ویاناسے

 ویاناسے
 ویاناسے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ویانا سے ہمارا تعلق جنم بھومی کا تو نہیں اور نہ ہی ہم یہا ں کے جم پل ہیں، البتہ اس شہر میں ہماری مادرِعلمی ضرور ہے۔میری مراد یونیورسٹی آف ویانا سے ہے جس کا شمار دنیا کی مشہوراور قدیم ترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ مارچ 2015ء میں جب ہم یہاں سے ڈاکٹریٹ کررہے تھے تو 1365ء میں قائم ہونے والی وسطی یورپ کی یہ قدیم ترین یونیورسٹی اپنی چھ سو پچاسویں سالگرہ منا رہی تھی۔اس یونیورسٹی کے کئی سائنسدان طب، کیمسٹری، فزکس اورمعاشیات میں نوبل انعام حاصل کر چکے ہیں ……اس بار جب یہاں آنا ہوا تو ویانا پہلے جیسا نہیں تھا۔ ایک تو یہ کہ گزشتہ پانچ سال میں یہاں کئی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔یونیورسٹی کی وینڈنگ مشین، جس میں سکہ ڈالتے ہی کھانے پینے کے لئے کچھ برآمد ہو جاتا تھا، اب بینک کارڈ  کی شکل دیکھے بغیر کچھ دینے کو تیار  نہ تھی۔ پہلے تو ہم دس منٹ تک سکہ ڈھونڈتے رہے، پتہ چلا کہ اب سکے کے لئے اس مشین میں کوئی جگہ نہیں۔پانچ سال پہلے ہم میلڈیسیٹل جو یہاں کا ڈومیسائل ہے بنوانے کے لئے دفتر جایا کرتے تھے،اس کے بار آن لائن اپلائی کیاتو ڈومیسائل جن کی طرح حاضر ہو گیا۔ہمارے ہاں ڈومیسائل بنوانے کے لئے جوتوں کے دو جوڑے  تو ضرور گھس جا تے ہیں، اگر ہم قائد اعظم کا سہارا نہ لیں تو۔اس طرح کی نہ جانے کیا کیا تبدیلیا ں رونما ہو چکی ہیں جنہیں دیکھ  کر یہ احساس تو پانچ سال پہلے ہی ہو گیا تھاکہ ہم پتھر کے زما نے میں رہتے ہیں، البتہ اس بار اس احساس کو کئی گنا تقویت ملی۔دوسرا واضح فرق ویانا میں اس وجہ سے نظر آیا کہ اس بار ہم فیملی کے بغیر تھے، جس کی وجہ سے ہمیں وہ”ویانائی“احساس نہیں ہوا جو کبھی ہو تا تھا۔


نماز پڑھی تو دن ختم ہونے کو نہ آیا۔ شام کے وقت ایک عزیزدوست کے گھر دعوت پر گئے۔ہمارے ہاں اگر کوئی دوست یا عزیز گھر پر بلائے تو ہم بلا جھجک اسے دعوت ہی سمجھتے ہیں، گویا ہم ”مہمان نواز ہی نہیں“ میزبان نواز بھی واقع ہوئے ہیں۔یہ تو ایک حقیقت ہے، جہاں دو یا دو سے زیادہ پاکستانی اکٹھے ہوں وہا ں سیاست پر بات ضرور ہو گی۔ہمارے سیاسی نظریات تو ضرور ہیں،مگر کسی سیاسی جما عت سے اس لیے کوئی تعلق نہیں ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے کوئی نظریات نہیں۔ سیاسی مبا حثے میں ہم نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور اپنے میزبان کو جو وہا ں کی ایک مشہور سماجی شخصیت ہیں تا دم آخر متجسس رکھا کہ ہمارا تعلق کس پارٹی سے ہے۔ یہ مبا حثہ دو افراد کی حد تک محدود نہ رہا۔ اس کی آگ جب دیگرافرادِ خانہ تک پھیلی تو بات سماجی سے سیاسی اور علمی نوعیت کی ہو گئی اور یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ویانا کی جم پل پاکستا نی نوجوان نسل بہت ذہین اور فطین ہے؟ در اصل ماحول،تربیت اور نظام تعلیم کااس میں خاصا عمل دخل ہے۔ پاکستان میں نوجوان نسل میں تنقیدی و تجزیاتی فکر کا بہت فقدان ہے۔اس کمی کی تلافی کے لئے ہم نے بی۔ایس ایجو کیشن میں ”تنقیدی فکر" کے عنوان سے ایک مضمون متعارف کروایا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فکری عمل کی بنیادی درس گاہ خاندان کا ادارہ ہے۔ جس خاندان میں بچوں کو آزادیء اظہار کا مو قع نہ ملے اورعلمی و فکری بحث نہ ہو، وہاں تنقیدی سوچ پروان نہیں چڑھ سکتی۔


اقوام متحدہ کی تعلیمی کونسل کے ایک متحرک اور متفکر پاکستانی نژادآفیسر ڈاکٹر افسررا ٹھور سے ویانا میں جب اس مو ضوع پر بات ہو ئی تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ پاکستانی نظامِ تعلیم کا ایک اہم مسئلہ فکری نشو ونما میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اپنی گفتگو میں اختلافِ رائے پر بہت زور دیا جو فکری نشوونما اور تجزیاتی سوچ کا زینہ ہے۔ہمارے ہاں اختلاف رائے کوبدتمیزی سمجھا جاتا ہے اور ہمارا نظامِ تعلیم اختلاف رائے کی تربیت نہیں کرتا۔ہمیں یہ بارباراحساس دلایا جاتا ہے کہ جو جھکتا ہے، اسے پھل لگتا ہے،اگرچہ ہم تو یہی سمجھتے رہے ہیں کہ جس کو پھل لگتا ہے، وہی جھکتا ہے؟ دیکھا جائے تو کمرۂ جماعت کا ما حول،اساتذہ کا طرزِ عمل اور افرادِ خانہ کا رویہ بچوں اور نوجوان نسل کی فکری نشوونما میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے کہا  کہ ہم گھروں میں بچوں کو علمی گفتگو کا حصہ نہیں بناتے،انہیں دعوتِ فکر نہیں دیتے،ہمیں روز مرہ زندگی میں قومی اور بین الا قوامی امور پر گفتگو کرنی چاہئے۔دور حاضر میں اقوامِ عالم کے اہم مسائل پر بات کرنی چاہئے اور کھانے کی میز پر پاکستان کے معا شی و سماجی اور علمی امور پر مدلل گفتگو سے بچوں میں سوچنے سمجھنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔


ہمارے ہاں تو کھانے کی میز پر کھانے ہی کی بات ہوتی ہے یا سیاست کی۔فکری عمل کو پروان چڑھانے کے لئے بچوں کو آزادیء اظہار کا موقع دینا اور گفتگو کی بنیادی اقدار کو فروغ دینا چاہئے۔ویانا میں چار سال  قیام کے دورا ن اس بات کو شدت سے محسوس کیاکہ یہ بچوں کو ”پورا انسان“سمجھتے ہیں۔ان کے نقطء نظر کو اہمیت دیتے ہیں اور تنقیدی سوچ کی تربیت کرتے ہیں۔اظہار و بیان میں سلیقہ،طریق اظہار، حسن گفتگو اور شائستگی کا دامن نہیں چھوڑتے۔یہاں دو باتیں بڑی بنیادی ہیں۔ایک تو یہ کہ دوسرے کو بات مکمل کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس معاملے میں بھی یہ قوم بڑی صابر واقع ہوئی ہے، دوسرا یہ کہ بات کے دوران کسی کو ٹوکا نہ جائے۔ہمارے ہاں جب کوئی شخص یہ کہے کہ ”معذرت،قطع کلامی ہو رہی ہے“تو اس کو حسنِ گفتگو کا  ایک معیارسمجھا جاتا ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ قطع کلامی کے مر تکب ہو کرآپ معذرت کے طلبگار کیوں ہو رہے ہیں۔یہاں لوگ دوسرو ں کو صبر اور تحمل کے ساتھ اس وقت تک سنتے ہیں جب تک وہ  خود چپ نہیں ہو جاتا۔یہ ہے تجزیا تی فکر کے عمل کا  نقطہ کا آغاز۔

مزید :

رائے -کالم -