مولانا کے مطالبات کس کے سامنے؟
مولانا فضل الرحمان موجودہ دور کے وہ بڑے سیاسی راہنما ہیں جن کے متعلق یہ کہا جائے کہ انہیں واقعی سیاست کا فن آتا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں،میرے نزدیک وہ اس میں پی ایچ ڈی ہیں۔ ان کے انداز سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے سیاست سے نہیں۔ انہیں یہ فن بھی آتا ہے کہ سیاست اور حکومت میں اپنا حصہ کس طرح اور کتنا وصول کرنا ہے وہ اس حوالے سے ادھار پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ پاکستان کی سیاست میں وہ نوبزادہ نصراللہ خان کے جانشین ہیں اور ملک میں دو بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ہوتے ہوئے اپوزیشن کی پتنگ کی ڈور اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں۔ ان دنوں وہ اپنے اعلان کردہ آزادی مارچ کے سلسلے میں چاروں صوبوں کے دورہ پر ہیں۔ سیفما کے سیکرٹری جنرل اور معروف صحافی امتیاز عالم نے ان کے اعزاز میں گزشتہ رات ڈنر کا اہتمام کر رکھا تھا جہاں مولانا کی اس حوالے سے باتیں سننے کا موقع ملا۔
گزشتہ رات مجھے وہ تھوڑا سا بیک فٹ پر محسوس ہوئے، وہ اسٹیبلشمنٹ سے اپنا حق ضرور چاہتے ہیں مگر اداروں سے لڑنا بھی نہیں چاہتے۔ ان کے آزادی مارچ کے اعلان کے بعد حکومت اور اپوزیشن دونوں سوچ و فکر کے سمندر میں غوطہ زن ہیں اگرچہ حکومتی عہدیدار اسے کوئی اہمیت نہیں دے رہے، اپنے بیانات میں وفاقی وزراء آزادی مارچ کو غیر اہم قرار دیتے رہتے ہیں، تاہم ان کو اس حوالے سے فکر و پریشانی دامن گیر ضرورہے۔ آزادی مارچ ان کے لئے درد سر بنا ہوا ہے حالانکہ دھرنے اور لاک ڈاؤن کے حوالے سے مولانا ایکسٹریم پر جانے کو تیار نہیں،انہیں اپنے ورکرز کا بھی خیال ہے۔
ان کا یہ کہنا تھا کہ ابھی انکی تمام توجہ ا?زادی مارچ پر ہے اس کے بعد آئندہ حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا، اس کے باوجود جے یو آئی (ف) تنہا جس بڑے پیمانے پر آزادی مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہے اس کے پیش نظر امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے جسے لے کر اسلام آباد کے حکمرانوں کی پیشانی شکن آود ہے۔ اسلام آباد پولیس، ضلعی انتظامیہ تو اپنے طور تیاری میں مصروف ہے ہی مگر راولپنڈی، جہلم، چکوال، اٹک کی پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو بھی آزادی مارچ کے حوالے سے تیار رہنے کے احکامات صادر کر دیئے گئے ہیں، قبل ازیں پروگرام اسلام آباد تک محدود تھا دیگر شہروں سے قافلوں نے اسلام آباد آ کر آزادی مارچ میں شریک ہونا تھا مگر اب آزادی مارچ کا اکٹھ باقی شہروں میں کرنے اور پھر ایک ساتھ اسلام آباد تک جانے پر غور کیا جا رہا ہے جس کے بعد گجرات، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور لاہور پولیس، ضلعی انتظامیہ کو بھی بھرپور تیاری کی ہدایت جاری کر دی گئی ہیں۔ 27 اکتوبر کو اگر دیگر جماعتوں کی مشاورت سے لاہور سے آزادی مارچ شروع کرنے پر اتفاق رائے ہو جاتا ہے تو پھر راستے میں آنے والے تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں بھی شو کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مولانا فضل الرحمن اجتماعات اور جلسوں سے خطاب کرنے کے عادی ہیں اور وہ پہلے بھی کئی ملیئن مارچ کر چکے ہیں مگر پہلی مرتبہ وہ ایک بہت بڑا شو کرنے جا رہے ہیں جس کے باعث اب تک گو مگو کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ان کے نزدیک ایک بڑا مسئلہ آزادی مارچ کے شرکاء کی اکثریت کا دینی مدارس کے طلبہ کا ہونا ہے ان میں سے بھی اکثر کی عمر 10 سے 15 سال کے درمیان ہے ان کم سن بچوں کی حفاظت اور انہیں متحد رکھنا، مارچ میں شرکت کو یقینی بنانا بھی مولانا اور دیگر پارٹی قائدین کے لئے دردسر ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے مولانا جو ہمیشہ آئین اور جمہوریت کے دعویدار رہے ہیں کو آزادی مارچ کیلئے کوئی سیاسی نعرہ اور ایشو نہیں مل رہا، اب گمان ہے وہ سیاسی مارچ کو مذہبی مارچ میں تبدیل کر دیں گے، جس کے لئے ان کی جماعت تیاری شروع کر چکی ہے، مولانا نے آزادی مارچ کو مذہبی بنانے کے لئے دو ایشوز کو بنیاد بنا نا ہے ایک بلاوجہ کا مسئلہ ہو سکتا ہے کہ آئین کی اسلامی شقوں کا تحفظ کیا جائے گا، جبکہ آئین کی اسلامی شقوں کو نہ تو کوئی چھیڑ رہا ہے نہ ان کو ختم کرنے کا حکومت کا کوئی منصوبہ ہے، دوسرا ایشو ہے دینی مدارس میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی، یہ بھی بلاجواز سی بات ہے حکومت تو دینی مدارس میں اصلاحات لانے کیلئے پہلے روز سے کام میں مصروف ہے۔ برسبیل تذکرہ شائد قادیانیوں کا مسئلہ بھی اٹھا دیا جائے مگر یہ بھی بے وقت کی راگنی ہو گی کہ قادیانیوں کی آئین میں جو حیثیت ہے حکومت کے پاس اسے تبدیل کرنے کے لئے سینٹ اور قومی اسمبلی میں اکثریت ہی موجود نہیں، البتہ مولانا، ناموس رسالت کے ایشو کو کیش کرانے کے لئے تیاریاں ضرور کر رہے ہیں۔
آزادی مارچ کو کامیاب بنانے کی بے انتہا کوششیں کی جا رہی ہیں، سرمائے کی بھی کمی نہیں، شریف فیملی کی طرف سے سیاسی، اخلاقی حمائت کے ساتھ مالی تعاون بھی انہیں حاصل ہے مگر اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی بڑی شرکت ممکن نہیں ہے اور مولانا کو خود بھی اس کا احساس ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں کا ایک مختصر سا وفد آزادی مارچ کے اختتامی جلسہ میں شرکت کر کے اپنی نمائندگی ظاہر کر دے گا مگر ان کے کارکنوں کی بھرپور شرکت ناممکنات میں سے ہے، پیپلزپارٹی تو واضح طور پر کوئی اعلان نہیں کر رہی اب امتحان ہوگا، مختلف اضلاع کی حکومتی انتظامیہ اور پولیس کا کہ وہ اس آزادی مارچ کو مشتعل کر کے پرتشدد مارچ میں تبدیل کرتی ہے یا ان کو فری ہینڈ دے کر خود دور کھڑے ہو کر تماشا دیکھتی ہے، میرا خیال ہے کہ موخرالذکر آپشن پر ہی حکومت کی نظر ہے جبکہ مولانا ایک بڑے جلسے میں اپنے مطالبات پیش کر کے اس کا اختتام کر دیں گے مگر وہ اپنے مطالبات رکھیں گے کس کے سامنے۔ یہ بھی اس وقت ملیئن ڈالر سوال ہے۔