پھر پتہ چلے گا کون مرد میدان ہے؟؟؟

پھر پتہ چلے گا کون مرد میدان ہے؟؟؟
پھر پتہ چلے گا کون مرد میدان ہے؟؟؟
سورس: File

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پی ڈی ایم کی شہباز حکومت میں ضمنی الیکشن کا ایک مرحلہ تمام ہوا۔۔۔تبصرے اور تجزیے بھی ہو چلے۔۔۔مکرر عرض ہے کہ مہنگائی سب سے بڑا بیانیہ  ہے باقی سب "قصے کہانیاں" ہیں.. گزرے الیکشن میں عمران خان کی فتح "کسی" کا کمال نہیں بلکہ صرف اور صرف مہنگائی کو زوال ہے. سیاسی جماعتوں کے" نفسیاتی کارکنوں" اور "سیاسی درباروں" سے فیض یاب "کارکن صحافیوں"کی "جگالی" تو چلتی رہے گی...غیر جانبدارانہ تجزیہ یہ ہے کہ اس ضمنی الیکشن میں بھی کوئی" انہونی" نہیں ہوئی...آج شہباز دور میں بھی وہی نتائج ہیں جو کل عمران خان کے زمانے میں تھے..خان صاحب کی حکومت میں مہنگائی کا طوفان تھا تو پی ٹی آئی نے تھوک کے حساب سے ضمنی الیکشن ہارے...اب شہباز حکومت میں مہنگائی کا سیلاب ہے تو (ن) لیگ ایک کے بعد ایک الیکشن ہار رہی ہے۔۔۔
تلخ حقائق یہ ہیں کہ خان صاحب کے پاس کوئی معاشی پلان تھا نہ شہباز شریف کے پاس کوئی اقتصادی فارمولہ دکھائی دے رہا تھا۔۔۔خان صاحب کے معاشی دماغ اسد عمر پہلی بال پر ہی پویلین لوٹ گئے..پھر حفیظ شیخ...شوکت ترین اور شبر زیدی بھی نہ چلے...اسی طرح شہباز شریف کے "اکنامک ایکسپرٹ" مفتاح اسماعیل بھی بری طرح فلاپ ہو گئے...اب اسحاق ڈار پر تکیہ ہے...دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟؟؟؟
پی ٹی آئی دور حکومت میں لکھا تھا کہ بلا شبہ خان صاحب "تھیوری "بہت اچھی پیش کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں بنیادی مسئلہ "پریکٹیکل "کا  ہے۔۔۔ ویسے بھی وزیر اعظم کوئی "لیکچرر" یا "موٹیویشنل سپیکر "نہیں ہوتا کہ مسحور کن تقریر کی،داد سمیٹی اور چل دیے ...وہ ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اور اسے مسائل "بیان" نہیں "حل" کرنے ہوتے ہیں۔۔۔بدقسمتی سے تحریک انصاف حکومت کے3 سال میں مہنگائی بنیادی مسئلہ بن کر چمٹ گئی...یا یوں کہہ لیجیے کہ عمران دور میں صرف ایک چیز "اوپر "گئی اور وہ ہے مہنگائی ... پٹرول،آٹا ،گھی اور چینی تو "بڑی چیزیں" ہیں یہاں تو "بے چارہ" برائلر انڈہ "قیامت کی چال" چل گیا ہے۔۔.ارباب اقتدار اور نہ ہی عوام کو سمجھ آرہی ہے کہ کیا کریں..لگتا ہے ووٹ لینے اور دینے والے دونوں ہی بری طرح پھنس گئے ہیں۔۔۔
خان صاحب!وقت کم ہے..."تھیوری "کافی ہوگئی..آپ بھی اب پریکٹیکل کی طرف بڑھیے۔۔۔جان لیں کہ ملک "تھیوری" نہیں پریکٹیکل سے چلے گا!!! اب شہباز حکومت کا بھی انیس بیس کے فرق کے ساتھ یہی حال  ہے...پٹرول ریکارڈ مہنگا ہوا..بجلی کے نرخ ریکارڈ بڑھے .. ڈالر نے آسمان چھو لیا.. روٹی  15 اور نان  25 روپے کا ہو گیا...مہنگائی ختم کرنے کا مینڈیٹ لیکر آنے والی "تجربہ کار ٹیم" اب سیاست نہیں ریاست بچانے کے بھاشن دے رہی ہے۔۔۔یہ خود فریبی آخر کب تک چلے گی؟

ہمارے خیال میں (ن )لیگ کے لیے اس سے پہلے کا ضمنی الیکشن  زیادہ بھاری تھا کہ اسے پنجاب اسمبلی کی کئی نشستوں پر شکست ہوئی...لاہور ایسے گڑھ میں4 میں سے3 نشستیں ہار جانا بہت بڑا دھچکا تھا...یہی وہ الیکشن تھے جس کی بنیاد پر پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوا جبکہ چودھری پرویز الہٰی تخت نشین ہوئے...مسئلہ تب بھی مہنگائی ہی تھا۔۔۔

تحریک انصاف کو بھی ماضی میں  اس طرح کی ہزیمت اٹھانا پڑی...ضمنی انتخابات کے باب میں ڈسکہ الیکشن ہمیشہ حوالہ رہے گا...عمران حکومت کو عروج میں زوال دیکھنا پڑا..ظاہرے شاہ کی نہتی بیٹی نے پی ٹی آئی کی وفاقی اور صوبائی حکومت کے "دھاندلی منصوبے"الٹا دیے... خان صاحب کی 6 نشستوں  کے برعکس یہ ایک نشست بھاری ہے...تب سیدہ نوشین کے مقابلے میں عمران خان بھی ہوتے تو بری طرح ہار جاتے...تحریک انصاف کو بھی" یہ دن "مہنگائی کے باعث دیکھنا پڑا۔۔.
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے دیر آید درست آید کے مصداق اعتراف کر لیا ہے کہ ضمنی الیکشن میں شکست کی وجہ مہنگائی اور بجلی کے بے تحاشا بل ہیں۔۔۔کاش وہ خواجہ آصف کو بھی ساتھ بٹھا کر انہیں بھی سمجھاتے کہ مہنگائی واقعی مسئلہ ہے..
امر واقعہ یہ ہے کہ( ن) لیگ کی قیادت نے عمران خان کے اقتدار کی "چلچلاتی دوپہر" بھگت کر عصر کے وقت روزہ توڑا یا کہہ لیں "نادان" قیام کے وقت سجدے میں گر گئے...اپنے ساتھ یہ ظلم بھی کیا کہ آبیل مجھے مار کے مصداق اقتدار کا طوق بھی گلے ڈالا۔۔۔
ضمنی الیکشن نہیں عام انتخاب  اصل معرکہ ہے.۔.تب کسی کو وفاقی تو کسی کو صوبائی حکومتوں کی "چھاؤں" میسر نہیں ہوگی اور پھر "کھلے آسمان" تلے پتہ چلے گا کہ کون "مرد میدان" ہے..تحریک انصاف کے برعکس پی ڈی ایم کے سامنے بہرکیف" آگ کا سمندر" ہے...عوام کو مہنگائی کے عذاب سے فوری نجات نہ ملی تو گھمسان کا رن پڑے گا اور مہنگائی ختم کرنے کا وعدہ کرکے مہنگائی کی وکالت کرنے والے "نیتاؤں"کی سیاست کے "پرخچے" اڑ جائیں گے...
فیض احمد فیض کہہ گئے تھے:

ہم  دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔.!!!

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

مزید :

بلاگ -