے بعدشمالی عراق میں مو جود کرد جماعتوں نے امریکی قبضے کی حمایت کی۔اسی طرح جب2014ء کے بعد سے ایران اور روس کی مدد سے شامی صدر بشار الاسد نے امریکہ، نیٹو اور عرب ممالک کی حمایت یافتہ اسلامی انتہا پسند تنظیموں کو شکست دی تو اس سے امریکہ، نیٹو اور کئی عرب ممالک بہت زیا دہ ما یوس ہوئے۔انہوں نے اب اسلامی انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ ساتھ کردوں کے مسلح گروپوں کو بھی امداد فرا ہم کرنا شروع کر دی ہے۔

ایسے میں تو کر دوں کی جماعت ”YPG“ اس جنگ میں امریکہ کی اہم پراکسی کا کردار ادا کرنے لگی۔”YPG“ نے داعش کے خلاف آپریشنز میں بھی اہم کردار ادا کیا۔یہی وہ وقت تھا کہ جب کردوں کی بڑھتی ہو ئی مضبوط عسکری حیثیت سے ترکی کی پر یشانی میں اضافہ ہونے لگا، کیونکہ ترکی،کردوں کو حق خوداداریت دینے سے انکاری رہا ہے۔ ترکی میں ”کردستان ورکرز پارٹی“ کی جانب سے کئی عشروں تک مسلح تحریک بھی چلتی رہی ہے۔ ایسے میں شام کے سرحدی علاقوں پر کسی بھی قسم کی کرد ریا ست ترکی کے لئے بھی بڑا خطرہ بن سکتی تھی، کیونکہ اس صورت میں یہ ریاست ترکی کے اندر بھی کردوں کو حمایت فراہم کرنا شروع کر دیتی۔ اس خدشے کے پیش نظر ترکی نے شام کی خانہ جنگی کے دوران اپنے پرانے حلیف امریکہ کی اس پا لیسی کو بھی کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا،جس کے تحت وہ کردوں کو مسلح اور مالی امدار فراہم کر رہا تھا۔ اب ٹرمپ نے امریکہ کی اس پرانی پا لیسی کو تبدیل کیا۔ یوں ترکی نے یہ فیصلہ کیا کہ شمالی شام کے علاقے میں جہاں پر کر دوں کا کنٹرول ہے، اس کنٹرول کو ختم کیا جا ئے اور اس علاقے کو اپنے کنٹرول میں کرنے کے بعد یہاں پر ترکی میں مقیم شامی عربوں کو بسا دیا جا ئے۔ ترکی کا یہ منصوبہ ان شامی عربوں کے لئے بھی مزید تبا ہی کا با عث بن سکتا ہے،کیونکہ اگر ترکی اپنے اس منصوبے میں کا میا ب ہو گیا اور اس نے دس سے بیس لاکھ شامی عربوں کو اس علاقے میں زبر دستی بسا بھی دیا تو اس عرب آبا دی کو بھی کرد تنظیموں کی دہشت گردی سے براہ راست متاثر ہونا پڑے گا۔


عرب دُنیا میں 1956ء سے لے کر اب تک جتنے بھی حملے کئے گئے، ان میں سے کسی ایک حملے کا بھی مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہو سکا، بلکہ ہر حملے کے بعد حالات مزید خراب ہوئے۔1950ء کی دہائی میں مصر پر حملہ، 80ء کی دہا ئی میں لیبیا پر حملہ، 90ء کی دہائی میں عراق پر حملہ اور پھر شام پر حملے سے ایسے حکمران مزید مضبوط ہوئے،جن کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے یہ حملے کیے گئے تھے۔مصر کے جمال عبدالنا صر، لیبیا کے معمر قذافی اور عراق کے صدام حسین(1991ء) مغربی ممالک کے حملوں سے ان حکمرانوں کی آمریت مزید مضبوط ہوئی اور وہ پہلے سے زیا دہ مقبول ہونے لگے۔ جب 2003ء میں عراق میں صدام حسین کی حکومت ختم کرنے اور2011ء میں لیبیا میں قذافی کی حکومت ختم کرنے کے لئے حملے کئے گئے تو ان حملوں کے باعث عرب دنیا کے اندر ایسی تباہی نازل ہوئی جس کی 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے علا وہ اور کوئی مثال نہیں ملتی۔عرب دُنیا میں جتنے بھی حملے کئے گئے،ان کے باعث غیر ریا ستی عنا صر مضبوط ہو ئے اور ان غیر ریاستی عناصر نے ایسے آمروں سے بھی زیا دہ تبا ہی مچا ئی،جن آمروں کے مظالم کو بنیاد بنا یہ حملے کئے جاتے تھے۔

شام کی خانہ جنگی سے ہو نی والی تبا ہی پر شامی سنٹر فار پا لیسی ریسرچ کی جانب سے پیش کئے گئے اعداد و شمار شام کی مخدوش صورتِ حال کو بیان کرنے کے لئے کا فی ہیں۔ ان اعداد و شما ر کے مطابق شام کی کل آبادی کا 11.05فیصد اس خانہ جنگی سے یا تو ہلاک ہو چکا ہے یا پھر زخمی اور معذور ہو چکا ہے۔ شام میں 2011ء میں بے روزگاری کی شرح 14.9فیصد تھی،2017ء میں یہ شرح 52.9فیصد ہو چکی ہے، جبکہ غربت کی شرح 85فیصد سے بھی بڑھ چکی ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق 50 لاکھ شامی باشندے اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے، جبکہ 60لاکھ افراد شام کے اندر ہی مختلف علاقوں میں دربدر ہوچکے ہیں۔عرب دُنیا جنگوں کے باعث پہلے ہی بہت تباہی دیکھ چکی ہے۔یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ حکمرانوں کی پالیسیوں سے براہ راست ایسے افراد متا ثر ہو تے ہیں،جن کا نہ اپنے ملک اور نہ ہی دوسرے ممالک کی پالیسیوں سے کچھ لینا دیناہو تا ہے۔ موجودہ دور میں شام،عراق، لیبیا اور یمن اس کی اہم مثالیں ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -