2023 میں کون بنے گا مقدر کا سکندر ؟

2023 میں کون بنے گا مقدر کا سکندر ؟
2023 میں کون بنے گا مقدر کا سکندر ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جگہ جی لگانے کی دنیا  نہیں ہے
‏یہ عبرت کی جاء ہے تماشہ نہیں ہے

آج کل  پاکستان میں ضمنی انتخابات کے نتائج اور عمران خان کے چھکے چوکے زیر بحث ہیں۔ لوگ طرح طرح کے تجزیات دے رہے ہیں۔ میرے خیال میں عمران خان کو اب تک کھلی چھٹی دینا، پنجاب میں غیر موافق پرویز الہٰی حکومت،سینئر قیادت کی عدم دستیابی،بے حال معیشت،بجلی کے بلوں اور اوپر سے سیلاب کی تباہ کاریوں نے ضمنی انتخابات میں (ن) لیگ کے امیدواروں کی جیت کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھا دیں جو بعد ازاں شکست کا باعث بنیں ۔گرچہ امید ہے نواز شریف کے واپس آنے تک حالات سازگار ہوچکے ہوں گے لیکن امیدوار انتخاب سے پہلے ہی چیخیں مار رہے تھے ۔ عمران خان7  نشستوں پر امیدوار تھے اور ایسا انتخاب جس پر دوبارہ ضمنی انتخاب پھر ہونا ہو اس پر امیدوار بے دلی کا شکار تھے کہ انہیں یہ انتخاب پھر لڑنا ہوگا۔

میرے خیال میں پی ڈی ایم کو ضمنی انتخاب میں عمران خان کی تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار دستبردار کرلینے چاہئیں  تھے کیونکہ ایک سیٹ رکھ کے اس نے سب خالی ہی کرنی تھیں۔  اس سے ملکی وسائل کی بچت ہوتی اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے لٹے  پٹے  عوام کو سکھ کا سانس بھی ملتا ۔ جب تک عمران خان پارلیمان سے دوبارہ رجوع نہیں کرتے  ان تمام ضمنی انتخابات کے نتائج کی حیثیت ثانوی ہے۔ 

مسائل میں گھری مسلم لیگ( ن) کی ساکھ کو اس کے یکطرفہ بیانئے سے دھچکا لگا ۔ شاید مسلم لیگ نواز کے چیف نے اپنے امیدواران کو یہ بھی باور کروایا ہے کہ بیانئے اور انفرادی شخصیت اور کارکردگی کے ساتھ ساتھ نواز فیکٹر کتنا ضروری ہے۔ تنقید نگار جغادری پہلوانوں کو یہ بھی کہہ رہے ہوں گے کہ ہن آرام اے؟ مسلم لیگ نواز کیلئے نواز شریف الیکٹورل پالیٹکس کیلئے کتنا ضروری ہے ان انتخابات نے اس کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اگلا انتخاب سیاسی ہیوی ویٹ چیمپیئن کا انتخاب ہوگا۔ 

قانون پر نظر دوڑائیں تو تحریک انصاف کے چیف کچھ نشستیں جیت تو چکے ہیں لیکن وہ انکو زیادہ عرصہ رکھ نہیں پائیں گے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 223 کے مطابق عمران خان کو 30 دن کے اندر یعنی 16 نومبر سے پہلے  باقی نشستیں چھوڑنا پڑیں گی  اس آرٹیکل کے مطابق کوئی شخص ایک سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہو جائے تو وہ مذکورہ نشستوں میں سے ایک کے علاوہ باقی نشستوں سے استعفیٰ دے دیگا اور اگر وہ اس طرح استعفیٰ نہ دے تو مذکورہ 30 دن کی مدت گزرنے کے بعد وہ تمام نشستیں جن پر وہ منتخب ہوا ہو ماسوائے اس نشست کے خالی ہو جائیں گی جن پر انتخاب کے لیے اس کی نامزدگی آخر میں داخل ہوئی ہو۔آرٹیکل 223 کے مطابق الیکشن کمیشن کی اب یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ 16 نومبر سے پہلے نشستیں خالی کرے اور 60 دن کے اندر یعنی 16 جنوری تک ان  حلقوں میں الیکشن کرائے۔ میرا اب بھی حکومت کو یہی مشورہ ہوگا کہ ضمنی الیکشن میں غریب عوام کے کروڑوں روپے بچانے کے لیے قانون سازی کی جائے کہ کوئی بھی شخص بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کی 2سے زیادہ نشستوں  پر الیکشن نہ لڑ سکے  ۔

عمران خان اب بھی لانگ مارچ کی دھمکی لگا رہے ہیں ۔ انتخاب گرچہ ایک اچھی چیز ہے اس کا کوئی نقصان نہیں لیکن جس معاشی صورت حال میں عمران خان نے ملک چھوڑا ہے انکی ضد پر کسی بھی طریقہ سے انکو اتنی جلدی دوبارہ نظام مملکت نہیں پکڑایا جاسکتا وہ صبر کریں اور آئندہ انتخابات کا انتظار کریں ۔عمران خان کی دو رخی سیاست اور اداروں کیساتھ محاذ آرائی اور انکی سپہ سالار کی تعیناتی میں دلچسپی نے معاملات کو الجھا دیا ہے۔   ججز کی طرح سپہ سالار کی تعیناتی میں سینئر جنرلز میں سے ایک کو سپہ سالار لگا دینا چاہیے۔ ادارے کو خود بھی کورس کوریکشن کرنا چاہیے تاکہ اس میں سے سیاست اور لابنگ کا مکمل خاتمہ ہو۔

 اگلے انتخابات میں موڈ یہی لگ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان اور نواز شریف کا براہ راست میچ چاہتی ہے اسی لئے خان کو ابھی تک ناک آؤٹ نہیں کیا گیا اور نواز شریف کی واپسی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جارہا ہے۔ انکے اور انکی فیملی کے ساتھ اور انکی جماعت کے سینئر عہدیداران کے ساتھ جو ہوا وہ اب تاریخ کاحصہ ہے۔ عمران خان کو اسکی سمجھ نہیں  آئے گی لیکن جنرل الیکشن کے بعد ضرور سمجھ آئے گی کیونکہ جو گڑھا (ن) لیگ کیلئے انہوں نے اپنے دوستوں سے مل کر کھودا تھا اب عمران خان پارٹی سمیت اس گھڑے میں بقلم خود موجود ہیں اور دوست اور سرپرست ختم شد، باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔

 جنرل الیکشن تب ہوں گے جب حالات سازگار ہوں گے۔ کون جیتے گا ؟ جو پیا من بھائے گا یعنی عوام ۔ بحر الحال  2023 کے جنرل الیکشن کے بعد قوم کے مقدر کا سکندر وہی ہوگا جو عوام کو کچھ کرکے دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ عمران خان کیلئے آگے کا راستہ دشوار گزار ہی نہیں پر خطر ہے وہ آصف علی زرداری نہیں کہ مشکل ترین مرحلے میں اپنے آپ کو کنڑول میں  رکھیں یا   نواز شریف کی طرح  خاموشی سے سب سہہ لیں ۔  یہ الیکشن 2018 کی طرح ون سائیڈڈ نہیں ہوں گے بلکہ 1971 کی طرح تاریخ ساز ہوں گے اگر نیوٹرل، نیوٹرل رہے تو آگے کھڑکی توڑ پروگرام ہے۔ الیکشن یا سیلیکشن دیکھتے جائیے ہوتا ہے کیا۔ ؀ ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے۔ 

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

مزید :

بلاگ -