ہماری تعلیمی زبوں حالی اور یو ای ٹی لاہور
پاکستان میں معاشی، معاشرتی، سماجی اور سیاسی المیوں کی داستانِ دراز سے مفر کی قطعاً کوئی گنجائش ہے ہی نہیں اور یہ تاریخ اتنی ہی طویل ہے جتنی ارضِ وطن کی عمر عزیز۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ہم سوچتے ہیں کہ کیا یہ پاکستان ہے یا حیرتوں کا جہان کہ جس کے کسی کو نے کھدرے کوچے قرئیے سے کسی خیر کی خبر سننے اور پڑھنے کو ملتی ہی نہیں۔ یہ ایک افسوسناک تصویر ہے اور شاید اس کی ایک وجہ غالباً یہ بھی ہے کہ قیامِ پاکستان کے خوشگوار تجربے کے بعد بد قسمتی سے ہمارے حصے میں (قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے چند ایک جانثاروں کے سوا) ہندوستان کے مقابلے پر حقیقی معنوں میں سیاستدان اور مدبر نہیں بلکہ سیاسی تلچھٹ آئی۔ حکیم الامت قوم کو نوزائیدہ مملکت کے وجود میں آنے سے قبل ہی داغ مفارقت دے گئے۔ ایک اور المیہ قوم کو اپنے عظیم قومی راہنما اور قائد کی افسوسناک رحلت کی صورت میں دیکھنا پڑا۔ باقی ماندہ سیاسی قیادت جیسا کہ نہ صرف اپنے رخ کردار کو درست سمت نہ دے سکی،بلکہ اس نے ملک اور قوم کو پٹڑی پر ڈالنے کی کوئی شعوری کوشش بھی نہ کی۔
کبھی بیوروکریسی اس پر اپنے غلبے کو حقِ فائق تصور کرتی رہی اور انگوٹھے کے نیچے دبائے رکھنے کی آرزو مند رہی اور عملاً ایسا کرتی بھی رہی اور کبھی آمریت بندوق کی نوک کے بل بوتے پر ہر شے کو تلپٹ کرتی رہی اور وجہ جواز آمروں نے بھی اور بیوروکریسی نے سیاست دانوں کی نارسائیوں اور ان کی بر خود غلط پالیسیوں کو ہی بتایا اگرچہ یہ الزام ڈگری کے فرق کے ساتھ کچھ نہ کچھ سچا بھی ہو لیکن حقیقت مسلمہ یہی ہے کہ نہ سول بیوروکریسی نہ پاک فوج کے ادارے اور نہ ہی سیاسی کلاس نے عوام کی نبضوں پر ہاتھ رکھا اور نہ ان کی درہم برہم ہونے والی سانسوں کو کسی بیرومیٹر سے چیک کرنا مناسب سمجھا۔ کوئی بھی اس باغ کا باغبان نہیں بنا بلکہ ملک و قوم کے لئے آکاس بیل ہی ثابت ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ہر شعبہ ترقی نہ کر سکا بلکہ تنزل کا شکار رہا اور یہ صورت حال قیام سے لے کر تا دمِ تحریر برقرار ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں سب سے زیادہ مقدم صحت تعلیم اور روزگار کے شعبے ہیں جنہیں کسی بھی ریاستِ مدینہ اور ویلفیئر سٹیٹ کے لئے نظر انداز کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے بلکہ کوئی ملک اس سے صرفِ نظر کرنے کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ دونوں شعبے ارباب بست و کشادگی کی توجہ سے مسلسل محروم چلے آ رہے ہیں۔
تعلیم کا شعبہ ہی لے لیجئے۔ ہر سال بجٹ میں اس کے لئے کس قدر رقم رکھی جاتی ہے آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ سرکاری کالجز تو ایک طرف سرکاری یونیورسٹیاں بے پناہ مشکلات سے دوچار ہیں۔ دو تین روز پہلے ادبی تنظیم ”قلم دوست“اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (UET) لاہور کے اشتراک سے ایک فکری اور علمی نشست میں UET کو درپیش مشکلات و مصائب پروفیسر ڈاکٹر تنویر قاسم کی زبانی سن کر شرکا دم بخود اور انگشت بدنداں رہ گئے کہ دنیا بھر میں ٹیکنیکل تعلیم کے حوالے سے معروف اور مشہور اور مستند تعلیمی ادارہ حکمرانوں کی توجہ سے کس قدر محروم ہے۔ واضح رہے کہ یونیورسٹی کے قیام کو سو سال پورے ہو رہے ہیں جس میں آٹھ ساڑھے آٹھ سو قابل عزت اساتذہ میں سے 400 سو سے زائد معلمین کرام بیرونی ممالک سے پی ایچ ڈی ہیں اور بقیہ چار ساڑھے چار سو اساتذہ اندرونی ممالک سے پی ایچ ڈی ہیں لیکن عرصہ دراز سے اگلے گریڈوں میں ترقی دی گئی ہے نہ ان کی تنخواہوں کے سٹرکچر او ر دیگر الا?نسز کو ان کے شایانِ شان بنایا جا سکا ہے۔ اس پر مستزاد تکلیف دہ اور افسوسناک با ت یہ کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر منصور سرور صاحب نے اپنی ذات کواساتذہ کرام کیلئے شجر ممنوعہ بنا رکھا ہے۔ پروفیسرز اور شعبوں کے سربراہ حتی کہ ڈینز بھی ان سے نہیں مل سکتے حالانکہ ان کے پیشرو وائس چانسلر کی پالیسی بالکل اوپن ڈور تھی اور ان سے کسی بھی وقت لیکچرار سے لے کر اوپر کی سطح کے اساتذہ حتی کہ چپڑاسی بھی مل سکتے تھے لیکن موجودہ وی سی کا رویہ ناقابل فہم ہے۔ مبینہ طور پر وہ ہر شخص کو اپنے انگوٹھے کے نیچے دبائے رکھنا اپنا حق سمجھتے ہیں اگرچہ ہمارے ایک کرم فرما اور معزز دوست پروفیسر نعیم مسعود اس حوالے سے پروفیسرز کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ وی سی کے انگوٹھے تلے دبے رہنا اور اس روئیے پر احتجاج نہ کرنا تذلیل کے زمرے میں آتا ہے اور اس کے ذمہ دار پروفیسر حضرات خود ہیں۔
یہ با ت ایک حد تک ہی قابل فہم ہے کیونکہ راقم کی نظر میں رویہ جارحانہ اور طرز عمل حاکمانہ ہو تو ایک معلم کے لئے خاموش رہنا ہی عزت کا راستہ ہوتا ہے۔ اگرچہ علمی و ادبی تنظیم قلم دوست کے چیئر مین جناب ایثار رانا نے پروفیسر ڈاکٹر تنویر قاسم اور پروفیسر فہیم گوہر کو اپنے قلمی تعاون کا ہر ممکن یقین دلایا تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم خود آپ کے مسائل کے حل کے لئے وائس چانسلر منصور سرور سے بات کریں گے لیکن میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ دنیا کے تمام ترقیاتی ممالک میں ٹیکنیکل تعلیم کو بے پناہ اہمیت دی جاتی ہے بلکہ اکیڈمک تعلیم کے مقابلے پر تکنیکی علم کے حصول کو مقدم گردانا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ٹیکنیکل تعلیم کا شعبہ جس بری طرح تنزل اور زوال کا شکار ہے اس کی مثال ترقی یافتہ ممالک کو تو چھوڑئیے کسی ترقی پذیر ملک میں بھی نہیں ملتی۔ اس کا ایک مطلب شاید یہ بھی ہے کہ حکومت سرکاری یونیورسٹیوں کی سرپرستی سے اس لیے بھی ہاتھ کھینچتی ہے کہ وہ سیلف فنانسنگ سکیم کے کلچر کو فروغ دینا چاہتی ہے بلکہ پرائیویٹ مہنگے تعلیمی اداروں کی دیکھا دیکھی وہ اس مرض اور وبا کا شکار سرکاری تعلیمی اداروں کو بھی کرنا چاہتی ہے لیکن اسے یہ علم ہی نہیں کہ یو ای ٹی جیسے میرٹ پر سختی سے یقین رکھنے والے ادارے اور ٹیکنکل تعلیم دینے والی یونیورسٹیاں میرٹ پر داخلہ حاصل کرنے والے طلباو طالبات کے مقابلے پر کم تر ذہنی سطح کے طلباء کو داخلے نہیں دیتی لیکن سیلف فنانسنگ سکیم کے دروازے کھول کر ذہین طلبا کا حق مارنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن پاکستان چونکہ حیرتوں کا جہان ہے یہاں ہر چیز ممکن ہے۔ ہمارے ہاں ہزاروں کیسز عدالتوں میں زیر التوا ہونے کے باوصف منصفین کرام ماہانہ شاید پندرہ لاکھ روپے لے رہے ہیں۔ اداروں کے چیئرمین بھی لاکھوں میں پڑتے ہیں۔