کیا ایٹم بم کی اَب بھی ضرورت ہے؟ 

Oct 19, 2024

منظور احمد

19اگست 1945ء میں جنگ ِ عظیم دوئم کا مکمل خاتمہ پہلے ایٹم بم کی ہولناک تباہ کاری سے ہوا۔ امریکہ نے جاپان کے دو صنعتی شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر بڑی کم طاقت کے دو ایٹم بم گرا کر ڈھائی لاکھ انسانوں کو منٹوں میں صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ جاپان نے چھ روز میں ہتھیار پھینک کر شکست تسلیم کر لی اور 15اگست 1945ء کے بعد سے اَب تک جاپان پر امریکہ کی ایک قسم کی ”حکومت“ قائم ہے۔ جاپانیز نہائت سمجھدار تھے اور ہیں۔ اُنہوں نے اپنی سکیورٹی کی تمام ذمے داری امریکہ پر ڈال دی اور خود اپنے ملک کی معاشی ترقی پر لگ گئے۔ اس وقت جاپان دنیا کا تیسرا بڑا معاشی پہلوان ہے۔پاکستان کا دوسرا بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔ 

 ایٹم بم کی ٹیکنالوجی پر امریکہ کی 1948ء تک اجارہ داری رہی۔ روس نے1949ء میں، برطانیہ نے 1952ء، فرانس نے 1960ء، چین نے 1964، ہندوستان اور پاکستان نے 1998ء اور نارتھ کوریا نے 2016ء میں ایٹم بم دھماکے کر کے اپنے آپ کو ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کر دیا۔ اسرائیل بھی 150 سے زیادہ ایٹم بم رکھتا ہے، لیکن اُس کا سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا گیا۔ اِن ممالک کے علاوہ مزید 13 ممالک ایسے ہیں جو ایٹم بم بنا سکتے ہیں، لیکن اُنہوں نے ابھی علانیہ تجربہ نہیں کیا۔ اب تک دنیا میں قریباً 15000 سے زیادہ ایٹم بموں کا ذخیرہ موجود ہے۔ اِن بموں کی صرف چوتھائی تعداد ہمارے تمام کرہِ ارض کی آٹھ ارب آبادی کو صرف ایک دن میں ختم کر سکتی ہے، لیکن ایٹم بم 1945 کے بعد کبھی استعمال نہیں ہوا۔ پچھلے 80 سالوں میں سرد جنگ بھی رہی، کورین وار اور ویٹ نام کی جنگ بھی ہوئی، پاکستان اور بھارت کے درمیان کارگل بھی ہوا، برطانیہ کے ساتھ فاک لینڈ جنگ بھی ہوئی، روس افغانستان اور پھر امریکہ افغان وار بھی ہوئی اور اَب روس اور یوکرین کے درمیان روایتی، لیکن بہت جدید ہتھیاروں کے ساتھ 29 ماہ سے زیادہ عرصے سے جنگ جاری ہے، لیکن ایٹم بم اِن میں اَب تک کبھی استعمال نہیں ہوا اور شائد آئندہ بھی نہ ہو البتہ ایٹم بم چلانے کی دھمکی تو ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کو دو مرتبہ سے زیادہ دے چکے ہیں۔ آخری دھمکی عمران خان نے 2021ء فروری میں ہندوستان کو دی تھی۔اِن دونوں ممالک کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ کبھی بھی ایٹمی جنگ کا خطرہ مول نہیں لیں گے، کیونکہ ایٹم بم دونوں ممالک کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دے گا۔ Mutualتباہی کے خوف سے ہندوستان اور پاکستان کبھی بھی روائٹی ہتھیاروں سے آگے نہیں جائیں گے، لیکن ہندوستانی BJP کی حکومت پاکستان دشمنی سے باز نہیں آئے گی۔ بالکل جس طرح اسرائیل کے دماغ سے مسلمان دشمنی کبھی ختم نہیں ہو گی۔ اسرائیل جو یقیاً روائتی اور غیر روائتی ہتھیاروں کا بلا واسطہ موجدبھی ہے، اُس نے Internet کے انوکھے استعمال کے ذریعے ایٹم بم سے زیادہ خوفناک اورTargeted ہتھیارنہ صرف ایجاد کر لیا ہے بلکہ اُس کا عملی تجربہ لبنان میں کر بھی دیا ہے۔ پیجیر (Pagers) 1990ء کی دھائی میں Non vocal مواصلاتی سہولت کے لئے ایجاد ہوئے تھے، جو عموماً ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے اہل کاروں کے زیر استعمال ہوتے تھے۔ دوسرے کاروباری ادارے بھی اپنے فیلڈ سٹاف کے لئے اس Device کو استعمال کرتے ہیں۔ ابھی سمارٹ فونز ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ واٹس ایپ بھی نہیں آئی تھی۔ Pager سب سے زیادہ محفوظ اور تیز مواصلاتی ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔  Pagers کے ذریعے100 الفاظ کا پیغام تحریری طور پر بھیجا جا سکتا ہے اور اُسے دشمن درمیان میں اُچک بھی نہیں سکتا جب کہ آج کل کے جدید مواصلاتی آلات کا تمام Data اور گفتگو Intercept کی جا سکتی ہے۔ محفوظ مواصلات کے لئے ہی اسرائیل کی جارحیت کا جواب دینے کے لئے حزب اللہ نے اپنے جہادیوں کے لئے 5000 پیجرز تائیوان کی کمپنی سے خریدنے کا سودا کیا۔ تائیوان کی کمپنی کے Pagers بنانے کا لائسنس ھنگری کی ایک کمپنی کے پاس تھا۔ اسرائیل نے حزب اللہ کے لیٹر آف کریڈٹ (جو بینکوں کے ذریعے کھولا جاتا ہے) کی جاسوسی کر کے اُس ھنگرین فیکٹری کا اَتہ پتہ حاصل کر کے، اُس کو کثیر رقم دے کر کمپنی ہی خریدلی اور اس سودے کو مکمل کاروباری انداز دیا گیاتاکہ کوئی شک نہ کر سکے۔ جب یہ کمپنی اسرائیل کی ملکیت ہو گئی تب، اُس وقت اسرائیل نے Nano Chips پیجرز کے سرکٹ میں خفیہ فریکونسی پر Programme کے ساتھ نصب کر دیا۔ ظاہرہ طور پر یہ پیجرز بے ضرر سے نظر آتے تھے، لیکن اِن پیجرز کے Chips کو ریموٹ کمانڈ کے ذریعے جب حکم ملا تو وہ دھماکے سے پھٹے بھی اور پیجرز میں Lithium icon کی جوبہت ہی چھوٹی بیٹری چپکی ہوتی ہے وہ بیٹری بھی دھماکے سے پھٹی اور آگ کو زیادہ پُر خطر بنا دیا۔ہمارے موبائل ٹیلفونز، لیپ ٹاپس، گھڑیوں، کھلونوں یہاں تک کہ کاروں میں Lithium،  Magnesiumیا Cadmium کی بیٹریاں نصب ہوتی ہیں۔ابھی زیادہ تر Lithiumکی بیٹریاں ہی استعمال ہو رہی ہیں۔  

آئندہ کی جنگیں انسان نہیں لڑیں گے۔ روبوٹس لڑیں گے، جن کو کمانڈ ہزاروں میل دور سے دی جا سکے گی۔ ڈرون آج کل کی ہوائی اور زمینی جنگ کا جدید ہتھیار ہے جو پچھلے 20 سال سے کامیابی سے استعمال ہو رہاہے۔ اگلے دس سال میں اس کی رفتار اور Payload زیادہ بڑھا دیا جائے گا۔ اسی طرح ٹینکوں کو انسان نہیں چلائیں گے، بلکہ روبوٹس چلائیں گے۔ شہروں میں میلوں اِطراف ہوا میں شامل آکسیجن کو کئی گھنٹوں کے لئے چوس (Suck)کر لیا جائے گا۔ انسان اور گھریلو جانور  آکسیجن کے بغیرتڑپ تڑپ کر مر جائیں گے۔ Cyber war کے نِت نئے طریقے، جنہیں ہم ابھی فلموں میں دیکھتے رہے ہیں وہ حقیقت بنتے جا رہے ہیں۔ 

Cyber war کے اوپر بہترین لٹریچر لکھنے والے P w. Singer اور Allan Freidman دونوں یہودی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بہت جلد کسی بھی دشمن ملک کی تمام آبادی کو بغیر گولی چلائے تل ابیب سے ہی ختم کر دیا جائے گا۔ ایک اور سائنس فکشن لکھنے والے Fred Kaplan کےimaginative سائبروار کے طریقوں کو حقیقت میں بدلہ جا رہا ہے۔ ہمارے گھروں کی بجلی کی تمام تاروں میں گھریلو وولٹیج (220 volts)کی بجلی آ رہی ہوتی ہے جو ہمیں واپڈا سپلائی کرتا  ہے، لیکن اگر اچانک اُن تاروں میں 11,000 وولٹ کی بجلی Remote Lazers کے ذریعے سرایت کر جائے تو اُس گھر کا کیا حال ہو گا۔ گھر کی ہر چیز، ہر انسان اور جانور فوراً بھسم ہو جائیں گے۔طاقتورLazers,  اور فضاء کی آکسیجن کو ختم کر دینے والی ٹیکنالوجی مصنوعی (AI)، انٹیلی جنس کے ذریعے صرف اگلے پانچ سال میں بروئے کارہو جائے گی۔ روائتی جنگ جو ٹینکوں، توپوں اور ہوائی جہازوں سے لڑی جاتی ہے وہ سب قصہئ پارینہ بن جائیں گے۔ ایٹم بم کی بھی ضرورت نہیں رہے گی، کیونکہ ایٹمی جنگ تمام ا،نسانی زندگی کو اس دنیا سے نہ صرف ختم کر دے گی، بلکہ اس کرہِ ارض پر سینکڑوں سال تک زندگی کے آثار بھی پیدا ہونے نہیں دے گی۔ سائنس اگرشیطان کا روپ دھار لے تو قیامت کُبرا بھی لا سکتی ہے۔ مسلمان ممالک میں خاص طور پر پاکستانی سائنسدانوں کے پاس Robotic ہتھیار بنانے کی زبردست صلاحیت ہے، لیکن پاکستان کے پاس ذرائع کی کمی ہے۔ سب سے بڑی بات کہ بطور مسلمان ملک کے پاکستان کو 50 سال سے دال روٹی کے چکر میں ڈالا ہوا ہے۔ کچھ اپنوں نے اور زیادہ تو باہر والوں نے۔ کیا ہم مسلمان ممالک بشمول پاکستان اس قسم کی جنگوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں؟

ایٹم بم اَب طِفل تسلی ہے۔ آئندہ کی جنگ میں توپیں اور گولے بھی استعمال نہیں ہونگے چہ جائے کہ ایٹم بم۔ کیا دماغ، اختراع اور ایجاد کرنے کی صلاحیت صرف یہودیوں کی ملکیت ہے؟ مسلمانوں میں کوئی بھی Cyber war کے جدید ترین طریقے ایجاد نہیں کر سکتا؟ دُکھ اور شرم کا مقام ہے۔ 

٭٭٭٭٭

مزیدخبریں